تحریر: دیدار علی شاہ
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی وسائل کی تلاش ،رسائی اور اسے حاصل کرنا اکثر ریاستوں اور ملکوں کے نقشوں میں تبدیلی لائی ہیں اس وسائل کی کشمکش نے کئی طرح کے ملکوں کو وجود میں لائی ہیں اور کئی کو ہمیشہ کے لیئے دنیا کے نقشوں سے مٹا دیا ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی تک دلچسپی اور ہوشیاری کے ساتھ جاری ہیں، اس کشمکش کا مقصد اور اس میں شامل ملکوں کے خواہش یہی ہوتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وسائل حاصل کر کے دنیا میں معاشی، سیاسی و جوہری لحاظ سے اپنی بات منوا سکے۔
اب اگر موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو وہی کچھ ہو رہا ہیں جو کہ صدیوں سے ہوتی آرہی ہیں اور اس کھیل میں شامل امریکہ،برطانیہ ،روس اور چین بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جبکہ پاکستان اور انڈیا بھی اس دوڑ میں ایک کردار ضرور ہیں مگر ناپختگی سے۔۔۔
اس وقت پوری دنیا میں امریکہ کی بالا دستی ہیں اور اس کے مقابلے میں چین آرہا ہیں برطانیہ اور روس ان کے پیچھے پیچھے ہے اور معاشی وسائل کی جنگ اس وقت اس خطے میں شروع ہوچکی ہیں جس کا ایک عنصر سی پیک ہیں اور وسائل کے اس جنگ میں اصل ہدف سنٹرل ایشیا کے ممالک ہیں جو کہ سویت یونین ٹوٹنے کے بعد بعد قسمتی سے معاشی لحاظ سے سب نہایت ہی کمزور ہیں اور ان ممالک میں تیل اور گیس کی بہت بڑے ذخیرے موجود ہیں تیل اور گیس کے ذخائر میں ہمارے ملک پاکستان بھی شامل ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ سونا ہنزہ کے پہاڑوں میں ہیں اس لیے اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وسائل کی جنگ میں ہدف پاکستان بھی ہیں ۔
وسائل کی تلاش کی یہ جنگ پس پردہ ہیں اور ابھی تک نمایا ں طور پر سامنے نہیں آیا ہیں اس کے کئی زاویے اور محرکات ہیں جس میں ایک طرف امریکہ شام میں روس کے لیے رکاوٹ پیدا کر رہا ہیں اور انڈیا اس خطے میں چین کے لئے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہیں ،اسی طرح سے اس خطے کی صورت حال یہ ہیں کہ انڈیا کی جوکھاو امریکہ کی طرف ہیں اور چین اپنی مخفی صلاحیتوں اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہیں جبکہ روس اور ایران کا موقف واضع نہیں لیکن روس اس وقت شام میں مصروف ہیں افغانستان بھی کسی حد تک انڈیا کی گرفت میں ہیں اور اس کی اندرون خانہ کی بھی صورت حال ٹھیک نہیں اور اس قابل بھی نہیں کہ اس گریٹ گیم میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔
اب رہا ہمارے ملک پاکستان کہ باری تو اس کھیل میں وہ شروع ہی سے چین کے ساتھ کھڑا ہیں اگر یہ کہیں کہ جس دن چین نہ ہو تو پاکستان کا سانس کمزور پڑ سکتا ہیں مگر جغرافیائی لحاظ سے یہ ملک اہم اور مضبوط اور معاشی لحاظ سے اسے بہت سارے اندرونی و بیرونی مواقعے موجود ہیں مگر اس ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہیں کہ اس کے آزاد ہونے کے بعد سے اسے صیح قیادت نہیں ملے ہیں بلکہ یہاں پرجمہوریت اور آمریت کے نام پر اس ملک کو لوٹا گیا ہیں اس ملک نے ایٹم بم تو بنایا ہیں مگر کوئی ایسی ایجادات نہیں کہ اس پر فخر کر سکے اور ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک ہر حکمرانوں نے یہی کہا ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہیں نہ جانے یہ نازک دور کب اور کیسے ختم ہوگا۔
ہمارے ملک کا موجودہ صورت حال یہ ہیں کہ یہ ہر شعبہ میں دوسرے ملکوں کا محتاج ہیں اس کی وجہ حکمرانوں کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی ہیں اور موجودہ دور میں بھی اس کے ترجیحات کیا ہے ،کیسے ہے، کیوں ہیں وغیرہ یہ وہ سوالات ہیں جس کا پاکستان کے ہر شہری کو معلوم نہیں۔ اور اس ملک کو اس حالت تک پہنچانے میں طاقت ور سیاستدانوں کا اپنا مفاد شامل ہیں ۔اس وقت پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہیں اگر یہی صورت حال رہی جس میں خاص کر معاشی حالت ابتر ہے اب اگر آج سے بیس سال بعد کا اندازہ لگالیں تو پتہ نہیں ملک کا کیا حال ہوگا۔
آج کی دنیا علم پر چل رہی ہیں اور ہر طرف سائنس کا بول بالا ہیں علم کے بغیر آج کی زندگی نامکمل ہیں ترقی یافتہ قومیں اپنے آنے والے نسلوں کو تیار کر رہے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں اپنی بات منوا رہے ہیں ۔۔۔۔۔کیا یہ سب پاکستان میں بھی ہو رہا ہے؟ ۔۔نہیں جواب نفی میں آتا ہیں ،اس کے بہت سارے وجوہات ہیں مگر ایک اہم وجہ یہ ہیں کہ پاکستان آزاد ہونے کے بعد یہاں پر شروع سے کچھ مال دار طبقہ نے حکمرانی کی ہیں اور ملک کا بھاگ دوڑسنبھالا ہیں اور اس ملک کے زیادہ تر وسائل پر قابض ہیں جوکہ یہاں کے کمزور،غریب عوام کو ہر شعبے میں آگے آنے نہیں دیتے۔۔ اور ابھی کی صورت حال سفارتی حالات ٹھیک نہیں،معاشی طور پر کمزور، پڑوس ملکوں کے ساتھ پنگے، غربت،بیماری اپنی اروج پر سوچھیے آنے والے وقتوں میں پاکستان کا کیا ہوگا ، جبکہ اس خطے میں معاشی وسائل کا جنگ شروع ہو چکا ہیں جس میں چین روس اور سنٹرل ایشا کے کچھ ممالک کے ساتھ مل کر ایک بلاک بنارہے ہیں اور امریکہ یورپ کے ساتھ مل کر دوسری طرف کھڑا ہیں اور پاکستان خود اس جنگ کا ہدف بن سکتا ہیں جس کے لیے یہ ملک اندرونی طور پر نہ بیرونی طور پر تیار ہیں ۔
تیزی سے بدلتے ہوئے اس صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کو بہت کچھ کرنا باقی ہیں جسے یہاں بیان کرنابھی لازم ہیں۔اول یہ کہ آنے والے وقتوں کے لیے اور ضرورت کے مطابق پاکستان کے مفاد کے لیے مشتریکہ طور پر بہترین حکمت عملی مرتب ہو اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت اور حالات کے مطابق اپنے ترجیحات کو واضع کریں اس ترجیحات میں یقیناًمعاشی طور پر مضبوطی ہی ہوگاپھر تعلیم ہوگا وہ تعلیم جو دور جدید اور آنے والے وقت کے ضرورت کے مطابق ہو ۔کہتے ہیں کہ ہر معاشرے میں تیس سال تک ایک نسل معاشرے کا بھاگ دوڑ سنبھالتا ہیں پھر آنے والے تیس سال کے لیے دوسری نسل تیار ہوتی ہیں اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت ایک ایسے تعلیمی نصاب کہ ضرورت ہیں کہ جس سے جدید دور کے مطابق ایک نسل تیار ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہیں کہ یہ نصاب روایتی نہ ہو بلکہ مذہب ،فرقہ ،لسانی، تاریخی اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہو حق،سچ اور جدید دور کے مطابق ہو اگر یہ نصاب ممکن ہوئی تب ایک نئی نسل اس مطابق تیار ہوگا جو کہ پاکستان کو اُس وقت کے مطابق دنیا میں ہر شعبے کے ترقی میں ایک مقام دے گا۔
ان تمام مراحل میں پاکستان کے سیاسی پارٹیوں کا کلیدی کردار رہے گا کیونکہ اس منصوبہ بندی کو پارلیمنٹ کے زریعے عمل میں لانے کے لیے نیک نیتی سے کام ہو تاکہ پاکستان کے نئی نسل نئی علم کے ساتھ نئی دور میں داخل ہوسکے اور موجودہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ پاکستان میں بدلنے کا عملی مظاہرہ ہو ،تاکہ یہ ملک اس صدی کے مشکل وقتوں کا مقابلہ کر سکے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی اس خطے کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اب اپنی اندرونی ناسازگار ماحول اور انتہاپسند عنصر کے روایتی کرداروں کو اب ختتام پذیر ہونا چاہیے۔سُناہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات ٹھیک نہیں اور پاکستان اپنے ایٹمی صلاحیتوں پربہت ناز کرتا ہے یاد رکھنا ایٹم بم کا اس دور میں کوئی کام نہیں ۔۔۔اگر پھر بھی چل گیا تو اسے تیسری جنگ اعظیم تصور کرنا۔۔۔ دنیا میں
خاموشی ہوگی اورپھر نہ رہے گا وسائل اور نہ ہونگے جنگ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button