کالمز

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

 محمد شریف رحیم آبادی

میرا دل مجبور کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کے گھمبیر مسائل کی نشاندہی روزانہ کی بنیاد پر صوبائی حکومت اور حکام بالا کی گوش گزار کراؤں مگر ذاتی مسائل گوناگوں مصروفیات کے باعث ایسا ممکن نہیں تا ہم خطے سے محبت مجھے لکھنے پر اکساتی ہے۔یوں تو اس علاقے کے بڑے مسائل کا احاطہ کرنا اور ان کے حل کے لئے تجاویز دینا آسان نہیں پھر بھی قلم کار اپنی سی سعی کرتا ہے ۔ اس کالم کو ضبط تحریر میں لانے کا مقصد شہر گلگت باسیوں کو درپیش مشکلات سے صوبائی حکومت کو آگاہ کرنا اور ان مسائل کا فوری حل جو کہ اس حکومت کی ذرا سی توجہ سے حل ہو سکتے ہیں مگر اقتدار کا کا مزہ شاید وزراء اور معاونین کی راہ میں حائل دکھائی دیتا ہے وگرنہ اس چھوٹے سے شہر کا ان کا وزٹ شہریوں کو درپیش مشکلات سے آگاہی اور فوری اقدامات ان کے سیاسی قد میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے نہ کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر اخباری بیانات داغنے سے۔ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں بھی کچھ ایسا منظر عوام نے دیکھا اور وقت آنے پر پرچی کی طاقت سے انہیں مسترد کر دیا۔ کاش موجودہ حکومت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عوام کے بنیادی ضروریات صفائی، پانی و بجلی اور آٹے کے ایشوزجو کہ صوبائی گورنمنٹ کے اختیار و دسترس میں ہیں کو حل کر سکتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے امید کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ بالا مسائل کے فوری حل کے لئے احکامات صادر کریں۔ نوید ہوٹل، گلگت ہنزہ گیسٹ ہاؤس، ملحقہ ورکشاپس اور نسیم چوک کے سامنے مجینی محلہ کے مکین پچھلے ڈیڑھ ماہ سے پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں، محکمہ واسا سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پانی کا پائپ لائن بوسیدہ ہونے کی وجہ سے لیک ہو رہا تھا اس لئے اس لائن میں پانی بند کیا گیا، کیا اس لائن کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری حکومت وقت کی نہیں بنتی ؟دوسری طرف شہر گلگت میں صفائی کا بھی فقدان نظر آتا ہے ، صوبائی حکومت نے صفائی کے ایشو سے نمٹنے کے لئے کروڑوں روپے کی مشینری منگوائی جو کہ لائق تحسین اقدام ہے لیکن ان سے درست اور متعین کردہ حدود میں کام لینا اور انہیں منیجرل سکل کے حامل آفیسر کی زیر نگرانی کام تفویض کرناگڈ گورننس میں آتا ہے ۔پاکستان مسلم لیگ لیبر ونگ کے صدرسلامت جان کے موبل آئل کی دکان سے ملحقہ گلی ہر وقت فلتھ ڈپو کا منظر پیش کرتی ہے جب ایک اہم مسلم لیگی عہدیدار کے ساتھ والی گلی کا حال ایسا ہے تو دیگر عوام کا خد احافظ ہے۔ایک شعر وزراء کی نذر

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

مذکورہ گلی کے ساتھ فروٹ منڈیاں موجود ہیں یہاں سے خریدے گئے پھلوں کے استعمال سے جو بیماریاں پھیلیں گی اس کے بارے میں سوچ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، شہر میں پبلک ٹوائلٹ نہ ہونے کے باعث شہریوں کو جہاں گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے وہی پر پیشاب کرتے ہیں جس سے تعفن پھیلنے کے علاوہ شہر کا انوائرمنٹ بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔عوام الناس کو بھی شعور و آگاہی دینے کی ضرورت ہے ، وزیر اعلیٰ کا بیان جو کہ شہر کو پلاسٹک فری بنانے سے متعلق تھا لائق ستائش مگر کافی عرصہ گزرنے کے باوجود عملی اقدامات نہ دارد۔زمینی حقائق کوئی اور نقشہ پیش کر رہی ہیں اگر اس ایک ایشو کو بھی سنجیدگی سے لیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اخبارات اور اس کے ٹکڑے جن پر اللہ پاک اور مبارک ہستیوں کے نام ہوتا ہے بازار میں بکھرے نظر آتے ہیں ان کی حرمت کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص طریقہ کار وضح کیا جائے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں مختلف النوع اشیاء کے لئے الگ الگ ڈسٹ بن بنے ہو تے ہیں پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر ایک بازار چنا جا سکتاہے اور پھر آہستہ آہستہ پورے شہر میں اپنایا جا سکتاہے اپنایا جا سکتا ہے ، یہ تو تھیں میری تجاویز باقی کام ارباب اختیار کا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button