کالمز

اسلام کے اصول معاشیات، سیرت رسولﷺ کی روشنی میں

مقالہ نگار: امیر جان حقانی 

انسانی دنیا میں واحد رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے جو ہر پہلو سے کامل و اکمل ہے۔اور جو دین آپ ﷺ پر نازل کیا گیا وہ بھی کامل واکمل ہے۔ پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو بہترین نظامِ زندگی آسمان اور زمین کے درمیان ہمیشہ   کے لیے جو ہوسکتا تھا وہ آپ ﷺ اور قرآن کے ذریعے اللہ نے عطا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوری زندگی انسانیت کو پستی سے نکال کر بلندیوں تک پہنچانے کا جو بہترین فریضہ انجام دیا اس کی کوئی نظیر ملنی مشکل ہے۔

آپ ﷺ کی مثالی طرز زندگی  اور کمال طرز حکمرانی نے خطہ یثرب کو دنیا کی سب سے بہترین فلاحی ریاست میں بدل کر رکھ دیا۔امت مسلمہ پر لازم ہے کہ اس اولین اسلامی فلاحی ریاست کے تمام پہلوں کو ہمہ وقت سامنے رکھےتاکہ ان مشکل ترین حالات میں ہم اْسوہٴ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔

آج ہم اگر قومی و بین الاقوامی سطح پر معاشی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں  استحصالی نظام نظر آتا ہے، خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ طرزِ عمل وہ بنیادی ناسور ہے جو عظیم اسلامی اقدر کی تخلیق ،ارتقاء اور استحکام کے لیے رکاوٹ ہے۔ جب انسانی طرزِ عمل اور زندگی میں  حرص، لالچ، بخل و کینہ،بغض و عداوت، خود غرضی اور مفاد پرستی او ر ان جیسے پہلووں غالب ہو جائیں توفلاح الناس کی خاطر سول سوسائٹی اور معاشرے سے انفاق فی سبیل اللہ، نفع بخشی اور دوسری عظیم اقدار مفقود ہوجاتی ہیں۔لازمی طور پر اس کے نتیجے میں ارتکاز دولت کا رجحان بڑھ جاتا ہے، عام آدمی معاشی کسمپرسی کا شکار ہوجاتا ہے۔نتیجے کے طورپوری معاشرت میں زندگی عدم توازن  کا شکار ہوجاتی ہے اور ایسے میں خونی انقلاب بھی برپا ہوتے ہیں۔

ہم نے رسول اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میں صرف معاشی انقلاب اور پہلوؤں پرگفتگو کرنی ہے جو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔اور لازمی بھی ہیں۔

اسلام کا اقتصادی و معاشی نظام ہمہ گیر ہے۔  اس میں بہت ساری تفصیلات ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی معیشت کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان میں درجہ ذیل امور و پہلووں بہت اہم ہیں۔ معشیت اسلامی کا تصوراتی پہلو، معیشت و معاشرت کا باہمی تعلق، فلاحی معیشت کا قیام، اخلاق حسنہ اور معیشت کا باہمی تعلق اور معیشت و ریاست کا تعلق، پھر ملکیت و عدم ملکیت، جائز نفع خوری، ارتکاز دولت، مفادعامہ اور ان جیسے کئی پہلووں ہیں جن کا سیرت رسول کی روشنی میں تفصیلی  مطالعہ و تذکرہ کیا جاسکتا ہے ۔تاہم تنگی داماں کی وجہ سے ان تمام پہلووں پر مدلل اجمالی روشنی ڈالی جائی گے ۔

کوئی بھی نظام زندگی کا وجود اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک اس کے پس منظر میں کوئی واضح نظریہ،تصوراورضابطہ موجود نہ ہو۔ اسلام کا معاشی نظام بھی ان بنيادی نظریات و تصورات اور تعلیمات پر مبنی ہے جو قرآن و سنت سے میسر آتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

نےاسلامی معاشی نظام کے بنیادی تصورات  اور تعلیمات عطا فرمائیں  جو ہر دور کے لیے رہنماء اصول کا درجہ رکھتی ہیں۔اور ان کو آسانی سے نافذ العمل کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر

(1) معاشی سرگرمیوں کی اَہمیت کا اِدراک

 نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں معاشی سرگرمیوں کی اہمیت واضح نظر آتی ہے۔آپ ﷺ نے احسن طریقے سے نفع مند مال کمانے کی تعریف فرمائی ہے۔

بخاری شریف میں روایت ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :

”وہ مال کتنا ہی اچھا ہے جو کسی نیک و پارسا انسان کے پاس ہو۔” (بخاری ، الأدب المفرد : 112، رقم : 299)

اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ قِيَاماً.(النساء، 4 : 5)

”اور احمقوں کو تم اپنا (يا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنايا ہے۔”

اس حدیث مبارکہ اور آیت کریمہ سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ انسانی حیات کی استواری میں مال و دولت بنیادی معاون و مددگار ہوتے ہیں۔

(2)  مسئلہ معاش اور نیکی و بدی

آپ ﷺ نے مسئلہ معاش کو براہ راست انسانی زندگی میں  نیکی اور بدی کا ایک فیصلہ کن عامل قرار دیا ہے۔امام  بیہقی نے یہ حدیث نقل کی ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :

”ممکن ہے غربت و افلاس (کا رد عمل) کفر کی حد تک پہنچ جائے۔” ( بیہقی، شعب الإیمان، مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض ، 9 : 12 ، رقم : 6188)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کے اعتدال کو بھی معتدل معاشی سرگرمیوں سے مشروط قرار ديا ۔ارشاد نبوی ﷺ ہے۔

"خرچ میں اعتدال آدھی معیشت ہے۔” (. بیہقی، شعب الإیمان، مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض، 2003 م ، 8: 503، رقم : 6148)

 (3)  کسبِ معاش کی پابندی کا تصور

آپ ﷺ کے دیے ہوئے تصور معیشت میں ہر شخص کو اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق فکر معاش اور کسب معاش کرنا لازم ہے۔غفلت اور سستی کی اجازت قطعا نہیں ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رزق حلال کے حصول کو فرض قرار ديا ہے۔سنن الکبریٰ میں ہے۔

”رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔”  ( بیہقی، السنن الکبری، 6 : 211 ، رقم : 11695)

اسی طرح  سنن ابن ماجہ میں ہے۔

”بے شک سب سے پاکیزہ (رزق ) جو تم کھاتے ہو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے”۔ (ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب ما للرجل من مال، 2 : 768، رقم : 2290)

ایک اور حدیث امام ابن حنبل نے نقل کی ہے۔

”حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ تم اپنی روزی کو زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو۔”( أحمد بن حنبل، فضائل الصحابہ، 1 : 313، رقم : 431)

آپ ﷺ کے ارشاد پر غور کیا جائے کہ زمین کے پوشیدہ خزانوں میں رزق تلاش کیا جائے ۔ تو غور کیا جائے کہ اللہ نے مملکت پاکستان میں کتنے پوشیدہ خزانے چھپارکھے ہیں۔ ان تمام خزانوں سے ہمارا رزوق وابستہ ہے۔

اسی طرح ہاتھ کی کمائی

اگر معاشرے کے افراد محنت کرنا چھوڑ دیں توایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں افراد، معاشرہ کی تخلیقی سرگرمیوں کے بجائے عضو معطل بن جائیں گے ۔ سو ایسے افراد کو اسلامی معاشرہ قطعاً گوارا نہیں کرتا۔

(4)  تجارت کی اہمیت

اسلام میں تجارت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ امین اور صادق تاجروں کے لیے آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔

سنن ترمذی میں  ہے۔

 ”سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔” (ترمذی، السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار، 3 : 515، رقم : 1209)

 (5)  کسبِ معاش کے بغیر انفاق فی سبیل اللہ ممکن نہیں

قرآن کریم میں غریبوں لاچاروں اور مستحقین پر خرچ کرنے کا حکم ہے اسی کو انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔

 انفاق فی سبيل اللہ کی یہ فضیلت اور مقام تب ہی میسر آئے گا جب افراد معاشرہ حتی المقدور اپنی تمام تر توانائیوں کو حصولِ رزقِ حلال کے لئے بروئے کار لائیں گے۔

’’کسب معیشت‘‘ اور ‘‘ابتغاء رزق ‘‘کی اہمیت کو قرآن حکیم نے جا بجا بيان کيا ہے :

”فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ”(الجمعۃ، 62 : 10)

”پھر جب نماز ادا ہو جائے تو زمین میں پھیل ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق حلال) تلاش کرنے لگو۔”

اسی طرح ارشاد باری ہے۔

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی” (النجم، 53 : 39)

‘‘اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی۔’’

(6)  مزدور کا خیال رکھنا

آج دنیا کا  بڑا مسئلہ مزدور بنا ہوا ہے۔انسانی دنیا میں بڑی تفریق مزدور کے حقوق کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ایک طبقہ مزدو کو کلی حاکمیت دیتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ برابر مزدور کا استحصال کرتا ہے۔ تاہم اسلام میں بہت واضح احکام ہیں۔امام طبرانی نے ایک حدیث نقل کی ہے۔ علامہ ناصر البانی نے اس سے صحیح قراردیا ہے۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔

”مزدور کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔”   ( طبرانی، المعجم الصغیر، 1 : 43، رقم : 34)

یہی ہے مزدور کے ساتھ دلی اور واقعی ہمدردی۔

 (7) مفادِعامہ کو اِنفرادی مفادات پر ترجیح

سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ نے عامۃ الناس کے مفاد کو ذاتی و انفرادی مفاد پر ترجیح دی ہے۔تاہم ذاتی حق و ملکیت کی کبھی نفی نہیں کی۔قرآن حکیم نے جہاں جہاں بھی انفاق فی سبيل اللہ کی ترغیب دی ہے وہاں افراد معاشرہ کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ ترغیب دی گئی ہے :

قرآن کریم میں ہے۔

"وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ”(الذاريات، 51 : 19)”اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا”

اسلام نے انفرادی حق و مفاد کو تسلیم کيا تاہم کسی فرد یا جماعت کو اسلامی ریاست میں یہ حق نہیں دیا جاتا کہ وہ  ایسے معاشی مفاد کے حقوق کا مالک بنے  جو عامۃ الناس کے مفاد کے خلاف ہو۔ضرورت پڑنے پر خودرسول ﷺ نےاجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیا ہے۔اسلامی معیشت کے اس زریں اصول کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے۔چنانچہ ابواود میں ہے۔

”حضرت ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مآرب میں نمک کی جو جھیل تھی اس کو عطیہ کے طور پر مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ ایک شخص نے یہ دیکھ کر عرض کيا

 يا رسول اللہ! آپ نے نمک کا ہمیشہ جاری رہنے والا خزانہ کیوں اس کے حوالے کر ديا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  اس کی اصل حقیقت سے آگاہی کے بعد واپس لے ليا اور دینے سے انکار فرما ديا۔”

( أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب في إقطاع الأرضین، 3 : 174، رقم : 3064)

حدیث مبارکہ سے یہ اصول وضع ہوتا ہے کہ مفادعامہ کے معاملے میں اسلام کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرتا۔آپ ﷺ نے کئی مقامات پر مفادعامہ کو ذاتی و مخصوص جماعت کے افراد پر ترجیح دیا ہے۔

(8)  اِرتکازِ دولت کی مذمت وممانعت

رسول اکرمﷺ کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ارتکاز دولت کی ہر شکل کی مذمت اپنے قول وفعل دونوں سے فرمائی ہے۔اپنی آسائشوں  اور تسکین کےلیے مستحقین اور معاشرہ و ریاست کے مفلوک الحال لوگوں کی ضروریات کو مدنظر نہ کرکے دولت جمع کرنا ارتکاز مال کہلاتا ہے۔ شریعت نے اس طرح کے ناجائز ارتکاز مال کی کھلی ممانعت فرمائی ہے اور اس کا باعث عذاب شدید قرار دیا ہے۔

قرآن کریم میں آتا ہے۔

”وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ”(التوبۃ، 9 : 34 )

”اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخيرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں”۔

ارتکاز دولت کی ممانعت اس لیے ہوئی کہ  مال و دولت صرف مخصوص طبقات کے درمیان گردش نہ کرے بالکہ معاشرے کے تمام افراد مستفید ہوں۔

(9)  درخت لگانا اور کھیتی باڑی کی افادیت و اہمیت

معیشیت میں کھیتی باڑی اور درختوں کی اہمیت مبین ہے۔درخت لگانا، کھیتی باڑی کرنا اسلام میں بہت عظمت اور افادیت کی بات ہے۔ان سے نہ صرف انسانوں کو  فائدہ پہنچتا ہے بلکہ جانوروں تک بھی پہنچتا ہے۔صحیح مسلم میں روایت ہے

”حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : جو مسلمان درخت لگاتا ہے يا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے جانور يا انسان يا چوپائے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں تو یہ عمل اس (مؤمن) کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔” ( مسلم، الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل الغرس والزرع، 3 : 1189، رقم : 1553)

 (10) بنجرزمینوں کا آباد کرنا

اسلام نے بنجر اراضی اور بڑے بڑے بیابان علاقوں کو زندہ کرنا اور کھیتی باڑی کے قابل بنانے کے عمل کو بہت اہمیت دی ہے۔بنجر اور مردہ زمینوں کو آباد کرنے پر اسلام نے اس کی حق ملکیت تسلیم کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

”جس نے کسی مردہ زمین کو آباد کيا، وہ اسی کی ملکیت ہوگی”۔

 (أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب في أخذ الجزية، 3 : 178، رقم : 3073)

 (11) مستشرقین اور ان کے پیروں کا نقطہ نگاہ اور رسول اللہ کی معاشی زندگی

آپ ﷺ کی معیشت کے حوالے سے عموما دو نقطہء نظر پائے جاتے ہیں۔ایک مستشریق کا نقطہء نظر ہے اور ایک انکے پیروکارجدید مسلم مورخین کا ہے۔ان دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ایک کمزور معاشی طبقے سے تھا۔اور سماجی طور پر بھی آپ کم شرف طبقے سے تھے۔اس قسم کی خیالات کا اظہار ان کی کتب میں ملتا ہے۔ بطورمثال ڈی ایس مارگولیتھ کی کتاب محمد اینڈ دی رائز آف اسلام (مطبوعہ لندن) وغیرہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔تاہم مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب سیرت النبی اور دیگر مصنفین نے اس قسم کے خیالات کی سخت تردید کی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ﷺ کے معاشی و اقتصادی افکار کی درست  سمت میں تحقیق کی جائے تو بہترین اسلامی و اقتصادی اصول فراہم ہوسکتے ہیں۔بڑی حد تک مسلم ریاستوں اور محققین نے یہ کام کیا بھی ہے۔

عنفوان شباب پر قدم رکھتے ہیں آپ ﷺ نے قریش کے نوجوانوں کی مانند تجارت کا مشغلہ اپنانا۔ آپ کی مکی زندگی کا ایک بڑا حصہ تجارت پر مشتمل ہے۔بچپن ہی میں آپ ﷺ کےتجارتی اسفار یمن و شام کے ہوئے۔ پھر ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے ساتھ مضاربت کے اصولوں پر کی جانے والی تجارت تاریخ کا ایک انمول باب ہے۔یاد رہےکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر شام جانے تک  آپ بطور تاجر اپنی حیثیت مسلم اور اپنی مہارت و محنت اور ذہانت منوا چکے تھے۔

اسی طرح ابتدائی دور ہجری میں آپﷺ کی معاشی و اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ مکی و مدنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کاایثار بھرا ہدیہ ونذرانہ ہوناتھا۔ اسی وسیلہ نے آپؐ اور آپؐ کے متعلقین اور اہل وعیال کے لیے تین بنیادی ضرورتوں روٹی،کپڑا اور مکان کی سبیل پیدا کی تھی۔یہ ذہن میں رہے کہ یہ ایک ذریعہ ہی تھا مگرآپ ﷺ کا ترکہ و  وراثت ،ازواجِ مطہرات کے اپنے اموال ،خرید و فروخت اور تجارت  ،کافی حد تک کھیتی باڑی، زراعت وباغبانی اور مویشی پالنا، دستکاری ، مال غنیمت وغیرہ دوسرے وسائل ِ معاش تھے۔ان سے آپ ﷺ اور اہل وعیال کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے پوری ہوتی تھیں۔آپ ﷺ نے شریفانہ زندگی اختیار کی، نہ مال ودولت کے انبار سے داد عیش دی نہ ہی زہد و فقر اختیار کرکے رہبانیت کا درس دیا۔اعتدال آپ ﷺ کی پہچان ہے۔نبوی معیشت اعتدال کے جادہء قرآنی پر مبنی تھی۔فقر سے پناہ مانگی اور اسراف کی ممانعت فرمائی۔اور صبر وشکر کی ترغیب دیتے ہوئے خود اس کا نمونہ بنے۔

(12)خلاصہ کلام

سیرت رسول اور احادیث سیرت کے عمیق مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ ﷺ کی معاشی و اقتصادی زندگی اور تعلیمات اور بنيادی تصورات اپنے معنی و مفہوم اور روح کے لحاظ سے پوری انسانی دنیا میں انفرادیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جو دیگر معاشی نظاموں سے ممتاز ہے اور نافذالعمل بھی ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت عطا کرتی ہیں۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی معاشی واقتصادی تعلیمات ہیں۔یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ایسے بنیادی ڈھانچے کے قیام میں حقیقی رکاوٹ وہ سماجی اور معاشی ناانصافیاں ہیں جو جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ  اور کمیونزم و اشراکیت کے نظام کی خصوصیات ہیں  اور جنہوں نے انسانی سماجی زندگی میں دولت کے غلط و بے جاارتکاز، اور اسی طرح جائز حق ملکیت سے محرومی اور فرد کی پیداواری قوت کی لوٹ کھسوٹ کی شکل میں سر اٹھارکھا ہے اور جو وسیع پیمانہ پر بددیانتی ، بدلی  اور مایوسی پیدا کررہی ہیں۔مگرآپ کے عطا کردہ معاشی اصولوں اور رہنمائی کے مطابق اَصل رِزق اور حق معاش میں سب انسان برابر ہیں۔

بدقسمتی سے آج مملکت خدادا پاکستان کی معیشت پر قابض دولت مند طبقہ نے 20کروڑ لوگوں کے انحطاط پذیر سماجی ڈھانچے میں اپنے پنجے گاڑھے ہیں۔مگر اسلام اس کی اجازت قطعا نہیں دیتا۔اگر اسلام نے افراد کی آمدنی اور نجی ملکیت  میں تفاوت کی اجازت دی بھی ہے تو اس میں ان کی صلاحیتوں اور قابلتیوں کو مدنظررکھ کر دی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی و مذہبی دہشت گردی کے ساتھ  معاشی دہشت گردی کا بھی تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں خاتمہ کیا جانا چاہیے۔وماعلینا الاالبلاغ

نوٹ: یہ مقالہ ریڈیو پاکستان کی عید میلاد النبی ﷺ  ربیع الاول کی خصوصی نشریات کے لیے لکھا گیا ہے اور ریڈیو پاکستان میں پڑھ کر سنایا گیا۔۔۔مقالہ نگار

مراجع و مصادر/ ریفرنس

(1)       القرآن

(2)       البخاری، محمد بن إسماعيل ،الصحیح البخاری، دار طوق النجاةالطبعة: الأولى، 1422ھ۔

(3)       النيسابوري مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري (المتوفى: 261هـ) الصحیح المسلم، دار إحياء التراث العربي – بيروت

(4)       ترمذی،محمد بن عيسى،(المتوفى: 279ھ)، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر،الطبعة: الثانية، 1395 هـ – 1975 م

 (5)      أبو داود، السنن،  (المتوفى: 275ھ)المكتبة العصرية، صيدا – بيروت

 (6)      ابن ماجة ،أبو عبد الله محمد بن يزيد (المتوفى: 273هـ) السنن، دار إحياء الكتب العربية –

(7)       بیہقی، أحمد بن الحسين بن علي، السنن الکبری، دار الكتب العلمية، بيروت – لبنات،الطبعة: الثالثة، 1424 هـ

(8)       بیہقی، أحمد بن الحسين بن علي، شعب الإیمان، مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض

(9)       أحمد بن حنبل، أبو عبد الله أحمد بن محمد، فضائل الصحابہ، مؤسسة الرسالة – بيروتالطبعة: الأولى، 1403 – 1983

(10)     طبرانی، ،سليمان بن أحمد (المتوفى: 360هـ) المعجم الصغیر ،المكتب الإسلامي , دار عمار – بيروت , عمان،الطبعة: الأولى، 1405

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button