کوہستان(شمس الرحمن کوہستانیؔ ) داسوڈیم پر مطالبات کی عدم منظوری، متاثرین نے ڈیم سائیڈ پر تعمیراتی کام بند کرنے کافیصلہ کردیا،شاہراہ قراقرم کے اطراف مالکان اراضی نے واپڈا اور ریونیو ٹیموں کی آمدوررفت پر بھی پابندی لگادی۔
تفصیلات کے مطابق 4320میگاواٹ میگاپروجیکٹ داسو ڈیم سے متعلقہ ریزروائیر ایریا کے متاثرین نے بدھ کے روز برسین کے مقام پرگرینڈ جرگے کے بعد حکومت کو نوٹس دینے کا فیصلہ کیا کہ وہ مطالبات کی عدم منظوری کی بنیاد پر مذید ڈیم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے ۔ اس دن گرینڈ جرگے کی امارت مولانا عبدالحکیم کررہے تھے۔بعدازاں میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کمیٹی ممبران میں سے راجہ محمد عارف،حاجی گلاب، شمس الرحمن ، ضیا الرحمن،شیر خان،ملک سمندر،مولانا عبدالوارث، عبدالجبار،سون میاں ، حاجی غلام سید،حاجی فضل الرحمن و دیگرنے بتایا کہ بارہا ڈیڈلائن دینے کے باوجود متعلقہ ادارے ٹس سے مست نہیں ہوئے اور آئے روز متاثرین کے جھوٹی باتوں سے ورغلایا جانے لگا،ہمیشہ محسوس ہورہاے کہ داسو ڈیم انتظامیہ پروجیکٹ کی بروقت تکمیل کی خوہاں نہیں،مطالبات کی منظوری کے بنا ڈیم سائیڈ پر کسی بھی قسم کی سرگرمی ہونے نہیں دیں گے ۔ جرگے میں زیرآب علاقوں کے نمائندہ کمیٹی ممبران موجود تھے ۔ جرگے میں داسو ڈیم انتظامیہ کی مبینہ لاپرواہی اور اُن کی جانب پیدا کرنے خود ساختہ مسائل پر بات چیت ہوئی ۔ متاثرین پہلے ہی کام بند کرنے غیر معینہ مدت کی ڈیڈلائن دے چکے تھے ۔جرگے میں متفقہ طورپر فیصلہ کیا کہ 15اکتوبر2016تک واپڈا ، ضلعی انتظامی اور کنٹریکٹر نے تمام بائی پاسز پر کام بند کرنے کیلئے نوٹس دیا جائیگا۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا چیئرمین واپڈا کی ہدایت کو بالائے طاق رکھ متاثرین کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو تسلیم نہ کرنے والوں کی مذید موقع نہیں دیا جائیگا۔ تاہم وہ مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں ۔پندرہ اکتوبر سے تمام80 رکنی کمیٹی ممبران شاہراہ قراقرم پر ڈیوٹی دینگے ۔متاثرین(زیرآب) کے چیدہ چیدہ مطالباتی نکات ذیل ہیں۔
۱۔۱۔ واپڈا اور انتظامیہ کی جانب سے خود ساختہ کٹگری Bجس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں جس میں مجوزہ ریٹ کٹگری Cسے کم رکھا گیا ہے جس کو کٹگری Cکے برابر تصور کرکے زمین کی صرف دو اقسام بنائی جائے جیسے ملحقہ میگاپروجیکٹ دیامر بھاشا ڈیم میں کیا گیاہے ۔
۲۔ Built-Upپراپرٹی کا ریٹ حالیہ صوبائی شیڈول کے مطابق دیا جائے جبکہ پھلدار پودرختان کا ریٹ دیامر بھاشا ڈیم کے ملحقہ علاقوں داریل اور تانگیر علاقوں کے برابر دیا جائے ۔
۳۔ بغیر ادائیگیوں کے زمینوں پر ناجائیز قبضہ ختم کیا جائے یا فوری طورپر ادائیگیاں یقینی بنائی جائے ۔
۴۔ تمام ڈسٹرکٹ کیڈر پوسٹوں پر بیرونی علاقوں خاص طورپر پنجاب سے بھرتی شدہ لوگوں کو واپس بھیج کر خالی آسامیوں پر مقامی متاثرین کو کو بھرتی کیا جائے اور نان سکل پوسٹوں پر کوہستان کا سو فیصد حق تسلیم کیا جائے ۔جبکہ رینٹ پر لی جانے والی ٹرانسپورٹ بھی مقامی سطح پر لی جائے اور ایریا ڈویلپمنٹ فنڈ میں ریزروائیر ایریا کو ترجیحی بنادوں پرفنڈدیا جائے۔
۵۔ غیر قانونی طورپر مسمار کئے گئے گھروں اور مکانات کے معاوضے دئے جائیں ۔
۶۔ خفیہ اور جدید مشینری کے ذریعے کی جانے والی سروے کو منسوخ تصور کی جائے اور دوبارہ سیکشن فور لگاکر از سر نو سروے کی جائے ۔کیونکہ سابق سیکشن فور کی میعاد ختم ہوچکی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔
۷۔ورلڈ بنک کی جانب سے جارہ کردہ کتابچہ کے مطابق متاثرین کو حقوق دئے جائیں ۔
۸۔ متاثرین زیرآب داسو ڈیم کی تعمیر میں ہر قسم کا تعاون کریں گے بشرطیکہ اُن کے قرارداد کی روشنی میں اُن کے ساتھ باہمی تحریری معاہدہ کیا جائے جس میں ضلعی انتظامیہ ، واپڈا اورمتاثرین تینوں فریقوں کے دستخط ہوں ،تاکہ مستقبل میں فریقین کو مسائل کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
۹۔ شاہراہ قراقرم کے اطراف دوکانوں ، ہوٹلوں اور مکانات نیز لنک روڈ ز اور پبلک مقامات پر موجود عمارات و دکانات کو کمرشل قراردیا جائے ۔
گرینڈ جرگے میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا مطالبات کی عدم منظوری کی صورت میں مالکان زمین اپنی املاک و ارضیات پر ریونیو اور واپڈا کی ٹیموں کی آمدورفت رو ک دیں گے ۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔