کالمز

ٓآزادی کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر: شبیر احمد غنی

ریاست جموں کشمیر جسے عرف عام میں جنت نظیر وادی بھی کہا جاتا ہے۔ہندوستان کے شمال میں واقع ہے۔اس کا رقبہ84571 مربع میل ہے۔اس کی پچانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔عہدنامہ امرتسر کے زریعے انگریز وں نے اسے ڈوگروں کے ہاتھ پچہتر لاکھ روپے نانک شاہی میں فروخت کر دیا تھا۔اس طرح یہ ریاست سکھوں سے ڈوگروں کے پنجہ ء استبداد میں چلی گئی۔ڈوگروں کا اصل وطن جموں ہے۔انہوں مسلمانوں پر جو ظلم روا رکھا تاریخ کے اوراق انکے ظلم سے سیاہ ہیں۔پاکستان اور انڈیا کی تقسیم سے قبل قانون آزادی ہند کے تحت دونوں ممالک کے فریقین کی رضامندی سے یہ طے ہوا تھا۔کہ خود مختار ریاستوں میں سے جو ریاست دونوں ممالک میں سے جس کے ساتھ بھی الحاق کرناچاہیں الحاق کر سکتے ہیں ۔لیکن ہندؤں نے اپنے مکر وفریب سے جن ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوناتھا ان پربلا جواز قبضہ کیا۔ان میں جوناگڑھ ، حیدر آباد اور گورداس پور کے علاقے سرفہرست ہیں جو پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہتے تھے ۔دوسری طرف انگریزوں نے بھی ہندوں سے مل کر گورداس پور کو ہندوستان کے تحویل میں دے دیا۔کیونکہ ہندوستان چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طریقے سے کشمیر پر قبضہ ہو ۔ اسے گورداس پور حاصل کرنا بہت ضروری تھا۔کیونکہ یہ ریاست انڈیا کو کشمیر سے ملاتی ہے۔اس وجہ سے انڈیا کو کشمیر پر قبضہ کرنے میں کافی آسانی ہویٰ تھی۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو کشمیر ی مسلمانوں نے پاکستان کیساتھ الحاق کیلئے آواز بلند کی تو انڈیا کی افواج نے غاصبانہ طور پر کشمیر پر چڑھائی کردی۔دوسری طرف پاکستان بھارت کے مقابلے میں افرادی قوت ، اسلحہ گولہ بارود اور زرائع آمدورفت وغیرہ میں بہت پیچھے تھے۔کیوں کہ دونوں ملکوں کے اثاثوں کی تقسیم کے وقت پاکستان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔۔ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کے غیور عوام نے بھی اپنی مدد آپکے تحت اپنے کشمیری مسلمانوں بھائیوں کی مدد کیلئے میدان جنگ میں اتر آئی اور پوری قوت کے ساتھ ہندؤں سے مقابلہ کیا اور فتح کرتے کرتے سرینگر تک پہنچ گئی۔ہندوستان اپنی ہزیمت کو جانچتے ہوئے خود ہی اقوام متحدہ کے پاس گیا۔اور کشمیریوں کی حق خود داریت کے ساتھ فیصلہ کرنے کیلئے درخواست پیش کی۔جس کا مقصد کشمیروں کو وقتی طور پر بٹھانا تھا۔البتہ اس کے پیچھے ہندوستان کے مزموم عزائم کارفرما تھے۔وہ یہی چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ معاملہ حل نہ ہو جس کے نتیجے میں کشمیری مسلمان بے چینی اور ظلم و بربریت کا شکار ہوا۔

آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود نہ اقوام متحدہ نے رائے شماری سے ان مظلوم کشمیری مسلمانوں کی رائے جاننے کی کوشش کی نہ انڈیا کو ان نہتے کشمیریوں پر کوئی ترس آتاہے۔بے چارے کشمیری مسلمان اپنی آزادی کیلئے اب تک لاکھوں قربانیاں پیش کر چکے ہیں۔ہزاروں شہادتیں ہوئیں اور لاکھوں مایٗیں بہنیں بیوا ہوچکی ہیں۔پھر بھی ظالم انڈیا کا ظلم و بربریت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔تین ماہ قبل کشمیری نوجوان مجاہد برہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی لہر میں مزید تیزی آئی ہے۔ہندوستان کسی طریقے سے اس آزادی کی لہر کو جبر کیساتھ دبانے کی مزموم کوشش کررہا ہے ۔اس آزادی کی لہر کو کم کرنے کیلئے صرف دو تین ماہ میں ایک سو سے زائد کشمیریوں کو شہید کیئے جاچکے ہیں۔سینکڑوں نہتے مسلمانوں پر بیلٹ گن استعمال کرکے زندگی بھر کیلئے معزور کردیا گیا ہے۔حالانکہ اس جیسے اسلحوں کوانسانوں پر استعمال کرنا عالمی طور پر بھی جنگی جرم سمجھا جاتا ہے ۔لیکن دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے دعویدار انڈیا کس طرح عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ہر باخبر شخص ان کی ہر کالی کرتوت سے واقف ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی سب سے بڑا جرم یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہتے ہیں۔انکا یہی مطالبہ انڈیا کو راس نہیں آتاہے۔کیا اپنی آزادی کا حق مانگنا جرم ہے؟

آج کشمیر کے حوالے سے ہماری حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کی زمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔اب وقت آگیا ہے۔زاتی اور سیاسی جھگڑوں کو چھوڑ کر ان کشمیری مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں۔اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں متحدہو کر پوری دنیا کے سامنے غاصب انڈیا کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کریں۔اور یہ انتہائی اہم موقع ہے کہ ہم کشمیری کی آزادی کیلیے اپنی کوششیں تیز کرے اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا تو کشمیر کی آزادی کی تحریک کئی عرصوں کیلیے دب جائے گی ۔ لہذا ہم سب یہ عہد کریں کہ اس جنت نظیر وادی کی آزادی کیلئے ہر سطح پرکشمیروں کا ساتھ دینگے اور کشمیریوں کو آزادی دلانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button