کالمز

صفائی سب کی ضرورت ہے

موجودہ حکومت کو منتخب ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ ہوا ہے اس کے باوجود گلگت بلتستان میں اب بھی ہزاروں مسائل حل طلب ہیں تاہم حالیہ دنوں گلگت شہر کو صاف رکھنے اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکا نے لگانے کے لئے جو انتظامات کئے گئے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔گلگت شہر کو بین الاقوامی اہمیت حا صل ہے کیونکہ یہ گلگت بلتستان کا دارالخلافہ ہونے کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ دنیا بھر میں سیاحتی علاقوں میں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ صاف ستھرا کینیڈا کا صوبہ البرٹا کا شہر کلگیری ہے جس کی آبادی تییس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ 2016 میں دنیا کے دس صاف ستھرے شہروں کی فہرست میں ناروے کا شہر اوسلو، اسٹریا کا شہر وینا،سویڈن کا شہر اسٹوکولم، جاپان کا شہر کوبی،سویزرلینڈ کا شہر زوچ ، سنگاپور اور لگزمیرگ شامل ہیں۔مذکورہ تمام شہروں میں صفائی کے حوالے سے سخت اصول طے کئے گئے ہیں۔صفائی کے حوالے سے دنیا کے بیشتر ممالک میں باقاعدہ قانون سازی بھی کی گئی ہے اور ایسے قوانین پر سختی سے عملدرآ مد کرا یا جاتا ہے کیونکہ دنیا کا خیال ہے کہ صفائی سے معاشرے میں نصف بیماریا ں کم ہو سکتی ہیں جبکہ اس سے سیاحت کو فروغ ملنے کے علاوہ معاشرے میں بسنے والوں کی ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ صا ف ستھرے ماحول سے انسان کے اندر ایک خوشگوار احساس ابھرتا ہے جس سے انسان کی تھکاوٹ اور سستی دور ہونے کے علاوہ منفی خیالات پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ گویا صفائی اچھے رویے، اخلاق، محبت اور امن کے فروغ میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں گذشتہ ادوار میں عوام اور حکومتیں دونوں اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسرے معاملا ت کی طرح صفائی کا ذکر بھی ہم صرف تقریروں اور تحریروں میں ہی سنتے یا پڑھتے رہے ہیں۔ نصف ایمان کا موجب بننے والا یہ اہم کام ہم عملی طور پر کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ باقی دنیا میں عبادت کی طرح صفائی کو ہر شخص اپنا دینی و اخلاقی فرض سمجھتے ہے۔ حالیہ دنوں حکومت کی طرف سے اس حوالے سے جو انتظامات کئے گئے ہیں وہ قابل ستائش تو ہیں مگر اس کا م کو آگے بڑھانے کے لئے جب تک عوام کا تعاؤن شامل نہیں ہوگا اس میں کامیابی ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ کام صرف حکومت اکیلی نہیں کر سکتی ۔ جبکہ حکومت کو بھی اس سلسلے میں ابھی مزید چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں سکولوں اور کالجوں کی مدد سے ماہانہ وار صفائی کو برقرار رکھنے، ڈسٹ بن کا استعمال اور جہاں گندگی نظر آئے اس کی اطلاع متعلق لوگوں کو دینے کے لئے عملی طور پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ مہینے میں ایک دن ایسا مقرر کیا جائے کہ اس دن تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے لوگ اپنے دفاتر، ہوٹل، دکان، سکول، کالج سے باہر نکل کر اطراف میں سو سے دوسو میٹر کے فاصلے پر موجود کچرا اٹھانے اور اس کو ڈسٹ بن میں ڈالنے کا عملی مظاہر کریں۔ یہ روایت جاپان میں قائم ہے جہاں ہر روز تمام لوگ چاہے وہ آفیسر ہو یا عام آدمی اپنے گھر، دکان، دفتر ، ہوٹل وغیرہ میں جھاڑو لیکر صفائی کرتے ہیں اس کے بعد وہ اپنا دیگر کام کرتے ہیں۔

بازار ایرا یا میں ہر سو سے دو سو میٹر کے فاصلے پر ڈسٹ بن نصب کئے جائیں۔جبکہ ان لوگوں کے لئے ڈسٹ بن خریدنے کے لئے خصوصی پیکج کا علان کیا جائے جو اپنے محلہ، مسجد، امام باڑہ، جماعت خانہ، دکان، ہوٹل، گھر ، دفتر یا کسی بھی اہم جگہ کے باہر آس پاس کے لوگوں کے لئے بڑا ڈسٹ بن نصب کرنا چاہتے ہیں۔لوگوں کو ایک مہم کے زریعے یہ آگاہی دی جائے کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں ، دوست احباب ، اہل خانہ یا رشتداروں کو کچرا پھینکتے ہوئے دیکھیں تو ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

تمام دکانداروں کو اپنی دکانوں میں ڈسٹ بن رکھنے کی سختی سے ہدایت کہ جائے اس ضمن میں مجسٹریٹ وقتا فوقتا چھاپہ مارا کریں جو دکاندار اس پر عمل نہ کریں یا اس کی دکان کے آس پاس کچرا نظر آنے کی صورت میں اس کا جرمانہ کیا جائے۔

ہوٹلوں کے باہر ڈسٹ بن کا نصب کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ ہوٹلوں میں صفائی کو بر قرار رکھنے کے لئے سخت نظام وضع کیا جائے۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ اکثر ہوٹلوں میں صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہو تا ہے ۔ سب سے زیادہ ہوٹل میں کام کرنے والا عملہ گندا ہو تا ہے۔ اکثر ہوٹلوں کے ویٹر، کک اور دیگر عملہ اپنے جسم اور لباس کی صفائی نہیں کرتے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر کھانے کے لئے وہاں جانے والوں کو سخت ناگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ہوٹل میں کام کرنے والے اکثر غریب لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے ہوٹل مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے عملے کے لئے لباس اور صفائی کا انتظام ہوٹل میں ہی کریں۔تاکہ ان کے بال ،ناخن، ہاتھ ، جسم اور لباس صاف ستھرے ہوں۔ بلکہ تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں عملے کے لئے یونفارم متعارف کرانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

آٹو ورکشاپس کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اطراف کو صاف ستھرا رکھیں۔ جبکہ جن لوگوں نے مین روڑ کے اوپر چھوٹی چھوٹی دکانیں میں آٹو ورکشاپس قائم کی ہیں ان کو صفائی کا خیال رکھنے کا پابند کیا جائے۔ ان ورکشاپس کے مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مزدوروں کے لئے خصوصی یونفار م خرید کر دیں جو کہ پائیدار بھی ہو اور جس کوصاف رکھنا بھی آسان ہو ۔ ایسے لباس بازار میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔

گلگت شہر میں صفائی کے حوالے سے اہم مسلہ ڈرینج اور سیوریج سسٹم کا ہے۔ اس کی بہتری کے لئے ایک تین سالہ منصوبہ بنایا جائے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح شہر میں سوزکی سٹاپ،شہر سے باہر جانے والے ٹرانسپورٹ کے لئے بنائے گئے اڈے اور مجموی طور پر ٹریفک کا نظام ٹھیک رکھنے لئے جامع منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔جبکہ ترقی یافتہ دنیا کی طرح صفائی کے حوالے سے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان میں با ضابطہ قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے۔

شہر کی صفائی کے لئے جگہ جگہ بینرز لگا کر لوگوں کو آگاہی دی جائے۔نیز میڈیا کے زریعے بھی اس آگاہی مہم کا آگے بڑھایا جائے۔ یہ سارے کام صرف گلگت شہر میں نہیں بلکہ تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں کیا جانا چاہئے مگر اس کام کو سب سے پہلے گلگت شہر میں سرانجام دیا جائے کیونکہ گلگت شہر گلگت بلتستان کا چہرہ ہے۔

مذکورہ تمام معاملات پر عملدرآمد کے لئے ہوٹل ایسوسی ایشن اور انجمن تاجران کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مذکورہ سارے کاموں کے لئے کسی قسم کے کوئی بے تحاشاوسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے صرف اور صرف خلوص نیت اور ارادے کی ضرورت ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی لازمی ہے کہ حکومت کی طرف سے شہر کی سڑکوں کی مرمت کا کام بھی ایک احسن اقدام ہے ۔ مگر یہ کام جس سستی

روی کا شکار ہے وہ لائق تحسین نہیں ہے۔ کیونکہ اتنے عرصے میں پنجاب حکومت بڑے بڑے پل بنا لیتی ہے ہم سے اگر ایک مہنے کے اندر اس چھوٹے سے شہر کی چند سڑکیں ٹھیک نہیں ہو پاتی ہیں تو اس معاملے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ راقم نے چند مہنے قبل اپنے ایک کالم میں اس ایشو کو اٹھا یا تھا ۔ جس کے بعد اس اہم کام کو شروع کرنے پر حکومت کو سراہا جانا چاہئے۔

بظاہر مذکورہ کام غیر ضروری اور معمولی لگتے ہیں مگر یہی وہ کام ہیں جو دنیا بھر میں توجہ سے کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے میں یہ نظم و ضبط قائم کرنے کے لئے پہلا قدم ہوتا ہے۔باہر سے آنے والے لوگ کسی بھی شہر یا علاقے کے لوگوں کے بارے میں پہلا تاثر انہی چیزوں سے لیتے ہیں۔کسی علاقے کے لوگ کتنے مہذب ہیں اس کا اندازہ ان کے گھر، محلہ، گلی اور شہر کی صفائی سے ہوتا ہے ۔ جبکہ حکومت کی کارکردگی کا اندازہ بھی شہر کی صفائی اور اس کی سڑکوں اور پلوں سے ہوتا ہے۔ بہت سارے سیاح وہ ہوتے ہیں جو ہوٹلوں میں رہ کے واپس جاتے ہیں ۔ اس لئے ان کو لوگوں کے گھروں کی اندر کی صورتحال کا پتہ نہیں ہوتاوہ صرف شہر کی حالت زار دیکھ کر مقامی لوگوں کے بارے میں اچھا یا براتاثر لے کر یہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

موجودہ حکومت نے اس کام کا جو آغاز کیا ہے اس ضمن میں تمام لوگوں کو ساتھ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ صفائی صرف حکومت کی ضرورت نہیں بلکہ امن کی طرح یہ یہاں بسنے والے تمام لوگوں کی ضرورت ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button