کالمز

ابراہیم تبسم کی یاد میں

تحریر: شبیر احمد شگری

محکمہ تعلیم سے منسلک ہونے ایک ٹھیک ایک سال بعد حقیر کو ایک پندرہ روزہ Capacity Building ورکشاپ کے سلسلے میں ایلیمنٹری کالج سکردو جانے کا موقع ملا۔ اس ورکشاپ میں ایلمنٹری لیول تک کے تقریباً تمام مضامین کی تدریس ہو رہی تھی۔ ورکشاپ کا پہلا دن اور پہلا پیریڈ تھا۔ تعارفی سیشن میں ریسورس پرسن نے کہا کہ اس پندرہ روزہ ورکشاپ میں آپ بہت کچھ سیکھیں گے۔ خاص کر انہوں نے کہا کہ ابراہیم تبسم صاحب آپ کو میتھ پڑھائیں گے۔ اسی سلسلے میں انہوں نیمزید کہا کہ سکردو کی سرزمین پر تبسم صاحب کو بابائے میتھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سن کر میں بہت خوش ہوا کہ میتھ کے حوالے سے ایک مسئلہ کئی سالوں سے میرے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا، اور کئی اساتیذ سے میں نے ذکر کیا تھا مگر مسئلہ جوں کا توں رہا تھا۔ پہلے ہی پیریڈ میں تبسم صاحب کلاس میں آئے اور مختصرتعارف کئے بعد نمبرز پر سیشن شروع ہوا اور میرا مسئلہ بھی نمبرز ہی کے حوالے سے تھا۔ بہت جلد ہی مجھے اپنا مسئلہ پیش کرنے کا موقع ملا لیکن ایک بار پھر مایوسی ہوئی۔ کیونکہ مجھے جواب دیا گیا تھا کہ آپ کو بعد میں بتایا جائے گا۔ اب سے پہلے بھی جن سے پوچھا گیا تھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا تھا۔ دوسری طرف میرے ساتھیوں نے ٹی بریک کے موقع پر کہا کہ تبسم جو اپنے آپ کو بڑا قابل سمجھتا تھا، تم نے ان کو پھنسا کو دل خوش کر دیا، لیکن میرے ساتھیوں کے کمنٹس نے میرے جذبے کو شدید نقصان پہنچایا، کہ اس کے بعد پھر کبھی کسی سے کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اور نہ ہی تبسم صاحب سے دوبارہ پوچھنے کا حوصلہ ہوا، مگر آفرین اس استاد پر کہ جو اپنے طلباء4 کو مایوس نہیں کرتا۔ سیشن کےآخری دن اور کلوزنگ سریمونی کے بعد استاد محترم نے مجھ متوجہ کیا اور فرمایا کہ شبیر تم نے سیشن کے پہلے دن مجھ سے دو سوالات پوچھے تھے اور میں مسلسل ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں تھا۔ آج صبح ہی میں کامیاب ہو سکا ہوں۔ اور انہوں نے میرے دونوں سوالوں کے جواب دے دیے۔

مجھے استاد مرحوم کی باقاعدہ شاگردی کا شرف کبھی حاصل نہیں رہا سوائے مذکورہ سیشن کے۔ لیکن میں ان سے جتنا متاثر ہوں کسی اور استاد سے آج تک اتنا متاثر نہیں ہو سکا۔ میں نے دوران سروس ان سے بہت کچھ سیکھا جب وہ شگر کے AEO رہے، اور جب وہ شگر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکشن بنے تو میری خوشیوں کا ٹھکانا نہیں تھا۔ ان کی شکل میں میں شگر کے ایجوکیشن کے مستقبل کا محافظ دیکھ رہا تھا۔ میں ایک مخلص، دیانتدار، قابل، ہمدرد اور مشفق آفیسر کو دیکھ رہا تھا کہ جن کے زیر سرپرستی نو زائیدہ ضلعے کا تعلیمی ڈھانچہ ترقی کے منازل طے کرے گا۔ نظام تعلیم میں بہتری آئے گی اور اساتذہ و طلباء4 کے ساتھ ساتھ لوگوں کے تعلیمی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں انہوں نے شگر میں جو تعلیمی خدمات انجام دیں، نہایت گراں مایہ ہے۔ جن میں گرلز پرائمری سکول اسکولی برالدو کا پہلا گرلز سکول ہے، آپ نے جولائی کے مہینے میں اس اسکول کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اسی طرح گرلز پرائمری سکول داسو ، ہائی سکول داسو، پرائمری سکول تھوشو برالدو، پرائمری سکول بونپہ، مڈل سکول ڈوکو وہ نئے خدماتہیں جن کے سلسلے میں کسی نے آپ سے کوئی مطالبہ تک نہیں کیا تھا۔ آپ نے علاقے کو دیکھا، بچوں اور والدین کی مجبوریوں کو محسوس کیا اور خود ہی کوششیں کیں اور محکمہ تعلیمات سے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے منظور کروایا۔ اس کے علاوہ ہائی سکول داسو اور ہائی سکول تسر کو DDO کا درجہ دیکر یہاں کے پسماندہ علاقے میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ یہ تمام وہ کام ہیں جن کی امید ہم عام طور پر اپنے منتخب نمائندوں سے کرتے ہیں۔ لیکن تبسم صاحب سے کسی نے کوئی مطالبہ نہیں کیا مگر انہوں نے اپنے اعلیٰ افسران سے بھر پور مطالبہ کیا۔ ایک بار گلگت سے مجھے معلوم ہوا کہ داسو اور تسر DDO ریجیکٹ ہو گیا ہے جس کا ذکر میں نے مرحوم سے کیا تو مرحوم خاموش رہے مگر اپنے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے آخری مراحل میں اسے دوبارہ منظور کروایا۔

یہ وہ آفیسر تھے جو کبھی کسی کے مطالبے کا انتظار نہیں کرتے تھے، جہاں مسئلہ نظر آتا، خود دیکھتے تھے اور جس طرح سے ممکن ہوتا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے ما تحت عملے کے ساتھ انتہائی شفیق اور دوستانہ رویہ رکھتے تھے اور نہایت ہی ملنسار اور عاجزی تھی۔ ایک بار میں کسی کام سے موصوف کے آفس میں تھا کہ آفیسر بالا کا فون آیا اور کہا گیا کہ ضروری بات کرنی ہے، آفس میں جو بیٹھے ہیں، انہیں دوسرے کمرے میں بھیج دو، مگر آپ نے فرمایا کہ ان سب کو اٹھانے سے بہتر ہے، میں خود اٹھ جاؤں، اور فون لے کر خود ہی کمرے سے باہر چلے گئے۔ ایسے منکسر مزاج آفیسر بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ڈیوٹی کے معاملے مٰں بہت سخت تھے۔ کبھی کسی کو دوستی یاری یا دعا سلام کی بنیاد پر چھوٹ نہیں دیتے تھے مگر کسی کے خلاف کاروائی کی بجائے اس کی برین واشنگ کچھ اس مہارت سے کرتے تھے کہ خود ہی ٹھیک ہو جاتے تھے۔

آج وہ ہم میں نہیں رہے، مگر انہوں نے جاتے جاتے شگر کے لیے اور خاص کر برالدو اور باشہ جیسے دور افتادہ علاقوں کے لیے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ انہیں بہت کم موقع ملا شگر کے عوام کی خدمت کا، انہیں اپنے کیے ہوئے پراجیکٹس کے افتتاح کا موقع بھی نہیں ملا۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پورے خلوص اور دیانتداری کیساتھ مرحوم کے مشن کو آگے چلائیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button