کالمز

ڈاکٹروں کی غفلت کا شکار ہونے والے تیرہ سالہ بچے کا خاندان انصاف کا منتظر

احتشام الحق فاروقی

صوبائی حکومت کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحت کا انصاف اور محکمہ صحت میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے سب کے سب غلط ثابت ہوئے اور یہ اعلانات صرف دعوؤں کی حد تک محدود رہی اس پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوتا۔جس کہ منہ بولتا ثبوت چترال سے تعلق رکھنے والے سینر صحافی گل حماد فاروقی کے تیرہ سالہ بیٹے کی موت ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ گیا۔

بیٹا محمد فرحان عمر 13 سال جو پشاور پبلک سکول اینڈ کالج میں کلاس ششم کا طالب علم تھا ان کی پیٹ میں اچانک درد پیدا ہوئی۔ 29 جولائی 2016 کو اسے فوری طور پر گورنمنٹ نصیر اللہ خان بابر میموریل (سٹی) ہسپتال کوہاٹ روڈ پشاور لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے اس کی الٹرا ساؤنڈ بھی کی مگر اس کی اپینڈکس کی تشحیص نہ کرسکی اور یہ کہہ کر اسے واپس گھر بھیج دیا کہ بچے کی معدے میں زحم ہے۔اس کا مطلب ہے کہ یا تو الٹرا ساؤنڈ مشین کام نہیں کرتا یا وہ ڈاکٹر مستند نہیں ہے۔

اگلے دن 30 جولائی کو اس کو اُلٹیاں اور پیٹ میں شدید درد شروع ہوا اسے صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے گئے جہاں او پی ڈی میں ڈاکٹر نے صرف ایکسرے کیا اور بغیر تشحیص کے اسے دوائی لکھ کر گھر بھیج دیا کہ مریض کے معدے میں معمولی زحم ہے جو دوائی سے ٹھیک ہوگا ۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسر لیول او ر سینر ڈاکٹر مریضوں کا آپریشن نہیں کرتے نہ ان کا خود معائنہ کرتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو ہسپتالوں میں سرف درشن دکھانے کیلئے آکر واپس چلے جاتے ہیں اور ان کی زیادہ تر توجہ ان کی نجی کلینکوں پر ہوتی ہے۔ اور یہی تیرہ سالہ محمد فرحان کے ساتھ ہوا کہ ڈاکٹر وں کی کوشش تھی کہ مریض کو ان کے نجی کلینک میں جانے پر مجبور کیا جائے۔

اسی دن رات گیارہ بجے اسے ایک بار پھر شدید درد اور الٹیاں لگی جسے پھر LRHکے مین کیجولٹی لے گئے جہاں اس کی پچکاری کی گئی اور اسے سرجیکل وارڈ میں تھوڑی دیر کیلئے رکھا گیا۔او محمد فرحان کو رات ایک بجے واپس گھر بھیج دیا گیا۔ اسے پانچ دن کیلئے دوائی لکھ دی گئی اور یہ مشورہ دیا کہ وہ گھر پر آرام کرے اور دوائی سے ٹھیک ہوجائے گا۔حالانکہ اسے اپینڈکس تھا اور یہ ڈاکٹر یاتو نالائق تھے کہ اپینڈکس کی مرض کی تشحیص نہ کرسکے یا یہ لوگ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا صحیح معائنہ ہی نہیں کرتے۔

دو دن گھر پر تڑپنے کے بعد اسے2 اگست کو فرحان کو پھر حیات آباد میڈیکل کمپلکس لے گئے جہاں ایک ڈاکٹر کو سفارش کرائی گئی جنہوں نے اس کا معائنہ کرکے بتایا کہ اس کا اپینڈکس ہے اور پہلے سے پھٹ چکا ہے اور اسے سرجیکل اے وارڈ میں داحل کیا گیا مگر ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اس کا فوری اپریشن نہیں کیا کہ او ٹی میں کسی سیرییس مریض کی اپریشن ہورہی ہے۔ دریں اثناء فرحان کے والد نے فون پر اسی وارڈ کے سینئر سرجن ڈاکٹر صدیق احمد چترالی کو فون پر درخواست کی کہ وہ اسکے بیٹے کا فوری اپریشن کرکے اس کا حاص حیال رکھے مگر بدقسمتی سے اسی وارڈ کے سرجن ہونے کے باوجود بھی نہ صرف اس نے اس کا اپریشن نہیں کیا بلکہ مریض کی حالت بھی نہیں پوچھی نہ اس کا معائنہ کیا۔شائد وہ ڈیوٹی کے اوقات نجی کلینک میں مصروف تھے یا مریض کو اس بات پر مجبور کرنا چاہتے تھے کہ اسے اس کی ذاتی کلنک میں لے جاکر ان کو بھاری فیس دی جائے۔ فرحان کو ناک کے ذریعے اس کے پیٹ میں پائپ لگایا گیا اور ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لواحقین کو ٹال دیاکہ اب اگر مریض اس حالت میں دو دن بھی پڑا رہے تو اس کی جان کو کوئی حطرہ نہیں ہے حالانکہ ڈاکٹری اصول کے مطابق مریض کا اپینڈکس پھٹنے کے فوراً بعد اس کا اپریشن کرنا چاہئے تھا مگر حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے ڈاکٹروں نے ایسا نہیں کیا جو کہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سراسر حلاف ہے اگر چہ فرحان کا اپینڈکس پھٹ چکا تھا اور اس کا فوری طور پر اپریشن کرنا چاہئے تھا مگر سرکاری ہسپتالوں میں شائد ان مریضوں کا صحیح علاج ہوتا ہے جو ان ڈاکٹروں کے کلنک میں جاکر ان کو فیس دیتے ہیں او ر وہی ڈاکٹر پھر ہسپتال میں ان کاحیال رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپینڈکس پھٹنے کے دس گھنٹے بعد شام کو مریض کا اپریشن ہوا مگر اگلے دن صبح تین بجے اس کی حالت انتہائی حراب ہوئی اور اس وقت آئی سی یو میں کوئی بیڈ حالی نہیں تھی۔ اسے خیبر ٹیچنگ ہسپتال لے گئے جہاں وہ جاں برد نہ ہوسکے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔

ایک سینیر ڈاکٹر نے فون پر ہمیں بتایا کہ اپینڈکس پھٹنے کے فوراً اپریشن کرنا چاہے تھا ۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اگر فرحان کا اپینڈکس پھٹنے سے پہلے اپریشن ہوجاتا تو شائد وہ بچ جاتا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک طرف صوبائی حکومت دعوےٰ کرتی ہے کہ انہوں نے صحت کا ایمرجنسی لگائی ہے جبکہ دوسری طرف لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے یہ ڈاکٹر ہسپتال میں مریضوں کا صحیح طور پر معائنہ ہی نہیں کرتے نہ خود ان کا اپریشن کرتے ہیں۔اس کی بڑی ثبوت یہ ہے کہ فرحان کے مرنے کے بعد اس کی ماں کی پیٹ میں تکلیف ہوئی تشحیص سے پتہ چلا کہ پیٹ میں رسولی ہے ایک بار پھر ڈاکٹر صدیق چترالی کے کلنیک میں اسے لے گئے کیونکہ یہ لوگ اپنے کلینک میں مریض کا صحیح معائنہ کرتے ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر 45000روپے دے سکتے ہو توپیر کے روز میں اپنے کلنک میں خود اپریشن کروں گا ورنہ ہسپتال میں ایک ہفتہ انتظار کرنے کے بعد مریض کو اپریشن کیلئے لمبی تاریح دی جائے گی۔ مجبوراً ایک اور ڈاکٹر کے کلنک میں مریض کا ا پریشن کروایا جنہوں نے 25000 روپے لئے۔

اسی طرح ایک اور رشتہ دار کی بیوی کو بھی تکلیف تھی اور LRH کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کے کلنک میں اس کا معائنہ کروایا گیا جسے اس پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اگر مجھے اتنی رقم بطور فیس دوں گے تو کلنک میں خود اپریشن کروں گا ورنہ ہسپتال میں میں خود اپریشن نہیں کرتا بلکہ جونئیر ڈاکٹروں سے کراتے ہیں۔

یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ صوبائی حکومت نے ان ڈاکٹروں کی تنخواہیں بھی بڑھائی ہیں مگر ان سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے کوئی بھی پروفیسر یا سینیر ڈاکٹر ہسپتا ل میں نہ تو خود اپریشن کرتا ہے اور نہ مریضوں کا معائنہ بلکہ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کی نجی کلنکوں میں جاکر بھاری فیس دیکر علاج کروائے۔ ایک سینیر صحافی ہونے کے ناطے اگر ان ڈاکٹروں کا ان کے ساتھ یہ رویہ ہے تو بچارے بے بس لوگوں کا تو پھر خدا ہی حافظ ۔

محمد فرحان مرحوم کے والدین نے وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ پرویز خٹک ، انسپکٹر جنرل آف پولیس، صدر او ر رجسٹرار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل اسلام آباد، ایس ایچ او تھانہ حیات آباد، ایس ایچ او تھانہ کابلی، ایس ایچ او تھانہ بھانہ مانڑی کو درخواست بھیجے کہ غفلت کے مرتکب ڈاکٹروں کے حلاف قانونی کاروائی کرے اور ان کے حلاف قتل بالسبب کے تحت مقدمہ درج کی جائے مگر ابھی تک نہ تو ان ڈاکٹروں کے حلاف کوئی قانونی کاروائی کی گئی نہ پولیس نے ان کے حلاف مقدمہ درج کیا۔ ان کے والدین نے پشاور ہائی کورٹ میں انسانی حقوق کے ڈائریکٹریٹ کو بھی اپیل کی جہاں سے ان کو تحریری جواب ملا کہ یہ کیس ان کی دائرہ کار سے باہر ہے اور ساتھ ہی مشورہ دیا گیا کہ وہ ان ڈاکٹروں کے حلاف فوجداری مقدمہ کیلئے تھانہ میں FIR درج کرے اور ساتھ ہی عدالت میں ان کے حلاف ہرجانے کا بھی دعویٰ کرے۔

فرحان مرحوم کے والدین چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کیس میں ازخود نوٹس لیکر ان ڈاکٹروں کے حلاف سخت قانونی کاروائی کرے تاکہ آئندہ یہ لوگ کسی اور بچے کو موت کے منہ میں نہ دھکیلے اور وہ یہ بھی مطالبہ کرتے کہ متعلقہ تھانوں میں ان کے حلاف مقدمات بھی درج کی جائے تاکہ ان کو سخت سزا دلوایا جائے تاکہ آئندہ یہ ڈاکٹر ز اور دیگر عملہ غریب مریضوں کی زندگیوں کے ساتھ نہ کھیلے اور ان کو نظر انداز کرکے موت کے منہ میں نہ دھکیلے۔ ساتھ ہی انہوں نے وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ ، وزیر صحت اور صوبائی سیکرٹری ہیلتھ س اور انسپکٹر جنرل آف پولیس ے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ڈاکٹروں کے حلاف قانونی کاروائی کرے اور ان کے حلاف متعلقہ تھانو ں میں مقدمات درج کرنے کی بھی ہدایت جاری کرے تاکہ ان ڈاکٹروں کے حلاف قانونی کاروائی کی جاسکے اور ان کو سزا دی جاسکے۔ والدین نے صدر، رجسٹرار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈنٹل کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ڈاکٹروں کے لائسنس منسوح کرکے ان خلاف محکمانہ کاروائی کرے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button