تحریر: محکم الدین
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کے دورۂ چترال اور چترال کیلئے اُن کے اعلانات نے کئی پارٹیوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ اُبھرتی ہوئی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی اس صف میں شامل ہیںیہی وجہ ہے ۔ کہ وزیر اعظم کی تقریر پر ان دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے رہنما اور کارکن زیادہ سیخ پا نظر آرہے ہیں ۔ اور تقریر کے سیاق وسباق پر مختلف انداز میں تبصرے کررہے ہیں ۔ یہ تمام پارٹیوں کا حق ہے ۔ کہ وہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق وزیر اعظم کی تقریر اور اعلانات پر اپنے خیا لات کا اظہار کریں ۔ کیونکہ یہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی مجبوری ہے ۔ کہ وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ رکھنے کیلئے اپنے حریف پر وار کریں ،چاہے مخالف پارٹی کتنی ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہ کرے اور آسمان سے تارے کیوں نہ توڑ لائے۔ سیاسی پارٹیوں کو خود کو زندہ رکھنے کیلئے اپنے حریف کے خلاف بات ہر صورت کرنی ہی ہوتی ہے ۔ یوں حسب روایت و توقع چترال میں وزیر اعظم کی تقریر پر سوشل میڈیا اور میڈیا میں مخالفین کی طرف سے بحث جاری ہے ۔ اور اس میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے حامیوں اور کارکنوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ جمہوریت کا حسن ہی یہ ہے ۔ کہ کسی پر تنقید برملاکیا جائے ۔ اور ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ تحریک انصاف ہو پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی و جے یو آئی اور اے این پی یا کوئی اور پارٹی اُن کو دوسری پارٹیوں کی کمزوریوں پر انگلی اُٹھانے کا پورا اختیار ہے ۔ ہم اُن کے اس ا ختیار میں مداخلت کا حق رکھتے ہیں اور نہ اس حوالے سے اُنہیں کسی قسم کا مشورہ دینے کے مجاز ہیں ۔ لیکن ا یک چترالی کی حیثیت سے اس اختلاف کو تھوڑا سائڈ پر رکھ کر ہم اگر چترال کی ترقی پر نظر ڈالیں ۔ اور یہ جائزہ لیں کہ مخالفین کے بقول چترال کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور مپھلجھڑیاں بکھیرنے والے وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے چترال کی تعمیر وترقی کے لئے ان تین سالوں کے دوران کیا کچھ کئے ہیں۔ اور کر رہے ہیں ،زیادہ بہتر ہو گا تاکہ ہمیں زبانی کلامی اور عملی ہمدرد کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ مثال کے طور پر جب وفاق کی طرف دیکھتے ہیں۔ تو موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت سے پہلے چترال کیلئے موت و حیات کی حیثیت رکھنے والے لواری ٹنل کا سانس رُک گیا تھا ۔مشینریز سمیٹ لئے گئے تھے ۔ مزدور اور انجینئرز اپنے اپنے ملکوں کو اور علاقوں کو چلے گئے تھے ۔ کچھ گولین گول ہائیڈل پراجیکٹ میں منتقل ہو گئے تھے ، ٹنل کی تعمیراتی کمپنی سامبوکے کروڑوں روپے حکومت کے ذمے واجب الادا تھے ۔ اورٹنل کے دونوں دھانوں پر پتھر ڈال کر بند کردیا گیا تھا ۔ جب موجودہ وزیر اعظم کی حکومت آئی ۔ٹنل کے دھانے کھول دیے گئے ۔ مشینریز نے دوباہ حرکت شروع کی ۔ کورین انجینئرز اپنے ملک سے واپس آئے،اور اُس روز آج کا روز تین شفٹوں پر کام جاری و ساری ہے ۔ سامبو کے بقا یا جات نہ صرف ادا کئے گئے ۔ بلکہ ایڈوانس چھ ارب روپے اُسے دے دیے گئے ۔ اور کمپنی کو یقین دلایا گیا کہ پیسے کی فکر نہ کرنا ۔ دن رات کام کرکے جلد از جلد تعمیر مکمل کرکے چترال کے لوگوں کو مشکلات سے نکالنا ۔ اب تک تین سالوں کے دوران 10ارب روپے لواری ٹنل پر خرچ کئے گئے ہیں ۔ جب کہ 8ارب روپے 2016-17کیلئے مختص کئے گئے ہیں ۔ وزیر اعظم خود اس میں اتنی د لچسپی لے رہے ہیں ۔ کہ انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے گذشتہ روز چترال کے دورے کے موقع پر ٹنل کی وزٹ کی ۔ اور ٹنل کے اندر ایک کلومیٹر تک جا کر تمام کام کا خود جائزہ لیا ۔ اور موقع پر این ایچ اے کو ہدایت کی ۔ کہ جون 2017کو ٹنل افتتاح کیلئے مکمل ہونا چاہیے ۔ چترال پر سیلاب اور زلزلے کے دو بڑے آفت آئے ۔ وزیراعظم نے دو مرتبہ چترال کا دورہ کیا ۔ اوردو ارب بیس کروڑ روپے امدادی چیکوں کی صورت میں تقسیم ہوئے ۔ چکدرہ چترال روڈ کے لئے فنڈ مختص ہو چکے ہیں ۔ عشریت وغیرہ مقامات کے زمینات کی کمپنسیشن کی آدائیگی ہو رہی ہے ۔ زیادہ تر لوگوں نے رقم حاصل کر لئے ہیں ۔10ارب کی لاگت سے ٹنل سے چترال کی طرف سڑک پر کام زمینات کی رقم کی آدائیگی مکمل ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا ۔ تیس میگاواٹ بجلی چترال کو دینے کیلئے وزیر اعظم نے نوٹیفیکیش جاری کی ہے ، ضلع بھر میں ٹرانسمیشن لائن کے سروے جاری ہیں ، چترال گرم چشمہ روڈ ، ایون بمبوریت روڈ ، کو بین لاقوامی معیار کی سڑک بنانے کیلئے جس کی چوڑائی 42فٹ اورپختہ حصہ 24فٹ ہوگا ۔ فنڈ مختص ہونے کے بعد این ایچ اے نے سروے کا آغاز کردیا ہے ۔ این ایچ اے حکام کے مطابق سروے اور ڈیزائن کی تکمیل کے بعد مارچ میں کام شروع کیا جائے گا ۔ ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے تورکہو روڈ کا افتتاح گذشتہ روز وزیر اعظم نے خود کیا ۔اور حالیہ دورے میں یونیورسٹی اور 250بستروں کا جدید ہسپتال اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کیلئے اعلان شدہ بیس کروڑ روپے ا س کے علاوہ ہیں ۔ان تمام منصوبوں کو یکجا کیا جائے ۔ تو 60ارب روپے کے منصوبے چترال میں چل رہے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں جب ہم صوبے کی حکومت کی چترال پر توجہ کا موازنہ کرتے ہیں ۔ تو انتہائی افسوس ہوتا ہے ۔ کیونکہ چترال کے لوگوں خصوصا نوجوانوں کو بہت زیادہ امید اور توقع تھی ۔ کہ تحریک انصاف کی حکومت چترال پر توجہ دے گی ۔ لیکن وہ اب تک خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صوبائی حکومت نے یونیورسٹی کا اعلان تو کیا ۔ لیکن اُسکی زمین کی خریداری کیلئے اتنی رقم مختص کی ۔ کہ اسے اُونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ اگر صوبائی حکومت سالانہ اے ڈی پی میں اتنی ہی رقم یونیورسٹی کیلئے مختص کر تی رہے ۔ تو یونیورسٹی کی تکمیل کیلئے چترال کے بچے بچیوں کو پچاس سال کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح اے ڈی پی میں چترال کے سڑکوں کی بحالی کیلئے ڈیڑھ کروڑ روپے رکھ دیے گئے ہیں ۔ جو کہ چترال کے عوام کے ساتھ نہ صرف مذاق ہے ۔ بلکہ بیوقوف بنانے کی مذموم کوشش ہے ۔ 2013اور2015کے سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ ویلی سڑکیں ، پلیں ، آبپاشی نہریں اور آبنوشی سکیمیں جوں کی توں پڑی ہیں ۔ چترال شہر کے زرگراندہ اورگولدور کی ایک معمولی لکڑی پُل بحال کرنے کی تاحال انہیں توفیق نہیں ہوئی ۔ جو گذشتہ سال سیلاب میں بہہ گئے تھے ۔ جیپ ایبل پُلوں کی تعمیر جن کی تعداد پورے چترال میں درجنوں میں ہے ،کی بحالی و تعمیر کی توقع رکھنا ہی بے سود ہے ۔جب پارٹی کے سربراہ ڈیڑھ سال بعد چترال آکر چترال کے انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے ڈونر کانفرنس منعقد کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ تو مزید کس چیز کی توقع رکھی جا سکتی ہے یہ تو اُس مقولے کے مصداق ہے ۔’’تریاق از عراق اوردہ شود ۔مارگُزیدہ مُردہ شود ‘‘ ایسے برق رفتار ہمدرد کیلئے کیا کہا جا سکتا ہے ۔ جو زخم بھر جانے کے بعد عیادت کو آئے ۔ اور آئے بھی تو خالی ہاتھ آئے ۔ چترال صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے ۔ اور 2013سے یہ آفات کے نرغے میں ہے ۔ لیکن صوبائی حکومت اس کی مشکلات مسلسل نظر انداز کر رہا ہے ۔ اور وسائل کی کمی کا رونا رو رہا ہے ۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے ۔ تو نوشہرہ ، صوابی ،دیر وغیرہ سمیت صوبے کے سات اضلاع پر نوازشیں ہو رہی ہیں ۔ جبکہ اصل مستحق چترال ہے ۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے ۔ کہ ایسے حالات میں جب کہ صوبے کی حکومت چترال کو یکسر نظر انداز کرچکاہے ۔ اور اُس کے مقابلے میں وفاق چترال کے بہت قریب آگیا ہے ۔ فضول باتوں میں اُلجھ کر اپنے پاؤں آپ کلہاڑی مارنا غیر سنجیدہ لوگوں کا کام ہے ۔ اورچترال کے مفاد کے بالکل خلاف ہے ۔ انتخابات کیلئے بہت وقت پڑا ہے ۔ اُس وقت تک انتظار کیا جائے ۔ اورجو اعلانات ہو چکے ہیں ۔ چترال کے مفاد کے یہ کام حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ سیاست کیلئے میدان کھلا ہے ۔ جو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے ۔ لیکن سب سے بڑی سیاست یہ ہے ۔ کہ چترال کے مفادات حاصل کئے جائیں ۔ اور جو یہ مفادات چترال کو دینے کیلئے تیار ہو ۔ اُس سے لینے کی بجائے نان ایشو کو ایشو بناکر چترال کے ساتھ قربت میں دراڑ پیدا کرکے علاقے کو پھر سے پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی راہ ہموار کرنا کسی بھی طور عقلمندی نہیں ۔ ۔ چترال کے لوگوں کیلئے یہ ضروری ہے ۔ کہ وہ پارٹیوں کے خول سے نکل کر اپنے مفادات کے پیش نظر کسی کی حمایت یا مخالفت کریں ۔ جس طرح گلگت بلتستان اور کشمیر کے لوگ کر رہے ہیں ۔ ورنہ کھوکھلی اور بے مقصد پارٹیوں سے کچھ نہیں ملے گا ۔ اور ہم اسی طرح رُلتے رہیں گے ۔