بلاگز

گشنج باز اور شہباز

پرانے زمانے میں خا ص کر مغل دور میں ہندوستان میں ایک محکمہ شاکاریات ہو تا تھا جس کے کمانڈر یا داروغہ کو میر شکار کہا جاتا تھا جس طرح شاہی اصطبل کے انچارج یا کمانڈر یا داروغہ کو میر اخور کہا جاتا تھا جو یسن اور چترال میں تھوڑہ بگاڑ کے ساتھ مراخور بن گیا تھا ۔حالانکہ یہ دونوں عہدے تھے یسن میں میر شکار کو بگاڑ کر مہہ شکار کہاجاتا تھا جو کہ شکار کے محمکمے کا انچارج ہو تا تھا اس کی زمہ داری میں ایک اہم زمہ راجہ یا حکمران کے لئے اچھے اچھے باز جن کو بروشو قوم   گشنج کہتی ہے دور دراز ندی نالوں سے پکڑ کر لانا اور پھر ان کو پال کر  ان کو سکھانا اور سہلا نا شامل تھا۔

:باز دو طریقو ں سے پکڑتے تھے

پہلا طریقہ ، یورکھٹی کوٹو یعنی ایک چھو ٹا سا کمرہ نما بنیا جاتا تھا جس میں ایک دو بندے مشکل سے سما سکتے تھے اس کے چھت کو مختلف جھاڑیوں اور درخت کے ہرے ٹہنیوں سے ڈاھانپا جاتا اور درمیان میں ایک چھو ٹا سا روشندان یا سوراخ چھوڑا جاتا اور پھر ایک یا دو بندے اس کمرے یا مورچے میں بیٹھتے اور ایک عدد مرغی یا چوزہ کے ٹانگو کو باندھ کر اس کمرے کے اس سوراخ یا روشندان سے پار نکال کر پگڑ کر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ باز شکار کی غرض سے اکر اس مرغی کو دبوچ لیتا اور جب وہ مضبوتی سے پنجے گاڑھ کر مرغی یا چوزے کو لے کر اڑنے کی کوشش کرتا تو ایک بندہ ارام سے باز کے ٹانگو کو پگرتا اور دوسر بندہ ہاتھ میں چمڑے کے داستانے پہن کر باہر نکل کر باز کو قابو کرتے پھر چمڑے کا بنا ہوا ٹوپی جو باز کے سر کے ناپ سے بنا ہوا ان کے پاس ہوتا اسے پہنا دیا جاتا اور پھر اس کے دونو ں ٹانگوں مین چمڑے کے تسمے باندھ دئے جاتے اور لے کر گھر اتے اور اس کی تربیت شروع کی جاتی اور

 دوسرا طریقہ یہ تھا کہ باز نے ایک دفعہ  ایک درخت پر رات گذارنا شروع کیا تو یہ اس کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر رات اسی درخت پر اکر بیٹھ جاتا اور رات گذارتا ہے تو ایسی صورت میں رات کے وقت کسی ٹارچ جو کہ بعد کے زمانے کی پیداوار ہے کا استعمال کر کے یا لکڑی کے باریک بارک ٹکڑوں کو جلایا جا کر روشن کیا جاتا اور ایک لمبا لکڑی کا ڈنڈھا جس کو خرہ کہا جاتا ہے کے سب سے اوپر والے سرے میں گھوڑے کے دم کا یک پھندہ تیار کیا جاتا اور باز کے چونچ میں پھنسا کر بعض کو نیچے اتارہ جاتا  اور پکڑا جاتا اور پھر اس کی تربیت شروع کی جاتی لیکن پکڑنے یہ طریقہ خطر ناک بھی تھا۔  ، اگر چمڑے کا ٹوُی میسر نہ ہو تو پھر بہت احتیاط کے ساتھ باز کے آنکھوں کے پپوٹے سوئی دھاگہ سے ایک ٹانکہ لگا کر آنکھے بند کی جاتی اس سے باز دیکھنے کے قابل نہ رہتا اور ارام سے تربیت کا حصہ بن جاتا اور جلد ہی ٹوپی کا بھی بندوبست کیا جاتا ۔

باز ہر آدمی  نہیں پال سکتا تھا کیوں کہ جب تک وہ زیر تربیت ہوتا ہے تو اس کو روزانہ تازہ گرم گرم گوشت کھلایا جاتا ہے اور باسی گوشت کھلایا جائے تو وہ بیمار پڑتا ہے اور مرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔یسن میں کوئی ایک ادھ بندہ شوقیہ پالتا لیکن راجے کے دروازے پر کئی کئی باز لکڑی کے ڈنڈھوں پر باندھے نظر آتے راجوں کے علاوہ پیر لوگ جن میں یاسین کے جناب شاسلامت ، سندی کے شاہ پیر کی خاندان اور برنداس کے خاندان میں باز پالے اتے تھے ، میں جب بھی کسی زیر تربیت باز دیکھا تو اس کا مالک یا تر بیت دینے والا کوئی چڑیا مارتا تو سر  باز کو کھلا تا اور اس کو کھلاماس کہا جاتا تھا اور کافی عرصہ بعد جب وہ عادی ہو جاتا تو ٹوپی بھی سر سے اتاارا جاتا اور وہ پریشان بھی نہیں ہوتا اور پھر ایک دن ایسا اتا کہ اس کو کسی چڑیا یا کسی پرندے کی شکار کلئے ایک خاص انداز سے چھوڑا جاتا اور پھر اگر اس نے شکار کو پکڑ کر کسی درخت پر بیٹھ جاتا تو اس کو ایک خاص انداز سے بلایا جاتا جس کو جیش کرنا کہا جاتا اور وہ اڑ کر اکر اپنے مالک کے ہاتھ پر بیٹھ جاتا تو مالک بڑا خوش ہوتا اور پیار سے اس کے سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا

 

کریز ڈالنا ۔کریز ڈلنا سے مراد یہ کہ اگر اس کے بال خراب یعنی پر خراب ہوجا یئں یا بہت بڑے ہو جائے تو اس کے پرانے بالوں کو گرا کر نئے بال اگانے کو کریز کہا جاتا تھا اس کا طریقہ یہ ہو تا تھا کہ اس کو خوراک ڈبل دی جاتی لیکن اسے ایک کھلے مکان میں کھلا چھوڑ دیا جاتا اور کوشش کر کے اسے تازہ تازہ چوہے زیادہ سے زیادہ کھلائے جاتے اور چوہے پکڑ کر اس کمرے یا مکان میں چھوڑے جاتے ان کو کھا کر اس کے پرانے بال یا پر گر جاتے اور پر جب نئے اور خوب صورت پر نکل کر تیار ہوتے تو پھر اس ے انتہائی احتیا ط سے پکڑ کر باہر لایا جاتا اور پھر تربیت شروع کی جاتی اور شکا ر کیا جاتا ،

اقسام : بروشاسکی میں کئی نام اور اقسام ہیں سب چھوٹا سائز کو چپ کہا جاتا اس سے بڑے قد والے کو بورج اور سے بڑے کو یورج یا کلو یورج پھر سایورج ، بجگی سایورج شمقار، قلع قولہ وغیرہ ، احباب سے گذارش ہے کہ میری مزید رہنمائی فرمائے ۔ باز کے بڑے بڑے دو اقسام ہیں ایک کو سیاہ چشم اور دوسرے کو زرد چشم کہا جاتا ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button