کالمز

جشنِ آمد امام مبارک

الواعظ نزار فرمان علی

’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو لیکن( اصل )نیکی یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن اور فرشتوں اور کتاب اور سب نبیوں پر ایمان لایا اور خدا کی محبت میں مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں اور (غلاموں کی)گردنیں آزاد کرانے میں دیا اور صلواۃ قائم کی اور زکواۃ ادا کی اور وہ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے والے ہیں اور تنگی اور مصیبت اور مصیبت میں اور آفت کے وقت ثابت قدم رہنے والے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے( عملاً) سچ کر دکھایا اور یہی وہ لوگ ہیں جو متقی ہیں۔‘ ‘(القرآن)

سرکارنور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام کے پہلے شاندار تاریخی دورۂ شمالی علاقہ جات اور دیدارمبارک کی فیوض و برکات کے یوم سعید پر آپ سب کو دلی مبارکباد، الحمدوللہ ہمیں ایک ہمہ گیر ، جلیل القدرہستی کو خوش آمدید کہنے اور مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا جو بذات خود اور آپ کا عالی مرتبت خاندان گزشتہ ساڑھے چودہ سو سالوں سے انسانیت بالخصوص امت کی ہمہ جہت رہنمائی و مدد ،جبکہ قیام پاکستان و استحکام وطن کے لئے بلا مشروط دستگیری اُس کے عظیم موروثی روایت کی ایک کڑی ہے۔ تاریخِ انسانی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں غیر معمولی جغرافیائی و سیاسی انقلابات رونما ہو رہے ہیں ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم پیش رفت کے باوجود ملک سمیت دنیا کے کئی ممالک میں غربت، افلاس، جہالت و پسماندگی اپنے پنجے گاڑھے ہوئی تھی، ارض پاک کو معرض وجود میں آنے کے بعد پنپنے اور نشونما پانے کابھرپور موقع نہ ملا تھا یہاں تنظیم نوع او ر اداروں کی تشکیل کا عمل آہستہ تھا ، بین الاقوامی ترقی میں سرد جنگ کی کیفیت حائل تھی ۔ اس دلخراش صورت حال میں گلگت بلتستان کے عمومی حالات کا ندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ مسند امامت کی ذمہ داریاں سنبھالے ابھی چند سال ہوئے تھے ابھی دنیا کے تشنہ لب جماعتوں کو ابر دیدار دینا باقی تھا ، حاضر امام نے ازراہِ عنایت شمالی علاقہ جات کے دورے اور یہاں کی جماعتوں سے ملاقات کے پروگرام کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے 20 تا 26 اکتوبر1960 ؁ء کا ہفتہ اپنے تفصیلی دورے سے موسوم فرما دیا یہ ہفتہ نور بھی کہلاتا ہے ،جس میں حاضر امام گلگت ، غذر اور ہنزہ تشریف لے گئے اور تقریباً 27 مقامات پر اپنی جماعت کو روحانی و عرفانی برکات سے مالا مال کر کے زندگی کو ایمانی و عرفانی حلاوتوں سے لبریز کر دیا۔

بلا شبہ دشوار گزار ، دور افتادہ اور سنگلاخ پہاڑوں میں گھرے ہوئے علاقے کے پر پیچ راستوں کو خندہ پیشانی سے طے کرتے ہوئے اہل علاقہ اور جماعتوں کی زندگیوں کے ناگفتہ بہ احوال کا بنفسِ نفیس جائزہ لینا یقیناًانسانیت اور خطے سے حقیقی محبت وہمدردی کی متحرک و انمٹ تصویر ہے۔ خدا کے فضل و مہربانی سے آپ کے روح پرور دورے کو سہل اور موثر بنانے میں حکومت پاکستان ، گلگت بلتستان کے عمائدین و عوام ، گلگت، غذر ، نگر اور ہنزہ کے راجاؤں (میر آف ہنزہ ہمرکاب تھے)کے والہانہ استقبال اور فیاضی و فراخدلی کے مخلصانہ جذبات ، نامدار جماعتی و امامتی اداروں کی قیادت اور جماعت کی محبت ، فرمانبرداری و جانثاری ، جس کی ایک شاندار مثال ہزاروں والنٹیئرز(مرد/ خواتین)کا دنیا و مافیا سے بے خبر شاندار خدمات ، اس دوران ایک رضا کارنے راستے کی مرمت کرتے ہوئے دوران جام شہادت نوش کیا۔ آج سے تقریباً56سال قبل حاضر امام نے اپنی امامت کے تیسرے سال عزمِ صمیم فرمایا کہ وہ شمال کے مختلف حصوں میں بسنے والے روحانی بچوں سے ملیں گے۔ آپ کی یہ گہری خواہش تھی کہ غربت، افلاس اور جہالت کی تپتی ہوئی آگ پر جلنے والی جماعت کے درمیان جلوہ آرا ہو کر ، انہیں صحت مند مادی و اخلاقی زندگی کے شاہراہ پر گامزن کریں گے۔

” اے لقائے تو جوابِ ہر سوال، مشکل از تو حل شود بے قیل و قال”

تاریخ شاہد ہے پانچ عشرے قبل گھمبیر معاشی و سماجی حالات میں آپ کی یہاں آمد ، طول و عرض کا مفصل دورہ، دیدار اورارشاد مبارک کی عنایات، خصوصی دعا و برکات اور درپیش مسائل جن میں بنیادی طور پر غربت، بیماری ، جہالت اور پسماندگی کے خاتمے کے لئے جی۔بی کے مفادِ عامہ پر مبنی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی کے ٹھوس، جامع، مختصر اور طویل المدت منصوبوں کا آغاز ہواجس کے دور رَس مثبت نتائج ترقی وخوشحالی کی صورت میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔

آپ کی مریدوں سے ملاقات اور دیدار پاک کے دوران دی گئی ہدایات و تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے ،

۱۔ آپ اپنے ایمان و عقیدے پر مستحکم و مضبوط رہیں۔

۲۔ اپنے دینی فرائض و عبادات میں باقاعدگی رکھیں۔

۳۔ بچوں کو بہترین دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی باقاعدگی سے دیں ۔

۴۔ بری عادتوں ، نشہ آور اشیا کے استعمال اور شراب وغیرہ سے دور رہیں۔

۵۔ آپس میں متحد رہیں اور ہر ایک کے ساتھ محبت و ہمدردی سے پیش آئیں۔

۶۔ اپنے امام کے حقیقی فرمانبردار بنیں

۷۔ حکومت کے وفاداراور ہر دم خیرخواہ رہیں۔

جہاں تک معاشرے کی ترقی میں تعلیم کا معاملہ ہے اس سلسلے میں حاضر امام ؑ نے روز اول سے لڑکوں اور لڑکیوں کو مساوی طور پر حصول علم کی اہمیت کے حوالے سے بنیادی ہدایات دی ہیں کہ اپنے آپ کو تعلیم یافتہ کرنے میں اپنا وقت (صحیح استعمال) کریں ، اپنی تعلیم ادھوری نہ چھوڑیں اسے مکمل کریں ۔ آپؑ نے خواتین کے تعلیم جاری رکھنے پر زور دیا تاکہ خاندانی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے معاشی جمود میں اپنا رول ادا کر سکیں۔ حاضر امام ؑ نے تعلیم کا حصول، مقصد اور اس کے استعمال پر روشنی ڈالتے ہیں کہ آپ تعلیم کے مقصد کو سمجھیں اس کا مقص صرف ڈگری اور ملازمت کے حصول تک محدود نہیں بلکہ یہ سیرت کی تشکیل کا ذریعہ ہے ۔ اسلام میں تعلیم کا ایک اخلاقی مقصد ہے یہ عقلی غرور پیدا کرنے کے لئے نہیں ۔(سبحان اللہ)اسلام میں بہترین تعلیم وہ ہے جو دین کے اخلاقی اصولوں کے دائرے میں حاصل کی جاتی ہے۔ آپ چاہتے ہیں تعلیم کے تصور کو خدمت کے ساتھ منسلک کریں۔اسلام کہتا ہے کہ علم کو اللہ کی تخلیق کے متعلق جاننے کے لئے استعمال کریں ۔۔۔ اس لئے اس تخلیق کی خدمت کریں۔ اسلام کے اخلاقی ضابطے میں خدمت کریں جو فیاضی، کمزوروں کی خیال داری ، حلیمی اور معافی کی تعلیم دیتا ہے۔ تعلیم کا یہ استعمال صحیح ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ تعلیم کو حقیر یا خود غرض طریقے سے استعمال نہ کریں۔ مولانا حاضر امام نے اپنے پہلے دورۂ شمال میں خاص طور پر اور اس کے بعد بھی کئی موقعوں پر مریدوں کو تلقین فرمایا کہ تمام برادریوں کے ساتھ دوریاں ختم کر کے خوشگوار تعلقات قائم کریں۔ نہ صرف شمالی علاقہ جات بلکہ پورے پاکستان میں ایک دوسرے کے مابین قومی و ملی جذبے سے لبریز امن ، ہم اہنگی اور شفقت کا رشتہ ہونا چاہئے۔معاشرے کو درپیش مسائل کو آپس میں مل کر حل کریں تاکہ مساوی معیار زندگی کا حصول آسان ہو سکے۔آپ اپنے روحانی بچوں کو ہمیشہ ہدایت دیتے ہیں کہ معاشرے کی تمام اکائیو ں کے ساتھ اچھے تعلقات کے پل قائم کریں جس کی اساس خیر سگالی ، فراخدلی، فیاضی ، خیال داری جیسے اسلامی اقدار پر ہو۔اگر وہ ان کا اظہار نہ کریں تب بھی آپ اس کے اظہار کو جاری رکھیں کیونکہ یہ ہمارے طریقے کے اقدار ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہ ہونا چاہئے۔

آپ نے اپنے پہلے دورۂ شمال میں ناپسندیدہ عادات اور منشیات کے استعمال سے سختی سے منع فرمایا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں واضح طور پر شراب، جواء اور دیگر سماجی و اخلاقی برائیوں کو شیطانی عمل قرار دیکر اس سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔یہ باہمی بغض و دشمنی کو پیدا کرنے کے ساتھ خدا کی عبادت و بندگی سے بھی غافل کرتی ہیں۔اسلام میں ہر نشہ آور شے حرام ہے ۔ نبی کریم ؐ فرماتے ہیں "تمام نشہ پیدا کرنے والی اشیاء حرام ہیں اور شراب اُم الخبائث ہے” حاضر امام نے بھی اس دوران اور دیگردرباروں میں جماعت کو پر زور طریقے سے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے کہ اس قسم کی کوئی چیز کاشت نہ کریں جس سے کوئی نشہ آور چیز بنائی جا سکے، نہ ہی وہ نشہ آور چیزوں کی تجارت کریں اور نہ ہی نشہ آور چیزوں کا استعمال کریں کیونکہ یہ نہ صرف ممنوع ہیں بلکہ یہ صحت کے لئے بھی نقصان دہ اور اس کا نقصان ناقابل علاج ہوتا ہے۔ امام نے واضح فرمایا کہ یہ ایک فرد کو برباد کرتی ہیں اس کے خاندان اور اس کے پورے معاشرے کو برباد کرتی ہیں۔

حاضر امام نے اپنے فرامین، تقاریر اور نٹرویوز میں خدمت خلق کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب امام اپنے مریدوں سے اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں زیادہ خوشی اس وقت ملتی ہے جب آپ جماعت ، امت اور انسانیت کے لئے اپنے وقت، علم اور وسائل سے فیاضانہ خدمات پیش کرتے ہیں۔اس عظیم فریضے کو انجام دینے کے لئے آپ جماعتی ، امامتی و دیگر فلاحی اداروں کو اپنی رضاکارانہ سروس پیش کریں۔ یہ خدمت صرف مال سے نہیں بلکہ اپنے وقت ، خیالات ، علم اور دانش سے بھی انجام دی جا سکتی ہیں۔آپ نے مثال دی کہ کسی مریض کے لئے ڈاکٹر کا مفت وقت یا کسی ضرورت مند کے لئے ماہر معاشیات کا مفت مشورہ اہم ہے۔لہٰذا اپنے وقت اور علم میں فیاض بنیں ۔ آپ نے ایک موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ سوال یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں خود کتنا کامیاب ہوں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم نے کامیاب ہونے کے لئے دوسروں کی کس حد تک امداد کی ہے؟اسلام میں یہی سماجی بیداری کا نظریہ ہے۔

آپ نے اپنے اس تاریخی دورے کے موقع پر اسلامیان گلگت بلتستان کے لئے سالانہ( تین) میرٹ سکالر شپس کا اعلان فرمایا ، گلگت میں ثقافت و کھیل کے فروغ کے لئے آغاخان شاہی پولو گراؤنڈ کو اسٹیڈیم بنانے کے لئے گرانٹ کا اعلان کیا ، حسن آباد ہنزہ میں بجلی گھر کے لئے بھی بڑی رقم کا اعلان فرمایا جسے اس وقت کی حکومت نے شکریے کے ساتھ بعد میں بوقت ضرورت وصول کرنے کا فیصلہ کر کے لوٹادیا۔

تاریخ کے روشن ابواب میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں پرانے ہوائی اڈے کی جگہ بنجر اور غیر آباد تھی ، دنیور سلطان آباد کی جماعت نے دیدار کی نیت سے اس مقام پر پنڈال تیار کیا تھا کیا یہ غیر معمولی معجزہ نہیں کہ جس جگہ کئی عشرے پہلے دیندار جماعت نے اپنے پیارے امام کے ساتھ چند ساعتیں گزارنے کے لئے جس گوشے کا انتخاب کیا تھا امام کے رنجہ افروز ہونے کی برکت سے اس مقام پر گلگت بلتستان کی پہلی مشہور مادر علمی KIUکی صورت میں جلوہ گر ہو گیا۔ سبحان اللہ

آپ نے رخصت ہوتے ہوئے فرمایا میں باربار آتا رہوں گا،جماعت، علاقے اور ملک کی ترقی کے منصوبوں کو بتدریج آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا او ر ملک ، ملت اور علاقے کی ترقی و خوشحالی کیلئے خصوصی دُعا وبرکات سے نوازا آمین یارب العالمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button