کالمز

سکولوں میں بچوں کی غیرحاضری کی وجوہات

دنیائے تدریس و تعلم میں سکول کی اہمیت اُس وقت اجاگر ہوئی جب تدریس کے نظام میں رسمی تعلیم کی رواج نے قومی‘ نجی اورریاستی ادروں کی سرپرستی میں جڑپکڑنا شروع کردیا۔ مدرسے کے نظام میں تبدیلی اورنظم ونسق نے اس نظام میں گردش ولیل ونہار کے ساتھ پیچ وخم دیکھا۔دنیا کے تمام خطوں خاص کر یورپ میں ماہرین تعلیم اور تعلیمی فلاسفروں نے سکول کو مرکز علم قرار دیکر سکول کی نظم و نسق پر سینکڑوں کتابیں منظر عام لاکر وقت اور طاقت کے ساتھ دنیا بھر میں شہرت دلا دی۔ مدرسے کے بہت سے عوامل میں سے ایک اہم ستون طالب علم ہے۔طالب علم کی بھرپور شرکت اورآمادہ گی کے بغیر مدرسے کا نظام چلایا جاسکتا ہے اورنہ ہی بچوں کی تعلیم موثر ہوسکتی ہے۔ زیر نظر مقالے میں مدرسے میں طالب علم کی غیر حاضری سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس کے حوالے سے چند تجاویزات پر بحث کرنے کی کوشش کرینگے۔

پاکستان میں بہت کوششوں اٹھارویں آئینی تحفظ یعنی25Aکے شق کی موجودگی اور5-16سال تک مفت تعلیم کی فراہمی کے باوجودASER نامی ادارے کی 2015ء کی رپورٹ کے مطابق 25ملین(یعنی ڈھائی کروڑ) بچے سکول سے باہر ہیں۔ جن میں سے 55%بچیاں اور45%لڑکے شامل ہیں۔ان کے مطابق سرکاری سکولوں میں اساتذہ کرام کی حاضری 88.3%اور بچوں کی حاضری اوسطاََ85.3%ہے ان کے برعکس نجی اداروں میں اساتذہ کی حاضری 92.5%اور بچوں کی اوسط حاضری 89.5%ہے۔ ان کے مطابق 79%بچے5-16سال کے سکول میں داخل ہیں جن میں سے70%سرکاری جبکہ 27%نجی‘2%مدرسہ اور 1%دیگر سکولوں میں داخل ہیں۔گلگت بلتستان میں کل 86%بچے سکول میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے 52%سرکاری جبکہ44%نجی‘ 1%مدرسہ اور3%دیگر سکولوں میں داخل ہیں۔ اس سروے کے مطابق 14%بچے سکول سے باہر ہیں جو کبھی سکول میں داخل نہیں ہوتے۔داخل بچوں میں 15%سے زائد بچے سکول سے عموماََ غیر حاضر رہتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اب تک ہمارے ہاں تعلیم تک رسائی سو فیصدتو دور کی بات بہترطور پر80%بھی نہیں ہوئی۔ معیار تعلیم کے نعرے وقت سے پہلے لگائے جارہے ہیں۔

ایک نجی ادارے اے ڈی کونسل جو کہ عوامی سطح پر فلاحی اور تعلیمی خدمات کے پیغامات پہنچاتاہے‘ کے مطابق چھیاسی فصید والدین سمجھتے ہیں کہ تعلیم کی فراہمی اور بہتر تعلیم میں بچوں کی سو فیصد حاضری ضروری ہے۔ انچاس فیصد والدین کے مطابق مہینے میں تین یا چار دن کی غیر حاضری سے تعلیم کی سرگرمی پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔

امریکی ادارۂ تعلیم کے مطابق مہینے میں دو دن غیرحاضری بچوں کی تعلیم پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی کم وبیش یہی صورت حال درپیش ہے۔ خاص پر ہفتہ وار ہونے والی شادیاں اور دیگر گھریلو تقریبات اتنی لمبی ہوتی ہے کہ بچے کئی دن تک آرام سے سو نہیں پاتے اوراس حالت میں سکول کے اوقات میں جاگنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ شادیوں میں میوزک کے ساتھ ایسے پروگرام اور کھانے پیش کئے جاتے ہیں جن کو بچے ہر صورت ضائع ہونے نہیں دیتے ہیں۔ جب والدین سے پوچھا جاتا ہے کہ اتنے لمبی تقریبات سے بچوں کی سکول کے اوقات ضائع ہونگے تو وہ کہتے ہیں کہ’ایک دو دن سے تعلیم پر کیا اثر پڑتا ہے؟‘ اس کے علاوہ گھریلو بیماریوں‘ رشتہ داروں سے ملاقات اور دیگر گھریلو مصرفیات کی آڑ میں بھی بچے سکول نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں میں مدرسے دور دور ہونے کی وجہ سے اکثر بچے مسافتی تھکاوٹ اور مسابقتی روّیے سے بھی سکول تک آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ مسابقتی رویّہ سے مراد کچھ والدین بچوں کو خود اپنے گاڑیوں میں سکول لاتے لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے غریب والدین کے بچے حوصلہ شکنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بچوں کی غیر حاضری سے سکول کی تعلیم پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ غیر حاضر دنوں میں پڑھائی جانے والے اسباق رہ جاتے ہیں اور یہی کمی پوری سبق (Concept)کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سب سے بڑی خلل ہوتی ہے۔ سکول سے غیرحاضری کی ایک اور صورت بھی ہے۔ بچے زیادہ گھریلو کام کرنے کی وجہ یا دور دور سے چل کر تھکے ہارے سکول پہنچنے سے پورے دن ذہنی اور عقلی طور پر سکول کے سرگرمیوں میں موثر حصہ نہیں لے پاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی تعلیمی مراحل متاثر ہوجاتے ہیں۔ کلاس میں جسمانی حاضری کے ساتھ ساتھ ذہنی‘ عقلی اور نفسیاتی حاضری بھی ضروری ہے۔ یہ مرحلہ صرف بچوں کے لئے نہیں بلکہ اساتذہ کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ طرافین کا ہمہ وقت تدریس کے لئے تیار رہنا ضروری ہے۔ سکول نہ آنے کی کئی وجوہات میں سے چندایک درجہ ذیل ہیں؛

تعلیم کو اہمیت دینا: بچوں کا سکول نہ آنے کی ایک وجہ والدین کو تعلیم یا سکول کو اہمیت نہ دینا ہے۔ جب والدین ہی مدرسے کو اہمیت نہیں دینے لگ جاتے ہیں نتیجتاََ بچے سکول کو آنے کی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے خاص کر ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں پرائمری سطح پر۔ والدین بچوں کے دن بہ دن کی پرھائی کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے بچے اپنی مرضی سے کتاب کھولتے ہیں یا کھیلنے کودنے کے ساتھ جلدی سو جاتے ہیں۔

سکول کا ماحول: غیر حاضری کے وجوہات میں سے اہم وجہ سکول کا ماحول بھی ہے۔ اگر سکول کے منتظمین سے لیکر طالب علم تک سب کبھی کبھی چھٹی منانے کے عادی ہیں تو بچے بھی اس روّیے کی پوجا کرتے ہیں۔ سکول کی ترجیحات میں بچوں کی حاضری کے حوالے سخت قوانین ہونی چاہئے۔ ان قوانین کی عملی شکل دینے کے لئے والدین کے لئے اگاہی نشتیں بھی رکھنی چاہئے تاکہ والدین اگاہ ہو اور بچوں کو سکول کی طرف راغب کر سکیں۔ سکول کا ماحول بہت سخت حد تک جارحیانہ بھی نہ ہو کہ بچے نام کے حاضری کو ترجیح دیں۔ بعض اوقات اساتذہ یا ہیڈٹیچر بہت جارحیت پسند روّیے رکھتے ہیں جس سے بچے اگتا جاتے ہیں۔ غیرحاضری پر بچوں کی بے عزتی اور سزا بھی سکول کے ماحول کو خراب کر دیتی ہے۔ان تمام عوامل پر احتیاط برتنا ضروری ہے۔

اضطرابیت یا تناؤ: اضطرابیت بھی بچوں کی غیر حاضری کا سبب بنتی ہے۔والدین گھر میں اساتذہ سکول کو میں بچوں کو ذہنی اضطرابیت میں مبتلا کردیتے ہیں جس کی ایک مثال روز روز کی وعظ نصیتیں ہیں۔ سکول کے سربراہان اور گھر کے بڑے دبنگ انداز میں اپنے دور کے گن گاتے رہتے ہیں جس کو نئی نسل سن سن کر اگتا جاتی ہے اور غیر حاضر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی شاعرنے کہا تھا کہ’ نصیحت گر نہ ہو صالح‘ تو یہ گر صالح کو بدلانہ پڑے گا‘۔قابل بچوں کی بار بار حوصلہ افزائی اور کمزور بچوں کی روزانہ دست ترازی بھی ایک اہم وجہ ہے۔باربار کے کلاسوں کی جانچ پڑتال اور نتیجہ کی بنیاد پر مسابقتی انداز میں پروپگنڈا بھی بعض بچوں کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے۔ صنفی ترجیہات اوردیگر ناانصافیاں بھی بے قراری کا سبب بنتے ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے بچے مخصوص اساتذہ یاکتابوں سے چڑچڑاتے ہیں۔

مساوی سرگرمیاں: بعض سکولوں میں اساتذہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے بہت سخت محنت کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کام کا بوجھ بچوں پر ڈال دیتے ہیں۔ گھر کاکام سکول کا کام اوراخلاقی مراسلے وغیرہ بھی بچوں کو سکول سے دور کردیتے ہیں۔ غیرہم نصابی سرگرمیوں پر پابندی‘ سخت تعلیمی ماحول‘ مخصوص حیلہ کی ترغیب‘ موبائل اور دیگر کمپوٹر سے منسلک پرگراموں کی حوصلہ شکنی کی نئے دور کے بچوں کی ضد بڑھانے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ سکول کا ماحول زیادہ تر قدیم روایات پر قائم ہے اور اساتذہ اپنے دور کی حدووقیود چاہتے ہیں۔ معاشرتی ‘ مالی‘ فیشن اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے بچے پورے نظام سے خائف رہتے ہیں۔یہی نہیں والدین اور اساتذہ کے ساتھ نظام کے یک طرفہ اقدامات بھی نئی نسل کی بیزاری کا سبب بن رہے ہیں۔

پوشیدہ صلاحیتوں سے ناآشنائی:بعض اوقات سکول میں بچوں کو اساتذہ کرام اپنے حساب سے شخصیت کی تشکیل دینا چاہتے ہیں جبکہ ان کی قدرتی صلاحیتیں کچھ اور ہوتی ہے۔ ہاوڑگاڑنر کے نظریہ کثیر الاذہان کے مطابق نو سے زائد قسم کی صلاحیتیں انسان میں پائی جاتی ہیں جن کی تشکیل سکول سے ہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی کسی کو عقلمند‘ ذہن‘ فطین‘ اوسط‘ فاتراالعقل‘نالائق اوردیگر القابات سے پکارنے کی وجہ سے بھی بچے سکول سے اکتا جاتے ہیں۔ اپنی مرضی کی شخصیت چاہنے کی وجہ سے اساتذہ کچھ پسندیدہ بچوں پر بہت مہربان باقی پر قہر الٰہی ثابت ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین اور معلمین کے اس روّیے کی وجہ تعلیمی پیشہ ورانہ تربیت کی کمی ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات شاعر‘ ادیب‘ مزاحیہ‘ خاموش طبع‘ کھیل کود‘ فیشن‘ آرٹ اور دیگر صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور معلم اپنی مرضی اور زمانے کے تقاضے کو ترجیح دینے کی وجہ بھی سکول سے دلچسپی نہ لینے کا سبب ہو سکتا ہے۔

اس تمام بحث کے بعد سکول میں حاضری بڑھانے کے لئے درجہ ذیل قدامات کئے جاسکتے ہیں؛

انتظامیہ اور اساتذہ میں تعلقات: کسی بھی ادارے کی ترقی کا راز ہمہ جہد اورمتفقہ اصولوں پر ہے۔ اگر منتظمین اور اساتذہ ایک صفحے پر ہوں ساتھ ساتھ طرفین کے ترجیحات سکول اور بچوں کی تعلیمی ترقی ہو تو یقیناًغیر حاضری پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ منتظمین کا جارحانہ انداز اور اساتذہ کی اطاعت گزاری بھی اس حوالے سے خلیج پیدا کرسکتی ہے۔ ادارے کی ترقی اور سکول کا نتیجہ آخرکار بچے کی کامیابی ہی ہوناچاہئے۔بچے کی مرکزیت اوراہمیت ہی سے سکول کو بہترماحول فراہم کیا جاسکتا ہے۔طرفین کی تعلقات کے خلیج کی وجہ سے بچے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اساتذہ اور طالبعلم میں تعلقات: سکول کی تعلیمی ترقی کا راز اساتذہ اور طالب علم کے تعلقات پر منحصر ہے۔ اساتذہ اپنی بہترین صلاحیتوں سے بچوں کو غیر حاضری سے دور کرسکتے ہیں۔ بچوں کی انفرادی حوصلہ افزائی اور قدر دانی ان کو سکول کی طرف راغب کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اساتذہ کرام کو اپنے پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے سکول کا ماحول بہتر کرنا چاہئے۔ سکول میں سماجی کافیو کا سما نہیں ہونا چاہئے بلکہ آزاد اخلاقی اقدار کی روشنی میں بچے خود ہی اپنی سمت کو سکول کے قوانین میں مربوط کرسکیں۔ خود اعتمادی اور احساس اس قدر پرواں چڑھے کہ وہ سکول کی بہتری میں اساتذہ کی معاونت بھی کریں۔ یہ تب ہوسکتا ہے کہ سکول کے اقدار بچوں کی شرکت سے تشکیل پائے۔ بچوں کو مرکزیت دینے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سب حددو قیود سے آزاد ہو بلکہ ہر ایک اپنے دائرے میں شمسی نظام کی طرح اخلاقی حددو اور قوانین کی طاقت سے جاری وساری رہے۔

بچوں سے انفرادی تعلقات: بعض اوقات سالہاسال سکول میں موجود ہونے کے باوجود اساتذہ کو بچوں کے نام ونسب کا پتہ نہیں ہوتا اور نہ ہی بچوں کو استاد کے پس منظر کا علم ہوتا ہے۔ اس طرح کے رویّوں سے بھی بچے سکول سے زیادہ دوری رکھتے ہیں۔ ہر استاد کو اپنے طالب علموں کے پورے پروفائل کاعلم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا ریکارڈ بھی ہونا چاہئے۔ انفرادی تعلقات بھی بچوں کو سکول کی طرف راغب کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔استاد کو ہر بچے کو ایک ہی نظر سے(ان کی صلاحیتوں کے مطابق)دیکھنا چاہئے۔ ہر بچے کی خواہشات کا احترام اور مناسب موقع فراہم کرنا بھی معلم کے فرائض میں شامل ہونا چاہئے۔ ذاتی تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کو ہر قسم کی چھوت دی جائے بلکہ استاد اپنے مرتبے اور مقام کے ساتھ بچے کی سطح کو ایسا منور کریں کہ وہ اُن کی شخصیت سے بہرہ ہوسکے۔ ہر بچے کو برابر اہمیت دینے سے بھی بچے سکول اور کلاس کے ماحول سے مرغوب ہوتے ہیں۔ استاد اپنی شخصیت اور عملی نمونہ بن کر بھی اس رویّے میں بہتری لاسکتے ہیں۔

موئثر تدریس: عام پر دیکھاگیا ہے کہ مشہور ومعروف اساتذہ کی موثر تدریس بچوں کو سکول میں کھنچ لاتی ہے جیسے پھول کی خوبصورتی بلبل گانے پر مجبور کرتی ہے۔ اساتذہ اس انداز میں پڑھائے جیسے سال بھر کوئی فلم چل رہی ہے اور ایف لیلہ و لیلہ کی طرح روز ایک دلچسپ مقام آئے تاکہ بچے سکول آنے میں بیقرار ہو۔ نصابی کتابیں اور قومی تعلیمی نصابی مقاصد بھی یہی تقاضا کرتے ہیں۔ ایسا ماحول دینے کے لئے استاد کو ’پڑھنے کے لئے نہیں پڑھانے کے لئے‘ سکول آنا چاہئے۔ مضمون پر عبوریت اور مطالعہ ہی ایسا کرنے میں معاون ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک خیال ہے لیکن اس کو عملی جامہ بھی پہنایا جاسکتا ہے۔ موثر تدریس ایک تسلسل ہے جو طالب علم کو ایک نیا مطمع نظر فراہم کرسکتی ہے۔

توقعات بلند رکھنا: توقعات تب بلند ہوسکتے ہیں جب انسان محنت زیادہ کرتا ہے۔ محنت بھی اس انداز میں کہ مشقت کم خوش منظر یا دیدہ زیب(smart) زیادہ ہو۔ استاد بچے کو غیر حاضری سے دور رکھنے کے لئے انفرادی توجہ کے ساتھ ذمہ داریاں بھی دے تاکہ وہ اپنے کردار کی ادائیگی کے لئے سکول آسکیں۔ مثلاََ کلاس کا نمائندہ‘ صفائی‘ چارٹ کی تشکیل‘ کلاس کی دیکھبال‘ کلاس کا نظم وضبط‘ تعلقات عامہ دیگر کلاسوں کے ساتھ‘ ہم نصابی کے ساتھ غیر ہم نصابی ذمہ داریاں‘ کھیل کود‘ بزم آدب‘ سکول کمیٹیوں میں نمائندیگی‘ استاد کی معاونت وغیرہ۔استاد بچوں سے یہ توقع رکھے کہ وہ سکول اور کمرہ جماعت میں اعلیٰ نمونہ بنے اور علم وعمل سے بہترین طالب علم کے ساتھ بہترین انسان بھی بنے۔ہر بچے سے اتنی توقع رکھے جنتی اس کی حیثیت میں ممکن ہے۔

غیر ہم نصابی سرگرمیوں میں شرکت: جیساکہ اوپر بتایا گیا بچوں کو نصابی کتابوں سے ہٹ کر علم و فن کی دنیا میں بھی قدم رکھنا چاہئے۔ جیسے کھیل کود‘ شاعری‘ ادب‘ موسیقی‘ ورزش‘ تفریحی سرگرمیوں میں شرکت‘ تقاریری مقابلے‘ دینی‘ اخلاقی اقدار اورسماجی لیڈرشب۔ کسی بھی ملک و قوم کے لئے انسانی وسائل کی فراہمی سکول سے ہی ممکن ہے لہذا بچوں کو ہر میدان کے لئے تیار کرنا سکول کے منڈیٹ میں شامل ہے۔ اس طرح بچوں ہمہ جہد تربیت سے ہی ہم معاشرے کے لئے ایماندار اورانسان دوست لوگ پیدا کرسکتے ہیں جو نہ صرف سکول بلکہ معاشرے کے ہر شعبے میں نظم وضبط کے پابند ہو۔

والدین کی شمولیت: جدید نظام تعلیم میں سکول کی ترقی میں انتظامیہ‘ نصاب‘اساتذہ‘ طلبہ اور والدین کا بڑا کردار ہے۔ والدین کی شمولیت کے بغیر سکول کا نظام ادھورا ہے۔ ہرمعاملے میں ممکنہ طورپر بچوں کے والدین کو شامل کیا جاناچاہئے تاکہ غیرحاضری پر قابوپایا جاسکے اور بہتر تدریس میں بچے کی شرکت سو فیصد برقرار رہے۔ انتظامیہ اور اساتذہ کو والدین کے ساتھ فیس اور دیگر معاملات کے علاوہ بچے کی انفرادی حیثیت سے بھی اگاہی دینا چاہئے۔ ہر وقت باخبر والدین ہی اپنے بچے کی ترقی میں سکول کی معاونت کرسکتے ہیں۔ اساتذہ کو مقررہ نشستوں کے علاوہ بھی ہمہ وقت والدین کے ساتھ ایس ایم ایس‘ ای میل‘ فون کال‘ خط‘ زبانی پیغام رسانی اوردیگر ممکنہ ذرائع سے رابطے میں رہنا چاہئے۔ ممکنہ طور پر والدین کی حوصلہ افزائی کے لئے یوم والدین یا اس قسم کے دیگر مواقع پر ان کی بھی خاص حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کارکردگی ایواڑ ‘ لیٹر وغیرہ

جانچ پڑتال کا تسلسل: سکول رسمی اور غیر رسمی طورپرطورپر والدین‘ طلبہ اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے ملاقوں کا بندوبست کرسکتی ہے۔ والدین سے روابط کے لئے اساتذہ‘ فارغ التحصیل طلبہ‘ کمیٹیوں کے پورٹ فولیو ممبرز اور دیگر زرائع بھی مستعمل ہوسکتے ہیں۔ ہر کلاس کے فارم ٹیچر‘ سیکشن ہیڈ یا پرنسپل اپنے اپنے حددو میں یہ روابط بڑھاکر بچوں کی حاضری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ان روابط کو استوار کرنے کے لئے ایسا نظام کار متعین ہونا چاہئے کہ سکول کی تدریسی سرگرمیاں بھی متاثر نہ ہو۔ جانچ پڑتال کے اس مرحلے میں پرنسپل سے لیکر منتظمین سکول اور اساتذہ کے درمیان باہمی تعاون اور یگانگت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مشین کے پرزوں کی طرح ہر ایک اپنی کارکردگی سے سکول کی گاڑی کو مسلسل محفوظ اور تیز تر چلاسکتے ہیں۔ شراکت داری اور انصاف پر مبنی مسلسل جانچ پڑتال ہی سکول کی ترقی کا ضامن ہے۔ ہر پرزے کی حوصلہ افزائی بھی مشین کی کارکردگی میں اضافہ کرسکتی ہے۔

ان تمام تجاویز کے علاوہ بیماری یا کسی اور خاص مجبوری کی صورت میں طلبہ کے لئے مخصوص کلاسوں کا انتظام ہوناچاہئے تاکہ تعلم کا سلسلہ بغیر کسی وکاوٹ کے جاری رہے۔ اس معاملے میں (mentors) بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سکول کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے ہمہ جہت شعور اور ہر قسم کے سماجی‘ ثقافتی‘ لسانی‘ مذہبی‘ مقامی‘ رنگ و نسل‘ زبان‘ رہن سہن‘ اقدار‘ تمدن‘ سیاق و سباق اورسیاسی و معیشتی عوامل کا ادراک بھی ہونا چاہئے۔ بقول اقبال ؒ ،’’زندگانے رابقا ازمدعااست‘ کارودانش رادرااز مدعاست‘‘۔

(نوٹ) رائٹر ایم فل’ہیومن رائٹس لاء‘ بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد‘ ایم ایس سی سوشیالوجی ‘ایم ۔ایڈسیکنڈری ایجوکیشن، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد‘ بی۔ایڈ ہمدرد یونیورسٹی کراچی‘ کے ساتھ ایک عشرے سے پیشہ ور نہ تدریس وتصنف اور کالم نویسی سے منسلک ہیں)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button