معیشتکالمز

کامیاب ہڑتال ناکام کوشش

کہا جاتا ہے کہ جب کہیں کسی بھی کوئی چیز متعارف کرائی جاتی ہے یا کوئی سیٹ اپ دیا جاتا ہے تو اس کے مثبت اثرات کے ساتھ منفی اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔لوگوں کے معیار زندگی میں تبدیلیاں مرتب ہونے لگتی ہیں اور انہیں حقوق بھی میسر آنے شروع ہوجاتے ہیں لیکن ملک کے عیں شمال میں واقع تمام تر سہولیات زندگی سے نابلد گلگت بلتستان میں یہ کام الٹ ہو رہاہے۔

2009 میں اندرونی خود مختاری کے نام پر کھلونا سیٹ اپ تو دیا گیا ہےمگر اس کے ثمرات 8سال گزرنے کے باؤجودتاحال عوام تک نہیں پہنچے ہیں ۔اور ساتھ ہی ضروریات زندگی سےمزیں ملک کی دیگر صوبوں کی طرح اس علاقے کو ٹیکس کی زمرے میں لانے کا فیصلہ بھی کیئے جارہے ہیں اس سلسلے میں کوششیں تو کافی پہلے سے جاری تھیں تاہم عوامی دباؤ کے باعث حکومت فیصلہ نہیں کر پارہی تھی لیکن سابق دور حکومت میں وفاقی وزیر امور کشمیر وگلگت بلتستان منظور وٹو گلگت بلتستان کے باسیوں کو ٹیکس میں جکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔اس وقت وفاقی وزیر کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں دیگر اہم فیصلے کیے گئے وہیں گلگت بلتستان میں کاربوریٹ ٹیکس لگانے کا بھی اصولی فیصلہ کر لیا گیا اور یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ گلگت بلتستان میں ٹیکس ڈائریکٹریٹ قائم کیا جائے گا اور ٹیکس جمع کرنے کا اختیار گلگت بلتستان صوبائی حکومت کو حاصل ہوگا۔

اس اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ سیدمھدی شاہ کے علاوہ گلگت بلتستان کونسل کے ممبر وفاقی وزیر آفتاب شعبان میرانی اور عثمان ترکی نے بھی شرکت کی۔جس میں کارپوریٹ ٹیکس کے نفاذ پر اتفاق کیا گیا ۔تاہم انکم ٹیکس کے حوالے سے اتفاق نہیں ہو سکا یہی گلگت بلتستان میں ٹیکس لاگو کرنے اور اس خطے کے باسیوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی ابتداء ہوئی۔اس حوالے سےاس وقت کے وزیر قانوںنے کہاکہ اس ود ہولڈنگ ٹیکسز سے صرف تاجر برادری کو نقصان ہے تو یہ احمقانہ بات ہوگی تاجر برادری، اور دیگر کاروبار کرنے والوں کیلے اس ٹیکس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا اگر ان کے زد میں جو بلواسطہ یا بلاواسطہ پس جائیگا وہ غریب عوام ہے، تاجر برادری مختلف طریقوں سے اپنا حساب کتاب برابر کر سکتا ہے اگر ان کے پیسوں سے ٹیکس کٹ جائے تو وہ اپنی چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر اسی حساب سے عوام کو چونہ لگا دیں گے اسی طرح پرائیوٹ سکول والوں کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آئے تو وہ فیسوں میں اضافہ کرکے اپنا خسارہ پورہ کرسکتے ہیں ہر کوئی کاروبار کرنے والے کسی نہ کسی طریقے سے نقصان کو پورا کرلیتے ہیں لیکن بیچارہ عوام جن کا کوئی یارو مدد گار نہیں اور وہ اپنا خسارہ پورا کہاں سے کریں گے روز بروز ویسے بھی اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسماں سے باتیں کر رہی ہیں ایسے میں اوپر سے ٹیکسز کا نفاذ ان کو مزید دلدل کی طرف دھکیلیں گے ان ساری باتوں اور حالات کو مد نظر رکھ کر عوام نے یہ ضروری سمجھا کہ اگر اب بھی خاموش رہیں تو نہ صرف نقصاں اٹھانے ہوں گے بلکہ آنےوالا نسل ہمیں بد دعایئں دیں گے۔

انہی حالات کے پیش و نظر انجمن تاجران گلگت بلتستان اور عوامی ایکشن پارٹی کی کال پر پورے گلگت بلتستان میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئ اور اس ہڑتال کو کامیاب بنانے میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے اظہار یکجہتی کی یہاں تک کہ اس وقت بلتستان ریجں میں سرکاری سکولوں سمیت نجی سکولوں میں سالانہ امتحانات شروع ہو گئیے ہیں لیکن علاقائی مفاد اور غریبوں پر ہونے والے ظلم و نانصافی کے باعث بلتستان میں نجی سکولزبند رکھنے کا فیصلہ کیا اس سلسلے میں پرائیوٹ سکول نیٹ ورک نے سکولوں میں جاری امتحانات ملتوی کردی اور مکمل طور پر تدریس کانظام مفلوج ہوکر رہ گیا اس اقدام سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علم کے حصول اور علم کی شمعیں روشن کرانے کیلے دن رات بےتاب رہنے والوں کا یہ رویہ آخر تنگ آمد جنگ آمد والی مصداق ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو کبھی بھی نجی سکولوں کے انتظامیہ سکولوں کو تالہ نہیں لگاتے تھے۔

انہوں ہے ایک دن کی تعلیم کوگلگت بلتستان کے مظلوم عوام پر قربان کر دی نجی سکولوں کے بندش سے سکردو می تقریباً تیس ہزار سے زائد طلباء سکول نہیں جاپائے اور ایک دن کی تعلیم کو خیرباد کرنا پڑا ۔

گلگت بلتستان میں انجمن تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر پورے بلتستان میں سڑکیں سنسان اور مارکیٹیں ویراں ہوگیں جس دکان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو لوہے کے شٹر اور تالہ ہی تالہ نظر آرہے تھے یعنی مکمل طور پر کاروباری زندگی مفلوج ہوکر رہ گیئے تھے۔ایسے میں ہڑتال کو ناکام بنانے اور تاجروں کو بیوقوف بنانے کیلے حکومتی نمائندوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے پیر سے ودہولڈنگ ٹیکس نہ کاٹنے کا اعلان کیا مگر سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرے والی مصداق ہوگئی اور تاجروں نے ان کے بات پر یقین کرنے کو احمق سمجھ کر اپنا لائحہ عمل پر ڈٹےرہے۔

اس شٹر ڈاؤن ہڑتال کے باعث گلگت بلتستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک دن میں 94کروڑ سے زائد کا معاشی نقصان ہوا ہے اگر یہ سلسلہ یعنی تاجروں کے فیصلہ کے مطابق ٹیکس معطلی کا نوٹفکیشن ہونے تک رہے تو گلگت بلتستان کی معیشیت بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے پھر بھی اس بار بار خسارے کا سودا سے بہتر ایک بار ہونے والا خسارہ برداشت کرنے کو تیار ہیں یہاں تک عوام نے بھی صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انجمن تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور انہیں اپنی حمایت کا مکمل یقیں دلارہے ہیں۔

ایسے میں حکومتی نمائندوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ گلگت بلتستان کے باسیوں نے آپ کو جو منڈیٹ دیکر ایوانوں میں اپنی حقوق کی جنگ لڑنے اور پاسداری کیلے بھیجے ہیں آپ کو انکے تحفظات کی احترام کرتے ہوئے بھر پور انداز میں وفاقی حکومت کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے ہوں گے اور انہیں کہنا ہوگا کہ جس خطے کے باسیوں پر آپ ٹیکسز کی صورت میں ایٹم بم گرا رہے ہیں یہ اس خطے کے عوام سے زیادتی ہے اور آپ کی اس رویہ اور اقدام سے پورا گلگت بلتستان میں اس وقت سکوت طاری ہے اور گلگت بلتستان کی معیشیت تباہ ہورہی ہے

ور آپ کی اس رویہ اور اقدام سے پورا گلگت بلتستان میں اس وقت سکوت طاری ہے اور گلگت بلتستان کی معیشیت تباہ ہورہی ہے ایسےمیں عجلت سےکام لیتے ہوئے یہاں لاکو کردہ ٹیکسز کو روکنا اور نوٹفکیشن جلد جاری کرنا ہو گا خدا نخوا ستہ ایسا نہیں ہوا تو خطے میں مزید محرومیاں پید اہونے کا خدشہ دیکھا دیتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button