بلاگز

ببوسر یا بابوسر 

 جاوید احمد ساجد
(سلطان آباد، یاسین)

javedببو سر ہے یا بابو سر ، چونکہ مقامی زبان شینا ، بروشاسکی میں ببو سر کہا جاتاہے لیکن جیسا کے اردو والوں نے گلیت کو گلگت، یسن کو یاسین ، پویاں کو پونیال اور اشقمن کو اشکومن بنا چھوڑا ہے اسی طرح ببو سر کو بھی ہو سکتا ہے کہ بابو سر بنانے میں اردو دان یا انگریز بہادر کا ہاتھ نہ ہو، خیر میں کون ہوتا ہوں ان ناموں کی سپلنگ چک کرنے والا اس کام کے لئے اور بہت سے لوگ ہیں ، تو خیر 30ستمبر کو صبح کی نماز پڑھ کر گھر آیا تو پانچ بج کر تیس منٹ ہو چکے تھے میر ا بیٹا عبدل باقی صاحبقران بھی تیار ہواتھا دونوں نے ناشتہ کیا اور بسم اللہ پڑھ کرگھر سے نکل گئے اور سڑک پر زیادہ انتظار نہ کر نا پڑا اور جلد ہی عبدالرحیم ولد دادا خوشوقت ویگن لے کر پہنچ گیا گاڑی خالی تھی پہلا سیٹ چھوڑ کر دوسر ے پر بیٹھ گئے اور بھائی بہنوں اور عزیز و اقارب کو کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہا اور اللہ کا مقدس نام لے کر روانہ ہو گئے راستے میں سواریاں کافی اور بھی ساتھ آگئے اور آٹھکش میں میری بڑی بیٹی اور ان کا بیٹا عدنان علی شاہ سیب کا ایک کارٹن لے کر سڑک کنارے انتظار کر رہے تھے ڈرایؤر سے کہہ کر گاڑی رکوایا اور کلینر نے کمال مہربانی سے سیب کا کارٹن گاڑی کے سیٹ کے نیچے ہی رکھا ۔ گلگت تک سفر بڑا ،اچھاگذرا ، نو بجکر چالیس منٹ پر گلگت پہنچ گئے کلینر نے سامان ویگن کے چھت سے اتارا ، اور ڈرایؤر نے مہربانی کر کے ایک ٹیکسی والے کو لایا اور ہمارے سامان ٹیکسی میں رکھوایا اور کہا کہ ۲۰۰ روپے اس کو دیدینا ، ہم نے شکریہ ادا کیا اور ٹیکسی میں جوٹیال بس اڈے کی طرف روانہ ہوئے یاسین سے روانہ ہو کر مشہ بھروم کے مینجر سلیم خان کو کال کر کے درخواست کیا تو انھوں نے کہا کہ ہماری گاڑیاں تو ساڑھے نو بجے آخری گاڑی بھی نکل گیا اور انھوں نے بڑا کر م نوازی کیا اور ایک کوہستانی کوسٹر میں چار او ر پانج نمبر سیٹ ریزرو کرایا تھااور جونہی ہم پہنچ گئے اس کوسٹر کا منشی فوراََ آگیا اور ہمارے سامان کے ساتھ ہمیں بھی لے کر کوسٹر کے پاس لے گیا اور ہمارا سامان کلینر یا سیکنڈ ڈرایؤر کو دکھایا اور ہمیں کہا کہ آپ لوگ سلیم صاحب کے پاس بیٹھ جائے ہم بلوائیں گے ۔

img_20160921_161823

ٹھیک گیارہ بجے گاڑی روانہ ہوگئی۔ بڑا اچھا سفر ہوا جگلوٹ، تھلی چی، رائے کوٹ، تتہ پانی گذر گئے، اور پھر گینی جب آیا تو ڈرایؤر نے کھانا کھانے کا حکم سنا کر اتر گئے ہمارے گاڑی سے اترنے سے پہلے ہی ڈرایؤروں کو اوپر منزل کے آرام دہ کمرے میں پہنچایا گیا تھا ، شاہراہ قرقرم پر ڈرایؤر حضرات ہو ٹل والوں کی نظر میں وی آئی پیز ہیں اس لئے ان کی بڑی پزیرائی کی جاتی ہے، بہر حال ہم نے ایک سبزی اور ایک چاول منگوایا ، کھانہ اچھا تھا ، چاول بہترین تھے لیکن چونکہ صاحبقران صاحب گھر میں سبزی نہیں کھاتے تو ہوٹل کی سبزی کہاں کھاتے میں نے سبزی پر گذارا کیا اور ایک دو نوالے چاول کے بھی لیا۔ ہوٹل کا ماحول بہتر تھا لیکن ان کے واش روم میں صرف انسان مشکل سے جھانک سکتا تھا اند را جانے کے قابل نہ تھے۔ پانی چشمے کا تھا بڑا صاف ستھرا اور زائقہ دار پانی تھا۔

جلد ہی سارے لوگ کھانہ کھاکر آگئے تو گاڑی روانہ ہوا، تھک نالہ کے قریب آکر گاڑی نے شاہراہ قراقرم چھوڑدیا اور پولیس چک پوسٹ کے پاس بریک لگایا اور گارڈ جو کہ کلینر کا کام بھی کرتا تھا اتر کر پولیس والوں کے پاس گیا اور واپس آکر ڈرایؤر سے پچاس کا ایک نوٹ لے کرپولیس کی خدمت میں حاضر ہوا، معلوم نہیں یہ پولیس کا ٹِپ تھا یا بابوسر کا چونگی ، بہر حال ہمیں ببو سر کی سیر کر نے کا ایک مفت کا موقع ہاتھ آگیا،چونکہ ببوسر آنے جانے کے لئے سپیشیل طور پر گاڑی کیا جاتا ہے جو اچھا خاصہ مہنگا پڑتا ہےِ ہم جیسے لوگوں کو کہاں نصیب ۔جس نالے سے ہم گذر ہے تھے ، یہ شاید تھک نالہ کہلاتا ہے جو کافی آگے جاکر بایءں کو بھی ایک نالہ بائیں طرف الگ ہو تا ہے اور ہم دائیں جانب بابوسر وادی کی راہ پر روانہ ہوے۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے بچے دیکھا جو کہ سر پر اونی ٹوپی اور شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے اوپر کھینچا ہوا گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ ایک جگہ ایک ڈسپنسری کا بورڈ لگا ہوا دیکھا جس پر بھی جگہ کے نام کے ساتھ تھک لکھاہوا تھا جس سے اندازہ ہو تا تھا کہ جو نالہ ہم بائیں طرف پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ ہی تھک نالہ تھا تھک نالے کا ایک پیر بھی مشہور ہے ، اور ہم شاید وادی ببوسر کی طرف جارہے تھے۔ ایک جگہ ایک سکول کابھی بورڈ نظر آیا، ایک جگہ ایک چھوٹاسا لڑکا ایک دوپلاسٹک کے شاپر میں کچھ ٹماٹر اور پیاز رکھا تھا اور ایک پھٹے پرانے کپڑے کا سایا بناکر دکانداری چمکانے کی شاید کوشش کر رہا تھا۔ ایک اور دکاندار ایک طرف پہاڑی دوسری طرف ایک پرانہ کپڑا لڑکائے دکان سجایا تھا اور اسی طرح ایک اور جگہ ایک طرف لکڑی کے تختے دوسری طرف دیوار اور تیسری طرف سے ایک تڑپال کا ٹکڑا لٹکا کر دکانداری کر رہا تھا یہ سار ے بڑے اچھے لگ رہے تھے۔

پورے وادی یا راستے میں نالے کے دونوں اطراف میں مکئی کے کھیت تھے کھیت تو کیا بلکہ ایک دیڑھ فٹ چوڑے کیاریاں بنا کر مکئی کاشت کیا گیا تھا اور یہ منظر بڑا دل فریب تھا چونکہ مکئی کی فصل سیڑھیوں کے مانند ڈھلوان میں اونچائی کی جانب جاتاہو ا دکھائی دیتا تھا ایک دو جگہوں میں بلکہ کئی جگہوں میں ایف ڈبلیو او کے کیمپ تھے اور ان کے نزدیب ایک جگہ تین ٹربایئن کا اور کئی جگہوں میں ایک ایک ٹربایئن کے بجلی گھر تھے اور اونچائی سے گرتاہو پانی موتی بکھیر تا ہوا نظر اتا تھا ۔ مکان اور مال مویشیوں کے ڈنگر خانے زیاد ہ تر لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر بنائے گئے ہیں، اور وہ بھی سارے پہاڑی ڈھلوانوں پر ایسے نظر آتے ہیں جیسے یہ کئی منزلہ ہوں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ مکان بھی سیڑھیوں کی شکل میں ایک سے ایک تھوڑے تھوڑے اونچائی پر بنے ہوے ہیں۔اب ہم کافی اونچائی پر آئے تھے اور اس علاقے میں مکئی کی فصل کی کٹائی شروع ہو چکی تھی ایک کھیت میں کالے لباس میں ملبوس بہت ساری عورتیں مکئی کی فصل کاٹنے میں مصروف تھیں اور بڑی خوبصورت نظر آرہی تھیں ۔ زندگی کا بودوباش بڑا سادہ نظر آرہاتھا۔ اخروٹ کے درختوں کی کثرت تھی کئی جگہوں میں انگور کے بیل بھی نظر آئے لیکن پھل نظر نہ آیا۔ کئی جگہوں پر سڑک کے کنارے کچے جلغوزوں سے بھرے ہوے بوریاں رکھے ہوے لوگ شاید گاہکوں کے انتظار میں تھے

ایک جگہ ایک بورڈ نظر آیا جو کہ لکھا تھا، پراپرٹی گلگت سکاوٹس اور ساتھ ہی لکھا تھا APA ہاوس 1836 ء ؁ اور اس بورڈ کے سیدھ میں نالے کے پار کچھ بوسیدہ کھنڈرات نظر آئے تو میں نے بے ساختہ انگریزوں کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اپنے دور میں یہ تعمیرات کر ا کر ببوسر کا قبضہ چلاس کے ہاتھ میں دیا ہوگا ورنہ شیناکی کوہستان اور شندور کی طرح ببوسر پر بھی صوبہ کے پی کے والے قبضہ کرتے ۔ ایک جگہ ایک بورڈ پر بلدیہ چلاس کی جانب سے تنبیع کیا گیا تھا کہ کہ آگے خطرناک موڑ ہیں اپنی سپیڈ کم کریں بریک کا کم سے کم استعمال کریں اور بھاری گیر میں چلیں اور پھر واقع ہی آگے خطراناک موڑ تھے اور پھر جگہ جگہ سپیڈ کم کرنے اور بریک کا استعمال کم کرنے اور بھاری گیر میں سفر کر نے کی تاکید کی گئی تھی اور سبز بورڈوں پر جگہ جگہ od by Go لکھا گیا تھا اورکافی جگہوں میں یو این ایچ سی آر لکھے ہوے تنمبو لگے ہوے تھے اور ساتھ ہی پولیس بھی لکھا ہوا تھا شاید یہ تنبو یا ٹنٹ یو این ایچ سی آر والوں کی جانب سے پولیس کو دئے گئے ہوں یا کسی امداد سے پولیس والوں نے ہتھیا لیا ہو اللہ بہتر جانتا ہے۔ تقریباََ ساٹھ ستر انتہائی خطرناک موڑ کاٹ کر ہم ۱۳۷۰۰ فٹ کی بلندی پر ببو سر یا بابو سر ٹاپ کے اوپر پہنچ گئے تھے۔ اور جب کہ ایک صاف ستھرا ، اور ایک خوبصورت ماحول پیچھے چھوڑ کر آئے تھے لیکن جونہی ٹاپ پر پہنچے تو پاکستانی انگریزوں کی بھر مار دیکھا جن کے بال بکھرے ہوے، تنگ پاجاموں اور جسم کے ساتھ چپکی ہوئی جینز، اور نہایت تنگ لباس میں ملبوس اور بابوسر کی خنکی سے گھبرائے ہوے چہرے، کسی کسی کے گردن میں لٹکی ہوئی دوپٹہ نما کپڑا تھا مگر اکثر بے نیاز، اور ان کے ساتھ آئے ہوے غلام نما مرد اور ہر ایک کے منہ میں چیونگم اور پتہ نہیں کیا کیا ملغوبہ تھا اور ساتھ ہی جگہ جگہ خالی بوتلیں، پلاسٹک کے شاپر بسکٹ کے خالی ڈبے، چیونگم کے کور، معلوم نہیں ان کی ذہنوں کی طرح گندگی کی بھی ہر قسم اس خوبصورت ٹاپ پر نظر سے گذرا ، تو میں نے سوچا کہ نہ صرف ملک کے حکمران اور سیاست دان گند ی ذہنیت کے مالک ہیں بلکہ اسی فی صد سے زیادہ شہری بھی ایسے ہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ باقی کے بیس فی صد شاید ہی کچھ اچھے ذہن پاتے ہوں نہیں تو وہ بھی ممکن نہیں۔ لیکن اس کے بر عکس قدرت کا نظارہ دیدنی تھا برف کے ہٹنے کے بعد زمین ابھی بھی گیلا گیلا نظر آتا ہے بورے رنگت کے پہاڑ اور زمین نہایت مسرور کن تھا۔

نیچے ناران کی وادی ہمارے سامنے سینہ چو ڑہ کر کے ان تمام گندگی پھیلانے والے سیاحوں کوبڑی فراغدلی سے خوش آمدید کہتے ہوے مسکرا رہی تھی تو دوسری جانب ببوسر وادی استادہ تھی۔ قدرت بہت ہی قریب نظر آرہی تھی لیکن مصنوعی حور و غلمان مصنوعی طور پر ایک دوسرے کو لطف اٹھانے میں نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف تھے ایک کی بھی چہرے پر حقیقی خوشی نظر نہ آئی بلکہ ایسالگ رہا تھا کہ وہ سب اپنے جسم سے بلکل چپکی ہوئی جینز کی اور تنگ لباس کی نمائش یا کسی فیشن شو پر آئیں ہوں۔بہر حال ایک دو معصوم بچے نظر آئے ایک نہایت ہی بوسیدہ قسم کی لباس میں مبتلا تھا مگر اس کے چہرے پر حقیقی خوشی کی لہریں صاف دکھائی دے رہی تھی میں نے شینا میں پوچھا کہ کو دیشئی ہوں وا تو اس نے ایسا خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھک ائی ہنوس اس کی مسکراہٹ نے مجھے لمحے کے لئے مسمرائز کیا اور جب میں دوبارہ حوش میں آکر کچھ پوچھنے کی کوشش کیا تو وہ ایک ٹنٹ کے اندر جا چکا تھا۔

برف جو کہ گرمیوں میں پگل جاتاہے شاید اگست ستمبر تک برف پگلتی رہی ہو کیو نکہ زمین اب بھی گیلی گیلی نظر آتی ہے اور کہیں کہیں برف کے کچھ ٹکڑے یا تودے نظر آتے ہیں اور سیاح خاص کر نوجوان اور عورتیں ان برف کے ساتھ فوٹوگرافی میں مصروف تھے اور ایک جگہ تو سڑک کے ساتھ ساتھ ہی برف کا ایک بڑا تودا تھا لوگ اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

ٹاپ پر پہنچ کر کوہستانی ڈرایؤر نے ہنستے ہو ے، گلابی اردو میں علان کیا کہ ہمار ی طرف سے تفریح کرو چائے شائے پیو اور جلدی واپس بھی آجاو تاکہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ ہم بھی خوش تھے کہ مفت میں ببوسر اور ناران کا چکر ہوا ، ورنہ شاید ہی کھبی دیکھنے کا موقع ملتا اور ہم نے دل ہی دل میں ڈرایؤروں کی اس تکون کا شکریہ ادا کیا کہ اگر یہ لوگ ادھر سے نہ لے کر آتے ، تو ہمیں یہ دلفریب نظارے کہاں نصیب ہو تیں۔ ناران کی طرف کا نظارا بڑا خوبصورت تھا لیکن ٹاپ کی دوسری طرف یا یوں کہیں کہ بابوسر وادی کی خوبصورتی تو حیران کن تھی۔ ہم نے بھی ایک دو فو ٹو کے شاٹس لئے لیکن کاش موبائل کے بیٹری نے ساتھ نہ دیا۔ وادی بڑی لمبی چوڑی تھی نیچے وادی میں کچھ مکان بھی نظر آرہے تھے۔ ناران کی طرف جاتے ہوے موڑ نہ ہونے کے برابر تھے صرف تین یا چار چھوٹے چھوٹے موڑ کے بعد ہم نیچے وادی میں پہنچ گئے ۔ نالے کے ساتھ ساتھ سفر تھا اور، راستہ ناران تک کچھ خراب تھا اور جگہ جگہ ایف ڈبلیو او کے جوان کام پر لگے ہوے تھے۔لولو سر جھیل کابھی نظارہ خوبصورت تھا کچھ سیاح وہاں بھی جھیل کے کنارے گندگی پھیلانے مین مصروف تھے اور ہم لوگ صرف ویگن سے ہی نظارہ کر سکیں۔ ایک چھوٹسا گاوں آیا بورڈ پر اس کانام جلکھڈل کھا ہوا تھا یہاں بھی FWO والوں کا کیمپ تھا اور ایک ٹربائن کا بجلی گھر بھی نظر آرہا تھا۔جلکھڈ میں کچھ رونق تھا یہاں بھی لوگ مکئی کی فصل کا ٹ رہے تھے مال مویشی، بھینسیں ، گائے، اور بڑی تعداد میں دنبے اور بکریاں بھی نظر آئیں ۔ ناران پہنچتے پہنچتے رات چھا گیا اور ناران میں بڑی رونق تھی گاڑیوں کا تانتا بندھا ہو اتھا ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں تھی، مری روڈ راولپنڈی کی طرح رش تھا، ٹریفک رینگ رینگ کر روان تھا۔ بجلی کی روشنی میں بڑے بڑے دوکان خوب چمک رہے تھے اور لوگوں کا جم غفیر تھا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس علاقے میں موبائل سروس میسر نہیں۔کیونکہ جب ہم چلاس کے قریب بابوسر کی طرف روانہ ہوے تو تمام موبائل سروس معطل ہوے تھے اور اب جب ناران پہنچے تو سگنل آن ہو ے تو تمام مسافروں کے موبائل ایک دم بجنے لگے سب اپنے اپنے پیاروں سے باتوں میں مصروف ہو گئے اور بتایا گیا کہ ہم ببوسر کی طرف سے آئے تھے اور یہ کہ موبائل سروس میسر نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ منقطہ ہو ا تھا اور اب ناران میں یہ سروس میسر آیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ناران سے تھوڑے دور نکل گئے تو موبائل پھر سے خاموش ہو گئے ، اب ہر طرف اندھیرا تھا۔ اب صرف راہ گیر اور سڑک پر روان ٹریفک کے علاوہ کئی جگہ دنبوں کی ریوڈ نظر آئے ، جو شاید کاغان یا بالا کوٹ کی طرف جارہے تھے۔ پھر کافی سفر کے بعد ایک چھوٹا سا شہر یا قصبہ نظر آیا اور ایک بورڈ پر کاغان لکھا ہوا دیکھا، یہاں سے آگے پہاڑوں پر آذاد کشمیر کی طرح ایکہ دکا مکانوں کی ٹمٹماتی لائٹ نظر آتی تھیں ۔ پھر بڑی دیر بعد ایک دو اور قصبے بھی گذر گئے اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ رات تقریباََ نو بجے ہم بالا کوٹ پہنچ گئے اور ایک جگہ سعید احمد شہید کا مزار لکھا ہو ا بورڈ نظر آگیا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ بالاکوٹ ہے اور ایک سواری بھی اتر گیا، اب ہم مانسہرا میں تھے اور پھر گلگت بلتستان ہو ٹل کے سامنے ہمارے ڈرایؤر نے گاڑی روکا اور ہمیں اپنے اپنے پیسوں پر کھانہ کھانے کا حکم دیا اور خود غائب ہو گئے ۔ ہم نے بھی چاول کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ پھر آدھا گھنٹے کی وقفے کے بعد ہم لوگ سوئے راوالپنڈی روانہ ہوے جلدی ہی نیند نے آدابوچا اور جب تر نول پہنچے تو آنکھ کھل گیا۔ رات کے ایک بجکر تیس (۳۰) منٹ پر ہم پیرودھائی کے بس اڈے پر اتر گئے اور ایک رکشا کے ذریعے غزالی روڈ صادق آباد پہنچ گئے ہاتھ منہ دھو کر وقت دیکھا تو رات کے دو بجے تھے۔

اللہ کا شکر ہے کہ سفر بخیر گذرا ، اور یہ کہ ببوسر کا راستہ واقع KKH سے کم بھی ہے اور لطف اندوزز بھی اگر حکومت توجہ دے تو یہ راستہ بڑا ، اچھا ہے اور سیا حوں کے آمد و رفت سے کمائی بھی خوب ہو سکتا ہے ، حکومت کو چاہیے کہ ایسے جگہوں کو ٹورسٹ سپاٹ بنائیں اور راستوں کی بہترین سہولت کے ساتھ ساتھ کمونیکشن یعنی موبائل سروس کا بھی انتظام کریں تاکہ سیاح زیادہ سے زیادہ ان علاوں کی طرف جایءں اور اس کے علاوہ ان راستوں کو محفوظ بھی بنانے کے کے لئے جگہ جگہ پولیس چوکیاں اور مو بائل فورس کا بھی انتظام کرے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button