کالمز

گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے

جاوید احمد ساجد

گلگت بلتستان کی تاریخ بہت پر انی ہے ۔اگراس کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو یہ قبل مسیح سے بھی پرانی ہے، یہاں کی ثقافت ، تہذیب و تمدن، قدیم ہے اور یہاں کی زبانیں دنیا کی قدیم زبانوں میں شمار ہو تے ہیں ، یہ علاقے زمانہ قدیم سے ہی آزاد ، اورخود مختار ریاستیں رہی ہیں ۔ چاہے یہ قبل مسیح کے تیلی تی تھم اور عیش تھم کا زمانہ ہو یا عظیم بروشال کا دور، دردستان ہو یا بلورستان، یا سارگن گلیت ہو یا عظیم پلولو کا دور ، گلگت بلتستان کے علاقے خود مختار اور ایک آزاد قبائلی طرزکے تھے ۔ اگر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہو تا تو ڈوگروں کو صدیوں تک گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ لڑائیاں لڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئیں اور کئی مرتبہ سکھوں اور ڈوگروں نے گلگت پر عارضی طور پر قبضہ بھی کیا لیکن یہاں کے لوگوں نے ان کو ہر بار مار بھگایا ، اگر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا تو بیارچی میں یاسین کے تلوار باز بڈل اور بدنگ نے ڈوگروں کو کیو تہہ تیغ کیا اور لاشوں کی انبار لگا دی ، اگر کشمیر کا حصہ تھا تو نتھے شاہ کو گوہر امان کے فوج کے ہا تھوں شیر قلعہ میں کیو ں شکست ہوئی اور اگر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھا تو ڈورگرہ جرنیل بوب سنگھ کی پوری آرمی کو گوہر امان کی قیادت میں گلگت بلتستان کے لوگوں کے ہاتھوں کیوں نیست و نابود کیا گیا صرف ایک مکار بوڑھی بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی او ر مہاراجہ کشمیر کو یہ اندوہ ناک خبر سنائی کہ بوب سنگھ اور ان کی تمام فوج کو گوہر امان نے مار دیا۔ اگر میں ان معرکوں کی تفصیل بیان کرنا شروع کرونگا تو میر کالم بہت لمبا ہوگا ۔

لیکن افسوس کہ غازی گوہر امان کے مرنے کے بعد ۱۸۶۲ء میں ڈوگروں کو، کریم خان اور عسےٰ بہادر نے بلوایا اور اپنوں کی وجہ سے ۸۸ سال تک ڈوگروں کا ایک غاصبانہ قبضہ گلگت بلتستان پر ضرور رہا لیکن ڈوگرہ پھر بھی صرف گلگت تک ہی محدود رہے اورباقی تمام آزاد ریاستوں میں مقامی راجاوں کی حکومت رہی۔ سکردو، ہنزہ نگر، پونیال، اشکومن، گوپس اور یا سین ، داریل تنگیر اور بلتستان میں سب کے سب مقامی راجے تھے، سوائے اس قبضے کے گلگت بلتستان کا کشمیر کے ساتھ کوئی سر وکار نہیں رہا۔ ان کی زبان مختلف یہاں کی مختلف، ان کا ثقافت مختلف، ہمارامختلف، انکا بود و باش ، ان کے رہنے سہنے کے طریقے، مختلف ، کوئی بھی چیز ایسا نہیں کہ کوئی ثبوت کے طور پر پیش کر سکے کہ یہ ورثہ کشمیر سے ملتا جلتا ہو، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ڈوگروں نے۸۸ سال یہاں حکومت انگریز بہادر کے ساتھ مل کر کیا ہے تو اس لئے گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے تو پھر آج دنیا کی بیشتر ممالک حکومت برطانیہ کا حصہ ہو نا چاہیئے کیونکہ ایک زمانے میں کہتے ہیں کہ برطانیہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، تو آج پھر پاک و ہند کے تمام ممالک بھی برطانیہ کا حصہ ہونا چاہیئے جب کہ انگریزوں نے کئی صدیاں دنیا کی بیشتر ممالک پر حکومت کیاتھا جبکہ ڈوگرہ نے یا کشمیری مہاراجہ نے صرف ۱۸۶۲ء سے ۹۱۴۷ء تک کوئی ۸۸ برس قابض رہا ہے۔

لہٰذا گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ بلکل بھی نہیں او ر نہ ہی یہ ممکن ہے۔

البتہ یہ ایک حادثہ کہوں گا کہ ہمارے بزرگوں نے اس لئے سونے کی چڑیا کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر حکومت پاکستان کو بغیر کسی شرائط کے پیش کیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور ہم اس کا حصہ ہو نگے لیکن افسوس کہ معلوم نہیں کس بنا پر ہماری آزادی کو ۱۹۵۲ء میں  کشمیر کے ساتھ نتھی کیا اور ہمارے ارمانوں کاقتل عام کیا گیا اور ۲۷۰۰۰ مربع میل کا علاقہ متنازعہ قراقر پایا۔ وہ دن اور آج کا دن ہمارا تحریک دنیا کا انوکھا تحریک ہے کہ دنیا میں علحیدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن ہم پاکستان سے پاکستانی ہونے یا آئنی حقوق دینے کی تحریک چلاتے ہیں تو بھی ہماری مطالبات نہیں مانتے ہیِں . اگر ہمارے بزرگ کچھ عرصے یا کم از کم ایک دو سالوں تک اپنا آزاد حکومت چلاتے تو شاید پاکستان ہماری ارمانوں کا خون نہ کرتا بلکہ آج ایک آئنی صوبہ ہو تا اور ہم بھی اسمبلی میں اپنا حقوق کی بات کرتے۔

آج جب ہماری آئنی حقوق کی جدوجہد شروع ہوئی تو کشمیریوں کو ہمارے ساتھ ہمدردی ہو رہی ہے اور ان کو یاد آگیا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔ تو یہ کشمیری اور ان کے ہمدرد یہ بتائیں کہ آزاد کشمیر یا مقبوضہ کشمیر کی جو نام نہاد اسمبلیاں ہیں کیا ان میں گلگت بلتستان کے نام کی کوئی چیر ہے؟ ایک علامتی نشست کہیں رکھا ہے۔ آج تک ان کی اسمبلی میں گلگت بلتستان کا نام بھی لینا کسی نے گوارا کیا ہے۔

اگر گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ تھے تو پاکستان نے چین کے ساتھ سرحدی حد بندی کا معاہدہ کیا تو اس وقت کسی کشمیری یا کشمیریوں کے ہمدردوں کو یہ یاد کیوں نہیں آیا کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے، اورہمارے سینے کو چیرتے ہوئے پاکستان اور چین نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کیا تو اس وقت دینا کی کسی ملک یا کسی کشمیری یا کسی کشمیر کے ہمدرد کو یہ یاد کیوں نہیں آیا کہ یہ علاقے کشمیر کا حصہ ہیں اور متنازعہ علاقے سے دو آزاد ممالک کا زمینی رابطہ نہیں ہو سکتا اور آج جب ہم آئینی صوبے کی بات کر تے ہیں تو ہمارے ہمدردوں کو یاد آیا کہ وہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔

جب جنرل ضا ء الحق نے گلگت بلتستان کو مارشل لاء کا زون ای(E ) بنا کر جنرل چشتی کو مارشل لاء ایڈمنیسٹر یٹر لگایا تو یہ کشمیری اور ان کے ہمدرد کہا ں تھے اس وقت ان کو یاد نہ تھا جب مارشل لا ء والے گلگت جیل میں لوگوں کو کوڑے مارتے تھے، اور آج اچانک کیوں یاد آیا ، اور جب جنرل چشتی نے ضلع غذر اور گانچھے کو بیک جنبش قلم ختم کیا اور وہ بھی ڈر کے مارے سکردو میں جا کر بلکہ اس سے بھی آگے کہیں جاکر اعلان کیا تو سپوت گلگت بلتستان ایس پی امیر حمزہ کے سوا کسی کو یہ کہنے کی جرات کیو ں نہیں ہو ئی کہ اس علاقے کے لوگ بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں اور ان کے سینے بھی گوشت کا ایک لوتھڑا دھڑکتا ہے اور اس سوال کا جواب امیر حمزہ صاحب کو بڑا مہنگا پڑا تھا۔

آج جب پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کا وقت آیا تو ان ہمدردوں کو کیوں یاد آیا؟ کہیں یہ مودی کے کسی ایجنڈے پر کام تو نہیں کر رہے ہیں؟ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو!

گلگت بلتستان کے عوام کو ایک اچھا موقع ہاتھ آیا کہ سی پیک پر عمدرآمد کے دوران ہمارا آئنی حق بھی تسلیم کیا جائے، تو ان کو پھر سے کشمیر یاد آگیا حیرانگی کی بات ہے۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے ان کے پاس سوائے اس غیر قانونی اور غاصبانہ ۸۸ سالہ قبضے کے کے جو کہ ۱۸۶۲ء سے ۱۹۴۷ء تک جو مہاراجہ اور اس کے حواریوں نے حکومت کیا تھا جو بالکل غیر قانونی اور غیر اخلاقی اور غیر انسانی تھا کے علاوہ کوئی ثبوت ہے یا کہنے کی حد تک ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ بھی ثبوت نہیں ہے اور پھر گلگت بلتستان کے بہادر عوام نے مہاراجہ اور اس کی فوج کو ذلیل کر کے کشمیر پہنچایا تھا ۔ اگر کشمیر کا حصہ تھا تو اس وقت دنیا کیو ں خاموش رہی؟

لہٰذا گلگت بلتستان کے عوام حوش کے ناخن لیں کہ اب وقت ہے کہ حکومت پاکستان ہمیں ہمارا آیئنی حق دے اور صوبہ گلچستان بنائے جس میں گلگت بلتستان ، شیناکی کوہستان جو صوبہ کے پی کے والوں نے زبردستی قبضہ کیا ہو اہے اور چترال پر مشتمل صوبہ بنائے اور ہمارا قانونی اور آیئنی حق ہمیں دیا جائے اور گلگت بلتستان کے عوام زندگی کے ہر میدان میں اپنا کردار ، ادا کریں اور یہ پر امن طور پر اپنے قلم سے،اپنے رویئے سے، پر امن احتجاج سے، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں صرف اور صرف آیئنی حقوق چاہیئے اور بس۔ او ر اپنے اس انوکھے تحریک کو جیسا کہ میں نے کہا کہ پوری دنیامیں علحیدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جب کہ ہم ملک پاکستان سے الحاق کی تحریک چلارہے ہیں کو آگے بڑھائیں ۔

لہٰذا ہم حکومت پاکستان او ر سپہ سالار، جنرل راحیل شریف سے یہ مطالبہ کر تے ہیں کہ ہمیں پاکستان کا لازمی جز قرار دئے بغیر کوریڈور کامیاب نہیں ہے بلکہ اہل گلگت بلتستان سے ایک اور زیادتی ہے ، اور یہ آپ کی ناکامی ہو گی ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button