ایک ہی اخبار میں ایک ہی روز چار خبریں ایک ساتھ لگی ہیں جو آج کی دنیا میں ہونے والی عالمی سیاست کی جھلکیاں ہمیں دکھا تی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ روس نے شام میں مستقل فوجی اڈہ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا دوسری خبر یہ ہے کہ سعودی عرب کے فرمان روا سلمان بن عبدالعزیز نے عرب سے کہا ہے کہ شام میں جاری جنگ کو بند کر انے کے لئے کردار ادا کریں تیسری خبر یہ ہے کہ انجینئر گلبد ین حکمتیار کے ساتھ افغان حکومت کے معاہد ے کے بعد امریکہ نے ضرب اسلامی کے وفد کو واشنگٹن کے سرکاری دورے کی دعوت دی ہے آخر ی خبر یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 6 نامور سکالرز کو 75 لاکھ روپے فی کس وظیفہ دے کر بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے بھیجا اور وہ پی ایچ ڈی کر نے کی جگہ وہاں روپوش ہوکر نوکریاں کر نے لگ گئے شام اسلامی دنیا کا اہم ملک ہے عرب ممالک کے لئے اس کی اہمیت یہ ہے کہ دمشق اور کوفہ جیسے تاریخی شہر اس ملک میں واقع ہیں انبیا ء اور اولیا ء کے مزارات یہاں واقع ہیں کئی اسلامی حکومتوں کا دارلخلافہ دمشق ہوا کر تا تھا مشرقی وسطی کی سیاست میں شام کو کلیدی حیثیت دی جاتی رہی ہیں پڑوسی ملک اسرائیل کے لئے شام کی اہمیت یہ ہے کہ شام زرعی لحاظ سے زرخیز ملک ہے شام کی زمین سونا اگلتی ہے شام کی زمین اگر اسرائیل کے قبضے میںآجائے تو اسرائیل بھی امریکہ ، آسٹریلیا اور چا ئینا کی طرح آشیا ئے خوراک برآمد کر نے والا ملک بن جا ئے گا امریکہ کے لئے شام کی دہری اہمیت ہے اسرائیل کی ضروریات شام سے پوری ہوجائینگی اور ساتھ ساتھ تیل اور گیس کے مزید ذخا ئر امریکہ کے ہاتھ آئینگے روس کی نظر میں شام کا مقام وہی ہے جو ماسکو اور سینٹ پیٹر ز برگ کا ہے روس کے شام کا فوجی اور اقتصادی اتحاد ہے روس نہیں چاہتا کہ اس کا اتحاد ی ملک اسرائیل اور امریکہ کے قبضے میں چلا جائے اس لئے روس یہاں اپنی فوجی غیرت کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت اور جنگی قوت کا بھی مظاہر ہ کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان ، عراق اور لیبیا پر امریکی قبضے کے بعد شام پر امریکہ کا فوجی قبضہ نہ ہو سکا اور شام امریکہ کے لئے ویت نام بن گیا اب روس کی طرف سے خبر آگئی ہے شام کے شہر طرطوس میں روس کا مستقل فوجی اڈہ قائم ہوگا جو امریکہ حملوں کی صورت میں شام کے دفاع کے لئے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہے گا یہ خبر اسلامی دنیا کے لئے اور مسلمانوں کے لئے خوشخبر ی کی حیثیت رکھتی ہے کہ شام کے اتحادی ملک نے ایک اہم اسلامی حکومت کو امریکہ اور اسرائیل کے چنگل میں جانے سے بچا نے کے لئے اپنا مستقل فوجی اڈہ قائم کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے اس فیصلے کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جائے گا دوسری خبر کا پہلی خبر کے ساتھ گہرا تعلق ہے 10 سال پہلے 2006 ء میں سعودی عرب نے خلیج تعاؤن کونسل اور عر ب لیگ کے ذریعے شام میں خانہ جنگی کے لئے امریکہ کی مدد کی تھی امریکہ کو اپنے فوجی اڈے دیدیے جنگی جہازوں کے لئے تیل دیدیا ، یمن ، تیونس ، الجر ائر ، افغانستان صومالیہ اور سوڈان سے القاعد ہ کے جنگجو اکھٹے کر کے شام بھیجتے اور سعودی عرب نے اعلان کیا کہ شام کی حکومت کا تختہ اُلٹنے تک ہماری جنگ جاری رہے گی شاہ عبدا للہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان نے تخت سنبھال کر شام کی جنگ میں مزید دلچسپی لی یمن کی الگ جنگ شروع کی اورا یران کو جنگ کی دھمکی دیدی عرب ملکوں کو شام ، یمن اور ایران کے خلاف لمبی جنگ کے لئے تیاری کر نے کا مشورہ دیا 2016 ء میں سعودی عرب کو احساس ہوا کہ امریکہ کے مفاد میں شام کے اندر مسلمان کا خون بہایا جارہا ہے عربوں کا خون بہایا جارہا ہے فارسی میں مقولہ ہے دیر آید درست آید ، اردو میں ایک ولی کا مل کا شعر ہے
ہوش کب آیا انہیں جب ہو چکا نا کام دل
عقل کب آئی ہمیں جب ہوچکے برباد ہم
اسلامی دنیا کا درد رکھنے والے حلقے اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے دانشور سعودی شاہی خاندان کی تازہ اپیل کا خیر مقدم کرنیگے اگر عرب ممالک نے امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ نہ دیا تو دشمن کو شام میں ویت نام کی طرح شکست ہوگی یہ اسلامی دنیا کے لئے اچھی خبر ہے تیسری خبر کا تعلق دوسری خبر سے ہے 1978 ء میں امریکہ اور سعودی عرب نے ملکر افغان خانہ جنگی کے لئے مسلح تنظیموں کو فنڈ ، تربیت اور اسلحہ دینے کا جامع پروگرام بنا یا پشاور میں ورسک روڈ پر حز ب اسلامی کا بہت بڑا مرکز قائم ہوا اس مرکز کا ایک حصہ اب بھی امریکیوں کے کنٹرول میں ہے 1990 ء میں سویت یونین ٹوٹنے کے بعد امریکہ کی پالیسی بدل گئی حز ب اسلامی اور دیگر تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اشرف غنی کے ساتھ معاہد ہ ہوتے ہی حزب اسلامی کے وفد کو ایک بار پھر واشنگٹن کے سرکاری دورے کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان میں نئی کھچڑی پک رہی ہے اس کھچڑی میں حز ب اسلامی کو اہم کردار ملنے کا امکان ہے 1990 اور 2002 کے درمیانی عرصے میں احمد شاہ گیلانی ، حامد کرئی، اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ سب کو دہشت گردوں میں شامل کیا گیا تھا 2002 کے بعد ان کو ایک ایک کر کے پھر سے ’’ مشرف بہ امریکہ ‘‘ کر نے کا کام شروع ہوا استاد بر ہاں الدین ربانی اور صبغت اللہ مجد دی بھی ’’ گُڈ طالبان ‘‘ کی صف میں شامل ہوگئے اب انجینئر گلبد بن حکمت یار کو بھی گُڈ طالبان کی صف میں جگہ دیدی گئی حز ب اسلامی کے وفد کا واشنگٹن یا ترا خوش آئیند ہ ہے
لے آتی ہے کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے
چو تھی خبر کا تعلق پاکستان کے اندر سول بیورو کریسی کے طریقہ واردات سے ہے سرکاری سطح پر جب بھی اندروں ملک اور بیرون ملک مراعات کی سکیم آتی ہے سرکاری حکام اس میں اپنا چچا ماموں لاکر ڈال دیتے ہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ، وزیراعظم بلو کیب سکیم اور وزیراعظم یوتھ لو ن سکیم کی مثالیں سامنے ہیں ہائیر ایجو کیشن کمیشن میں بھی اسی طرح کے طریقہ وار دات سے کام لیا جاتا ہے جس طالب علموں اور سکا لروں کی دلچسپی ریسر چ میں ہوتی ہے ان کو گھاس ڈالنے کا رواج نہیں ہے ہر افسر اپنے بیٹے ، بیٹی ، داماد اور بہو کو سکیم میں شامل کر تا ہے پھر چچا زاد بہو ماموں زاد کو پذیرائی دی جاتی ہے پھر دوستوں کی باری آتی ہے اخبار میں صرف چھ لوگوں کا نام آیا ہے جنہوں نے ایج ای سی کے سکالر شپ کے ذریعے خرچہ پیدا کیا ،ویز ا حاصل کیا اور اعلیٰ تعلیم کی جگہ محنت مز دوری پر لگ گئے یہ سفارش کلچر اور اقر با پر وری کا لازمی نتیجہ ہے چار خبروں کے بعد روسی وزیر خارجہ سر گی لا روف کا بیا ن بھی اہمیت کا حامل ہے ،انہوں نے کہا ہے کہ رونا لڈ ریگن نے القاعد ہ کو منظم کیا ، بش جو نےئر نے داعش کی بنیاد رکھی او بامہ کو یقیناًاس حوالے سے یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے النصر ہ ( Al- NUSRA) نامی دہشت گرد تنظیم بنا ئی اور یہ باٹم لائن ہے۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
well Said.