کالمز

مردِ بصیرت

ازقلم الواعظ نزا ر فرمان علی

’’ (اے رسول !)پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔ اُس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ۔ پڑھ اور تیرا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی ۔ اُس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جووہ نہ جانتا تھا‘‘۔ (القرآن )

سر سلطان محمد شاہ آغاخان ثالث 2 نومبر 1877 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 17 اگست 1885 ء کو سات سال نو ماہ سولہ دن کی عمر میں مسند امامت پر جلوہ افروز ہوئے ۔ آپ نے 72 سال تک یعنی چودہ سو سالہ شیعہ امامی اسماعیلی مسلم سلسلہ ء امامت میں طویل ترین عرصے تخت امامت پر جلوہ افروز رہنے کے بعد 11 جولائی1957ء کو اس فانی دنیا سے رحلت فرمائی، اُس وقت آپ کی عمر 79 سال آٹھ ماہ دس دن تھی۔ حضرت آقا سلطان محمد شاہ آغاخان کادورِ امامت جماعت ،اُ مت اور عالم انسانیت کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔آپ نے بحیثیت روحانی پیشوا اور عظیم مسلم لیڈر برصغیر پاک و ہندکے عوام اور اُمت مسلمہ کودر پیش چیلنجزکو حل کرنے میں اپنا بہترین کردار ادا کیا،انھیں زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھانے اُس دور کے نہایت گمبیر مسائل سیاسی غلامی، غربت بھوک افلاس امراض اور علمی مفلسی کے خاتمے اور معاشرتی برائیوں سے چھٹکارے کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔ تاریخ عالم کے معتبر مورخین اور چوٹی کے دانشوروں اور اہم لیڈروں نے آپ کی دنیا، امت اور قیام پاکستا ن کے لئے کارنامہء زرین کی روشنی میں بیسویں صدی کا اہم ترین عالمی شخصیت قرار دیا ہے۔

سر آغا خا ن سوئم مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے میں برصغیر کے ممتاز رہنماؤں میں نمایاں رہے،آپ مسلم لیگ کے بانی صدر کی حیثیت سے 1906سے تقریباً 1913تک بے لوث خدمات سرانجام دیتے رہے۔آپ اتحاد امت کے عظیم داعی تھے ،مسلمانوں کواپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر آئندہ نسلوں کی خوشحالی بلخصوص قیام پاکستان کیلئے ٹھوس لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تن ،من ،دھن کوشاں رہے۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد عربی کو قومی زبان کے طور پر اپنانے پر بہت زور دیا۔سر آغا خان سوئم 1937ء کو لیگ آف نیشنز (اقوام متحدہ)کا صدر منتخب کیا گیا اس ادارے کے ذمے دنیا بھر کے مملکتوں کے مابین امن وہم آہنگی قائم کرنا تھا چونکہ عالمی ادارے میں زیادہ تر بااثر رکن ممالک کی نمائندگی تھی چنانچہ آپ نے بحیثیت صدر کئی مسلم ممالک کو نمائندگی دلانے کیلئے پرزور تک ودو کی۔خصوصاً مصر و افغانستان کی ممبر شپ کیلئے مثالی کردار ادا کیا۔آپ نے عالمی برادری کو امن عالم کے حوالے سے بے جا فوجی طاقت بڑھانے اور وسیع پیمانے پر جنگی ساز وسامان بنانے کی حوصلہ شکنی فرمائی اور زور دیتے تھے کہ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں ان کو صلح وخیر خواہی کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہئے ۔آپ نے بطورسربراہِ بین الاقوامی تنظیم دوسری جنگ عظیم روکنے کیلئے جہاں یورپی ممالک کے دورے کئے وہیں ہٹلر سے ملاقات کر کے اسے اس حرکت سے روکنے کی بھرپور کوشش کی مگرتوقعات کے برعکس جنگ چھڑنے کے ساتھ ہی لیگ آف نیشنز منتشرہوگئی۔بحیثیت عظیم انسانی فلاح کار اقوام عالم کی بلا تفریق رنگ ،نسل ومذہب ،خیر اندیشی و مدد کرتے تھے اس حوالے سے تعلیم،صحت اور سماجی خوشحالی کے میدانوں میں آپ کے جدوجہد تاریخ کا سنہرا باب ہے،مثلاً ہندوؤں کی بنارس یونیورسٹی کی مالی اعانت کا معاملہ ہو یا ایران کے زرتشتی کمیونٹی کے تعلیمی مسائل حل کرنے کیلئے سکولوں کے قیام کی کاوشیں ،افریقہ کے عیسائیوں کے معاشرتی بہبودکے امور ہوں یا ایران،عراق اور شام کے مسلمانوں کے معاشی حالات سنوارنے کے منصوبے جس میں مساجد کی تعمیر اور قرآن و سیرت نبویؐ پر کتابوں کی اشاعت اور علوم اسلامی کے فروغ میں بھرپور معاونت فرمائی۔مشرقی افریقہ کے پرتگیزی علاقے میں جہاں 70فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی جو نسلاً افریقی تھے سر آغا خان نے ان کی سماجی ترقی کیلئے تعلیمی و صحت عامہ کے ادارے قائم کئے اور ہمیشہ دست تعاون جاری رکھا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران ترکی پر یورپی اتحادیوں کی طرف سے ظلم اور تھریس کے علاقے پر یونانیوں کے قبضے اور ترکی کے پایہ تخت استنبول کی طرف بڑھنے کی ہدایت پر برطانوی وزیر اعظم کو جلالی انداز میں خبردار کیا ۔’’مسٹر پرائم منسٹر یونانیوں کو ہم پر چھوڑ دو حالانکہ میں ضعیف ہوگیا ہوں مگر ہم تلوار لے کر جائیں گے اور یونانیوں کو نکال دیں گے اور ہم اپنے جہازوں کا انتظام خود کریں گے۔‘‘

سر آغاخان نے1945میں مسلم ویلفیئر سوسائٹی برائے افریقہ قائم کیا جس کے تحت تنزانیہ ،یوگنڈا،کینیا اور جنوبی افریقہ میں تبلیغ دین ،مدارس ومساجد کی تعمیر اور جہالت و افلاس کے خاتمے کیلئے بھی مالی امداد دیتے رہے۔سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے انگلستان کے مسلمانوں کے مذہبی وتمدنی تشخص کی مضبوطی کیلئے دینی مدارس و مساجد کی تعمیر اور رہائشی مسائل کے حل خاص طور پر مسلم قبرستان کیلئے زمین دلوائی ،اسلامی علوم و معارف کی نشر واشاعت کے مد میں فنڈز فراہم کئے۔سرسلطان محمد شاہ آغاخان کے جشن امامت کی جوبلیوں یعنی سلور، گولڈن اور پلاٹینیم جوبلیوں میں شریک دنیا کی جماعتوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے نذرانوں سے حاصل ہونے والی رقوم کو انسانیت و امت کی معاشی و سماجی ترقی کیلئے مختص کیا گیا۔ آپ نے شمعِ علم سے انسانی اذہان کو منور کرنے کیلئے ایشیاء اور افریقہ میں 200سے زائد آغاخان سکولز اور حفظان صحت کے معیار کو قائم رکھنے کیلئے سینکڑوں ہیلتھ سنٹرز قائم کئے۔

آپ نے ہمیشہ بچوں کی صحت، تعلیم اور اخلاقی نشو ونما پر زیادہ توجہ دینے کی تلقین فرماتے اور حصول علم پر انتہائی زور دیتے ہوئے فرمایا اپنے بچوں کو تعلیم دو ، تعلیم د و ، تعلیم دو ۔ سنتِ نبوی ؐ کے مطابق حصول علم کو لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے یکساں طور پر ضروری قرار دیا ہے آپ نے سنت کی روشن مثال کی یاد دہانی کرا ئی کہ’’ اگر کسی کے ہاں ایک بیٹا اور بیٹی ہو اور وہ صرف ایک کو پڑھانے کی سکت رکھتے ہوں تو انہیں اپنی بیٹی کی تعلیم کو ترجیح دینا چاہیے تاکہ خاندان، کو نسلوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ جبلیوں میں مریدوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے نذانوں کا بڑا حصہ مفاد عامہ کے منصوبوں پر استعمال کیا گیا۔ بلخصوص سیکنڈری سکول ، بہبودی اطفال ، ہیلتھ سینٹرز اور نرسنگ ہوم کے قیام پر صرف کیا گیا ۔ممتاز محققین کے مطابق ملک بھر میں بلخصوص گلگت بلتستان میں تعلیمی تحریک کی اساس حضرت سلطان محمد شاہ سوئم نے بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آغاز میں رکھوائی تھی ۔ جب 1923ء میںآپ نے پیر سبز علی کو اپنا نمائندہ خصوصی بنا کر شمالی پاکستان کے دورے پر بھیجا تو اُس وقت آپ کے فرمان کے مطابق مذہبی اداروں کی تاسیس کے ساتھ جگہ جگہ سکول کھلوائیں تھے۔ جن سے ناگزیر وجوہات کی بناء پر مستعفید نہیں ہوسکے۔ آپ نے اپنے آل انڈیا ریڈیو پیغام میں تعلیم کی اشاعت کے ساتھ انگریزی زبان اور یورپی زبان سیکھنے پر زور دیا۔ پھر آپ نے 1946ء میں شمالی علاقہ جات کے طول و عرض میں ڈی جے سکولز کا قیام عمل میں لایااور اُس زمانے میں مبلغ بارہ ہزار روپے کی خطیر رقم فراہم کی گئی چنانچہ اُس تعلیمی تحریک کے نتیجے میں عرض شمال کے گوشے گوشے میں علم کی روشنی پھیل گئی ۔ بلاشبہ یہاں کی مجموعی زندگی اور روشن مستقبل پر دو رس نتائج مرتب ہوئے ۔

برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی و تمدنی عروج کی اساس یعنی سرسید احمد خان کے تعلیمی مشن علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی بنانے میں سرآغاخان کا کردار ناقابل فراموش ہے اس علمی جہاد میں نہ صرف اپنی جیب سے لاکھوں روپے پیش کئے بلکہ مذکورہ تعلیمی منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہندوستان کے شہر شہر ، گاؤں اور گھر جاکر دستِ مبارک پھیلاکر چندہ جمع کیا ۔یونیورسٹی کی تعمیر و تکمیل میں آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انتظامیہ کی درخواست پر مسلسل اٹھارہ برس تک پرووائس چانسلر رہے۔ تاریخ کا وہ مشہور واقعہ جب مسلم زعماء اکابرین ، دانشوروں اور ایک جمِ غفیر کے سامنے علامہ شبلی نعمانی نے آپ کی شان میں ایک خوبصورت نظم پیش کیا جس کا ایک مصرعہ یوں ہے ۔ترجمہ”اگر چہ جمہورمسلک کے عقیدے کے لحاظ سے سر آغا خان خدا نہیں ہیں لیکن وہ مسلمانِ عالم کی کشتی کے ناخدا ضرور ہیں”۔

حضرت سلطان محمد شاہ آغاخان نے جہاں افراد ملت اور اقوام عالم کو زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی اور ہدایات دیں وہاں اُنھیں کامیاب /خوشگوار زندگی گزارنے کا ایک بنیادی فلسفہ بھی عنایت کیا ۔ یہ وہ فلسفہ انبساط تھا جو آپ کی دینی و دنیاوی زندگی میں روز روشن کی طرح عیاں تھا ۔جسے آپ دوسروں میں بھی دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ زندگی کی حقیقت اور اس کا مقصد اعلیٰ کیا ہے ؟ اور اس انمول تحفے کو خدا کی رضااور خوشنودی کے مطابق گزارنے کے لامحدود مادی و روحانی فیوض و برکات پر بصیر ت افروزخیالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کی تقاریر، انٹر ویوز، ارشادات ،پیغامات اور تحریرروں(اسکا بڑا ماخذ دی میمائرس آف آغا خان ) میں اس تصور کو روح اسلام کے مطابق بیان فرمایا ہے ۔میں اپنے مضمون کا اختتام سر سلطان محمد شاہ کے فلسفہ خوشی سے متعلق چند اقتباسات سے کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں ’’ زندگی ایک عظیم اور شریف مشغلہ ہے وہ کوئی ذلیل اور نیچی چیز نہیں ہے ۔ جس کو جہاں تک ہوسکے مشکل کے ساتھ گھسیٹا جائے۔ بلکہ وہ ایک بلند اور عزت کے ساتھ مقرر کی ہوئی چیز ہے ‘‘۔ ۔۔’’آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی میں آپ کے لئے بہت ساری مایوسیاں ہونگی اگر کسی کی اُمیدوں کا پانچواں حصہ بھی حقیقت بن جائے تو وہ انتہائی خوش قسمت ہے اسلئے مایوسیوں سے حوصلہ شکن مت ہوجائیں، ناکامیوں کو فراموش کردیں اور نئے سرے سے کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ ۔۔’’ مجھے اُن لوگوں سے جو خود کو دنیاوی لحاظ سے بد قسمت سمجھتے ہیں ہے ایک بات کہنی ہے میں اِن سے کہونگا کہ آپ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر افسوس مت کریں کہ آپ اتنے خوشحال نہیں جتنے آپ سے اوپر والے ہیں،نیچے والوں کو دیکھے اور خود کو مبارک با د دیں ، کیا آپ ان سے بہتر زندگی گزاررہے ہیں(مثبت سوچ رکھنے والوں کے لئے )دنیا ایک حیرت انگریز باغیچہ ہے خدا کا باغیچہ ‘‘۔ ۔۔ ’’زندگی کے معنی جدو جہد کے ہیں شکست یا فتح خدا وند تعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے لیکن جدو جہد انسا ن کا فرض ہے اور یہ اُس کے لئے باعث مسرت بھی ہونا چاہیے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عظیم اسلاف کے افکارو تعلیمات کی روشنی میں آگے بڑھنے اور ملک و ملت کا نام روشن کرنے کی اعلیٰ ہمت و توفیق عطا فرمائیں۔ آمین، اللہ نگہبان۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button