عوامی مسائل

ضلعی انتظامیہ اور واپڈا حقیقی متاثرین ڈیم کے جائز اور قانونی مطالبے کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں، احتجاجی مظاہرے سے مقررین کا خطاب

چلاس(بیورورپورٹ) قدیم باشندگان چلاس وحقیقی متاثرین ڈیم نے مطالبات کے حق میں ایکبار پھر ائر پورٹ کے احاطے میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔احتجاج میں ٹاؤن ایریا کے ہزاروں متاثرین دیامر بھاشا ڈیم شریک تھے ۔

احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے راہنماؤں مولانا عبدالباری،حبیب الرحمان و دیگر نے کہا کہ صوبائی حکومت،ضلعی انتظامیہ اور واپڈا حقیقی متاثرین ڈیم کے جائز اور قانونی مطالبے کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔علاقے میں موجود بنجر اراضیات اور چراگاہیں جوکہ 1978کے ناتوڑ رولز کے مطابق خالصہ سرکار ہیں۔جسے سرکار نے متاثرین ڈیم کے مطالبے پر عوام کو ایک مالیاتی پیکیج کے طور پر دیا ہے۔چلاس میں حقیقی متاثرین کی تعداد 75فیصد ہے جومکمل طور پر ڈیم سے متاثر اور بے گھر ہو رہے ہیں۔انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ پچہتر فیصد حقیقی متاثرین کو اس پیکیج کے ثمرات سے نوازا جائے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مبینہ رشوت کی بنیاد پر اس پیکیج سے صرف ایک مخصوص قبیلے کو نوازا جا رہا ہے۔اس بندر بانٹ کے خلاف متعدد بار احتجاج بھی کیا گیا اور حکام کو تحریری مطالبات کے ذریعے بھی آگاہ کیا گیا مگر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔اور نہ ہی حقیقی متاثرین کو مطمئن کیا گیا ہے۔جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ انتظامیہ اور واپڈا مخصوص قبیلے کے ہاتھوں یر غمال ہے۔اور حقیقی متاثرین کو دیوار سے لگا کر ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اہم منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا انتہائی افسوسناک امر ہے۔جس کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان بنجر اراضیات اور چراگاہوں میں حقیقی متاثرین ڈیم کو آبادی کے تناسب سے حصہ دار بناکرمعاوضہ فراہم کرے۔ہرپن داس میں تعمیرات پر قرقی کے علاوہ عدالت کی جانب سے حکم امتناع بھی جاری کر دیا گیا ہے۔لیکن انتظامیہ کے ناک کے نیچے دن دیہاڑے تعمیرات جاری ہیں۔ضلعی انتظامیہ کو متعدد بار آگاہ بھی کر دیا گیا مگر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔فوری طور پر تعمیرات کو مسمار کیا جائے اور مزید تعمیرات پر پابندی عائد کی جائے۔عدالتی احکامات سٹے کے باوجود چراگاہوں کی خفیہ سروے اور اسسمنٹ کی جارہی ہے۔جو ایک مخصوص قبیلے کونوازنے کی ایک سازش ہے۔چراگاہیں چلاس میں بسنے والے تمام افراد کی مشترکہ ملکیت ہیں۔جن کے تاریخی ثبوت بھی موجود ہیں۔چراگاہوں کی پیمائش یا سروے رکوا یا جائے۔اور جوڈیشل ایوارڈ بھی نہ بنایا جائے۔کے کے ایچ اور پائین گاؤں کے عوام کی آبائی موروثی جائیداد پر چند لوگوں نے بے بنیاد اور جھوٹے اور غیر قانونی ملکیتی کیسز دائر کئے ہیں۔اور انکے معاوضوں کی رقوم رکوائی ہیں۔جو انکی موروثی جائیداد پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔کیسز کی وجہ سے متاثرین ذہنی کوفت کا شکار ہیں۔فوری طور پر انکے معاوضوں کو ادا کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ری الائمنٹ کے کے ایچ تکیہ محلے سے گزرنے کی اطلاعات ہیں۔اس حوالے سے تکیہ محلہ اور مضافاتی آبادی کو قبل از وقت آگاہ کیا جائے اور انکو اعتماد میں لیا جائے۔سپریم اپیلیٹ کورٹ میں ہرپن داس سے متعلق مقدمے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت اس فیصلے کو منظر عام پر لانے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ لہٰذا سپریم اپیلیٹ کورٹ کے محفوظ شدہ فیصلے کو صادر کیا جائے۔تاکہ حقیقی متاثرین کی بے چینی ختم ہو۔حکومت اور انتظامیہ چار نومبر تک متاثرین کے مطالبات پر عملدرآمد یقینی بنائے ۔بصورت دیگر انتہائی اقدام پر مجبور ہونگے۔جس کی تمام تر ذمہ داری حکام پر عائد ہوگی۔احتجاجی مظاہرین کی تائید و حمایت سے قرار داد بھی پاس کی گئی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button