کالمز

ناصر آباد کے بارہ قلعے (ہنی یئے بای کوٹے)

اگرچہ، ہنزہ سمیت گلگت بلتستان کے چپّے چپّے میں تاریخ کے اوراق بکھرے پڑے ہیں، گاؤں سے لے کر تحصیل اور ضلع تک، عام گھروں سے لے کر محلّات اور قلعوں تک، مزاروں سے لے کر میناروں تک اور دریا کے کناروں سے لے کر پہاڑ کی چوٹیوں تک جدید و قدیم تاریخ کے آثار دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں تحقیق وتلاش کا عمل عرصے سے جاری ہے۔لیکن جب گلگت۔ بلتستان کی قدیم آبادیوں، دیہاتوں اور قصبوں کا ذکر آتا ہے تو ہنزہ شیناکی کا قدیم گاؤں ناصر آباد (قدیم نام” ہنی“) بھی ان معدودے چند دیہاتوں اور قصبوں میں سے ایک شمار ہوتاہے جن کی تاریخ صدیوں بلکہ ہزاریوں تک جاتی ہے۔اس کی قدیم تاریخ کے قطع نظریہاں اس کے بارہ تاریخی قلعوں کا ذکر کیا جاتا ہے ہیں جنہیں شینا زبان میں ”ہنی یئے بای کوٹے“ کہا جاتا ہے۔ تحریر کا موضوع بھی ناصرآباد کے یہی بارہ قلعے ہیں۔

قدیم ایّام سے ناصر آبا (ہنی) کے بارہ قلعے مشہور ہیں۔ ناصر آباد ہنزہ کے مغرب کی جانب سرحد پر واقع ہونے کے سبب اس کی جغرافیائی اور تزویراتی (strategic) اہمیّت بھی رہی ہے۔ کیونکہ مختلف ادوار میں ہمسایہ ریاستوں اور حتّیٰ کہ سکھ اور ڈوگرہ افواج نے ہنزہ پر ہلّہ بولنے کے لئے یہی راستہ اختیار کیا اور مایون اور ہنی کے قلعوں پر زور دار حملے کئے۔ لیکن، بلتت سے ریاستی افواج کے یہاں پہنچنے تک، جو کم و بیش چالیس کلو میٹر کا فاصلہ ہے، یہاں کے مقامی لوگ دادِ شجاعت دیتے ہوئے ان عسکری یلغاروں کو روکے رکھتے تھے۔اس علاقے کی اس نوعیّت کے محل وقوع کے نفسیاتی اور سماجی اثرات اس صورت میں مرتّب ہوئے کہ یہاں کے لوگ قدیم وقتوں سے اب تک اپنا دفاع کرنے، اپنے موقف پر ڈٹے رہنے، مختلف معاملات میں جلد سمجھوتہ نہ کرنے اور اپنی شجاعت و شہامت کا بھر پور مظاہرہ کرنے کے لئے مشہور و معروف ہیں جس طرح وہ جسمانی طاقت اوربڑے قد و قامت کے بھی شہرت رکھتے ہیں،۔بر سبیلِ تذکرہ یہ چند باتیں زیرِ بحث لائی گئیں۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ ناصر آباد جیسے دفاعی لحاظ سے بے اہم سرحدی علاقے میں قلعوں اور بُرجیوں کی تعمیر ایک ناگزیر عمل تھا۔ چنانچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہاں قلعے اور دیگر دفاعی عمارتیں بنتی رہیں جن کی تعداد بارہ تک پہنچتی ہے۔

اب ناصر آباد کے ان بارہ قلعوں کا بالترتیب تذکرہ کیا جائے گا جن کے متعلّ راقم الحروف نے ۰۸۹۱ء کے عشرے میں ناصر آباد (ہنی) کے بزرگوں، خاص طور پر عبارت شاہ ]عرف شایو[ولد فقیر و ]فقیرشاہ[ سے معلومات حاصل کیے تھے۔عبارت شاہ ]مرحوم [کا تعلّق قبیلہئ ڈوڈویے کی ذیلی شاخ گَسورے سے ہے۔

۱۔ چُھمَر دَن کوٹ

یہ قلعہ ناصر آباد کے مشرق کی جانب دریا کے کنارے پر واقع تھا جس کو اب چھمر دن چھار کہتے ہیں۔ یہ ناصرآبادکا سب سے قدیم قلعہ تھا۔

۲۔ سِنگو ددَلتَس مَنُوکئے کوٹ

ناصر آباد، خاص طور پر مرکزی جماعت خانہ کے مشرق کی جانب اور ڈسپنسری کے بالکل ساتھ ہی یہ قلعہ موجود تھا۔اس کے آثار اب بالکل مٹ چکے ہیں۔

۳۔ غوٹُمئے کوٹ

ناصر آباد کے مرکزی جماعت خانے کے شمال کی جانب اور ہُن کوٹ ]مشرقی قلعہ، جس کا ذکر نمبر ۷ پر ہوگا[ کے مغرب کی جانب بلکہ نمبر دار علی گوہر ]مرحوم[ کے گھر کے قریب واقع تھا۔

۴۔ سِرنگ بَتئے کوٹ

نا صرآ باد مرکزی جماعت خانے کے مغرب کے بالکل انتہائی سرے پرہلے غَس کے قریب واقع تھا۔

۵۔ غُوٹومو داسئے کوٹ

ناصر آباد بالا میں مسمّی عبد الشکور، معروف بہ علّامہ]مرحوم[ کے موجودہ مکانات کی جگہ پر یہ قلعہ واقع تھا۔

۶۔ لِیو کوٹ

کِنی چھینش (کالا پہاڑ) کے بالکل نیچے ایک اونچی پہاڑی، جو ناصر آباد اور خانہ آباد کے درمیان واقع ہے، پر واقع تھا۔ یہ بھی ایک قدیم قلعہ شمار ہوتا تھا۔اس قلعے کا نام لیو کوٹ اس لئے پڑا کہ جنگ کی صورت میں اس قلعے میں آگ روشن کیا جاتا تھاجس کا مطلب یہ اطلاع دیناہوتا تھا کہ مغرب کی جانب سے ایک فوج ہنزہ پر حملہ آور ہے۔اس سے پہلے مایون قلعے کے بالکل اوپر مایون اور خانہ آباد کے درمیان پہاڑی پر، جسے اب بھی ”شکاری“ کہا جاتا ہے،دشمن کی آمد کی اطلاع پا کرآگ کا الاؤ روشن کیا جاتا تھا جہاں سے لیو کوٹ میں متعیّن افراد مطلع ہوتے تھے اور وہ فوراً آگ جلاتے تھے۔ وہاں سے آگ کی روشنی ناصر آباد اور مرتضیٰ ااباد کے درمیان پہاڑی پر اور وہاں سے مرتضیٰ آباد بالامیں جماعت خانہ اور مسجد کے احاطے میں موجو فوجی چوکی تک نظر آتی تھی اور وہاں پر متعیّن افراد فی الفور آگ روشن کرتے تھے جہاں سے براہ راست ریاستی دارلحکومت بلتت ]موجودہ کریم آباد[کواطلاع مل جاتی تھی۔ پھر وہاں سے انتہائی عجلت میں ریاستی فوج کیل کانٹوں سے لیث ہو کر دشمن سے نمٹنے کے لئے کوچ کرتی تھی اور بڑی سُرعت و برق رفتاری سے پیش قدمی کرتی ہوئی ناصر آباد یا مایون پہنچتی تھی اور معرکہئ کارزار برپا ہوتا تھا۔اہالیانِ ہنزہ کی شجاعت و بہادری کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہیں۔تاہم،ریاستی فوج کے پہنچنے تک دلاورانِ شیناکی] مایون اور ہنی کے مقامی لوگ[سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر وطن کا بھر پور دفاع کرتے تھے۔

۷۔ ہُن کوٹ

ناصر آباد جماعت خانہ نمبر ۳، جسے ہن کوٹ جماعت خانہ بھی کہا جاتا ہے،کی جگہے پر ہُن کوٹ ]یعنی مشرقی قلعہ[واقع تھا۔کیونکہ شینا زبان میں ہُن کے معنی مشرقی سمت کے ہوتے ہیں اور کوٹ قلعے کو کہا جاتا ہے اور اس کے معنی ہوئے مشرقی قلعہ۔اس قلعے کے آس پاس کی جگہے سے قدیم زمانے کی کچھ اشیا بھی ملی ہیں جس سے اس گاؤں کی قدامت کا پتہ چلتا ہے۔

۸۔ کھرے کوٹ

کھرے کوٹ یعنی مغربی قلعہ بلکہ درست مفہوم میں مرکزی قلعہ، ناصر آباد کے موجودہ مرکزی جماعت خانہ کی جگہ پر واقع تھا اور بعد کے وقتوں میں بھی یہ ناصر آباد کا سب سے بڑا اور مرکزی قلعہ شمار ہوتا تھا۔

۹۔ بونیئے لاٹئے کوٹ

یہ قلعہ ناصر آباد بالاکے مغربی جانب اس جگہ پر ایستادہ تھا جہاں موجودہ دَور میں نگر، منپن سے پائپ لائن کے ذریعے ناصر آباد تک لائے جانے والے پانی کا چیمبر بنا ہے۔

۰۱۔ ایک نیا قلعہ

کہا جاتا ہے کہ محمّد شاہ ابن رحمت بیگ نے یہ نیا قلعہ بنوایا تھا۔ تاہم، روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس قلعے کا محل وقوع جنگی اور دفاعی اعتبارسے موزوں نہ تھا۔ اس لئے اسے بعد میں منہدم کیا گیا۔

۱۱۔ ناؤ کوٹ

ناصر آباد کے موجودہ مرکزی جماعت خانہ کے مشرق کی طرف جو کہ اب قبرستان ہے یہ قلعہ واقع تھا۔میر شاہ غضنفر علی خان ]متوفّی۔۵۶۸۱ء[کے دَور میں یہ قلعہ موجود تھا۔

۲۱۔ خمرو ٹوق

ہلی غس کے مشرق کی جانب ایک قلعے کے نشانات پائے جاتے تھے۔ اس جگہ کو خمرو ٹق کہاجاتا ہے۔اس قلعے کو بھی شامل کر کے ناصر آبداد ]ہنی[ کے کُل بارہ قلعے بنتے ہیں۔

مذکورہ بالا قلعوں کے متعلّق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں سے اکثر کی تعمیر رونو قوم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ اگرچہ ناصر آباد کے بارہ قدیم قلعوں کی موجودگی کے متعلّق روایت میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے اور ان کی تعداد، نام اور محل وقوع کا اوپر ذکر بھی ہوا، تاہم،بعض روایات کے مطابق اب تک ان بارہ میں سے گیارہ قلعوں کا سراغ لگایا گیا ہے اور بارہواں قلعہ اب بھی سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ جیساکہ اوپر قلعوں کی کے ناموں کی ترتیب میں تیسرے نمبر پر غوٹُمئے کوٹ کا ذکر آیا ہے، جو مرکزی جماعت خانے کے شمال کی جانب نشیبی مقام پر نمبردار علی گوہر کے گھرکے قریب واقع تھا، کے بارے میں یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہی وہ قلعہ تھا جس کی تعمیر محمّد شاہ ولد رحمت بیگ کی سربراہی میں ہوئی تھی۔اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو قلعہ نمبر ۰۱، ”ایک نیا قلعہ“ کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔تاہم،اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button