کالمز

دیامر پولیس کی شاندار کارکردگی

 تحریر۔اسلم چلاسی۔

کسی بھی ریاست میں شہریوں کے جان و مال کی تحفظ امن و امان کو قا ئم رکھنا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کی سر کوبی جرائم پیشہ افراد کا گیراؤ یقیناًً پولیس فورس کی اولین فرائض ہوتے ہیں ایسی مقصد کیلے پولیس جیسے ادارے کو عمل میں لایا گیا ہے تا کہ شہری ریاست کے اندر اپنے تمام تر زمہ داریوں کے بر آوری کے ساتھ جمہوری و بنیادی حقوق کے حصول میں عدم تحفظ کا شکار نہ ہو ۔لیکن بدقسمتی سے ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں چلتے پھرتے راہگیروں کی جیب سے نشہ آور اشیاء بر آمد ہونا قانونی کاروائی کی دھمکیاں اور پھر لین دین مک مکاؤ ہر چوک چوراھے کا معمول ہے۔ہر آنے والی حکومت پولیس اصلاحات کے نام پر فنڈز کی بھر مار اور پھر اسی میں مار دھاڑ نتیجہ صفر سے آگے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔زمانہ طالب علمی میں کراچی کے شاہراؤں پر دیر سویر کی صورت میں جیب کتروں سے زیادہ پولیس کا خوف اعصاب پر سوار رہتا تھا۔متعدد مرتبہ جیب سے کالے پیلے اشیاء کی عجیب و غریب گٹھلیاں بر آمد ہوتی تھی پچاس سو جیب میں جتنا بھی ہو فورًً منتقل ہوجاتے تھے حالانکہ ہمیں تو چرس کا وضع قطع کابھی علم نہیں تھا وہ تو پولیس والوں کی مہربانی تھی کہ بچارے اپنے ہاتھ میں پہلے سے رکھ کرہم میں سے کسی کے جیب سے بر آمد کرتے ہی چرس کا نعرہ بلند کرتے تھے ۔ کالی نسوار کی صورت میں کوئی بدبودار شے کا نام چرس ہوتا ہے میں نے پہلی مرتبہ پولیس والوں کے ہاتھ میں دیکھا۔ان دنوں ہر دس منٹ کے بعد ہر راہ گیرکی جیب سے بر آمد کرنا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ اخبارات کے زریعے جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی کا الزام یا دعوہ روز انہ کا رونا دھونا تھا ۔گلی کے غنڈے سے لیکر شہر کے بڑے اجارہ دار تک سبھی پولیس کے تحفظ میں مصروف عمل ہونے کے الزامات اخباروں کے زینت بنتے تھے ۔جس سے شروع دن سے ہی پولیس کے بارے میں میرے زہن میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے دیامر پولیس کی لازوال قر بانیوں کا سلسلہ اور انتہائی جرت مندانہ کاروائیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو پولیس کے بارے میں میری سوچ بلکل تبدیل ہوگئی۔یہاں پر پولیس گردی کی بہت کم واقعات شائد رکارڈ کا حصہ ہو البتہ ایمانداری اور فرض شناسی کے ایسے ایسے کارنامے دیامر پولیس سے منسوب ہوچکے ہیں جس سے دیامر پولیس واقع داد و تحسین کے مستحق ہے۔گزشتہ دو سالوں سے اتہائی خطرناک مجرموں کے گرفتاری میں دیامر پولیس کی شاندار کار کردگی جی بی پولیس کے رکارڈ میں نمایا حیثیت رکھتی ہے حکومتی رٹ کو بحال کرنے اور قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے میں دیامر پولیس نے دیگر اداروں کے تعاون سے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں پچھلے کئی سالوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ حوصلہ افزاء ہے۔ایسی طرح مستقبل میں بھی فرض شناسی کے ایسے مظاہرے ہوئے تو یقناًً جرم کی شرح میں کمی واقع ہوگی اور پولیس فورس پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔انتہائی مطلوب ملزموں کی گرفتاری جن کے اپر ہیڈ منی مقرر تھی دیامر پولیس نے جان جوکھوں میں ڈال کر جاں بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے گرفتاری کو یقینی بنا یا جس پر جی بی پولیس قیادت نے دیامر پولیس کی بہادری کے اعتراف کرتے ہوئے نقد انعامات اور پر موشن کو یقینی بنا یاجس سے دیامر پولیس کا ہر اہلکار بہتر کار کردگی کی خواہش کے ساتھ دل جمی سے کام کر رہا ہے۔

لیکن دیامر کے نفسیات اور قبائلی رویوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو جرم اور مجرم کی سر کوبی کا عمل کبھی کبار دیرینہ دشمنی کے روپ میں بھی سامنے آتاہے سرکار کا کام زاتی معاملہ بننے میں دیر نہیں لگتا چونکہ ملزم اپنے دشمن سے زیادہ مجرم اس پولیس اہلکار کو سمجھتا ہے جس کے زریعے اس کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہواس لیے دیامر میں ملزموں کی سر کوبی کا عمل باقی تمام اضلاع سے قدرے خطرناک ہے ایک طرف فرض شناسی اور دوسرے طرف جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اس لیے دیامر پولیس کی ہمت و استقامت کی حوصلہ افزائی جی بی پولیس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیے۔خاص کر ،کریم داد ،جیسے بہادر سپوتوں کی قر بانیاں مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں جس نے ۱۹۹۴ سے لیکر تا حال محکمہ پولیس میں قابل قدرکارنامے سر انجام دی ہے۔ ہیڈکانسٹیبل کریم داد کے کار ناموں کے اعتراف دستیاب دستاویزات میں نما یا ہیں اگر یہ تمام کارنامے موصوف سے منصوب ہیں اور حقائق پر مبنی ہیں تو محکمہ پولیس کو ۔کریم داد ۔کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔بقول کریم داد کہ انہوں نے درجنوں خطرناک مجرموں کو گرفتار کیا جس میں ہیڈ منی سمیت تین سو دو کے ایسے ایسے مجرم بھی شامل ہیں جو کئی سالوں سے روپوش تھے جن کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے تک پنچا یا۔اگر ہیڈ کانسٹیبل کریم داد اپنے ان تمام دعووں میں حق بجانب ہے تو یقیناًً صدارتی ایوارڈ کا مستحق ہے اگر ایسے جنونی اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کر کے مذید ٹاسک دیا جائے تو ان سے مذید بہادری کی امید کی جاسکتی ہے اور ایسے اہلکار آئندہ پولیس فورس کیلے باعث فخر بن سکتے ہیں خاص کر۔ کریم داد ۔کی بہادری اور دلیری کا متعرف دیامر کا ہر فرد ہے کسی بھی کیس میں ہیڈ کانسٹیبل کریم داد کی موجودگی ہو تو معاملے کا کا یاہی پلٹ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر مجرم جرم کے بعد اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ۔ کریم داد۔ کو ہی سمجھتا ہے ۔ اس امید کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ دیامر پولیس کی شاندار کار کردگی کا تسلسل مذید بہتری کے ساتھ جاری رہے گا اور ہیڈ کانسٹیبل کریم داد ، جیسے جاں باز وں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button