کالمز

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے اقدامات

صفدرعلی صفدر

مجھے آج کے کالم میں سیدھے سادھے الفاظ میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی تعریفیں بیان کرنی ہیں۔اگرچہ یہ ایک لکھاری کے لئے بہت مشکل کام ہے، جس پر مجھے اپوزیشن جماعتوں اور فیس بکی دانشوروں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور لعن طعن بھی کیا جا سکتا ہے، مگر مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں اور میں نے ہرصورت وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے علاقے کی تعمیروترقی کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے اقدامات کو مثبت اندازمیں قلمبندکرنا ہے۔

ہاں مجھے پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجدحسین ایڈووکیٹ کی جانب سے گزشتہ دنوں ’حق ملکیت وحاکمیت ‘کے موضوع پر دنیور گلگت میں منعقدہ ایک شاندار جلسے کے انعقاد کی بھی تعریف کرنے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہورہی،کیونکہ جمہوری معاشروں میں حکومتی خامیوں کی اصلاح کے لئے ایک مضبوط اپوزیشن کا ہونا بھی اشدضروری ہے۔

اگرچہ گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی میں اپوزیشن کا کردار تو صرف نام کی حد تک ہے، مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے پرعزم صدر امجدحسین ایڈووکیٹ اور انکی ٹیم اسمبلی سے باہر یہ ذمہ داری نہایت احسن طریقے کے نبھانے کی کوشش کررہی ہے،جو کہ علاقے میں جمہوری اصولوں کو پروان چڑھانے اوراداروں کے اندر گڈگورننس کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایک اہم کاوش ہے۔

وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی تعریف کرنے کا یہ خیال مجھے اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ سی ایم ہاوس گلگت میں انہوں نے صوبائی دارالخلافہ میں مختلف اخبارات کے انتظامی عہدوں پر فائزصحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ ایک طویل مشاورتی نشت کا اہتمام کیا۔ اس سے قبل میں نے بھی ایک عام شہری کی طرح اس گمان میں آستینیں چڑھاکر حکومتی کارکردگی پر تنقیدکی ٹھان لی تھی اور صوبائی حکومت کے قیام سے اب تک کئی تنقیدی کالموں کے زریعے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی،تاہم حکومتی ایک سالہ کارکردگی کا علم مجھے اس وقت ہوا جب ہم وزیراعلیٰ صاحب کے روبرو تھے۔

اس نشت کے پہلے مرحلے میں وزیراعلیٰ صاحب نے گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت کے قیام سے اب تک چودہ ماہ کے عرصے کے دوران علاقے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے طویل المعیاد اور قلیل المعیاد اقدامات پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔دوسرے مرحلے میں انہوں نے ہمیں حکومتی کارکردگی سے متعلق سوالات پوچھنے کے لئے کھلی چھوٹ دیدی،یوں یہ نشت چار گھنٹے سے بھی طویل دورانیہ پر مشتمل رہی۔

وزیراعلیٰ صاحب نے ہمیں گلگت بلتستان میں قائم تمام محکموں میں لائے جانے والے حکومتی اقدامات کے حوالے سے اگاہ کیا،جس میں محکمہ مالیات،صحت،تعلیم،پانی وبجلی،سیاحت وثقافت،منصوبہ بندی وترقیات،لوکل گورنمنٹ،پولیس،امن وآمان،سماجی بہبوداور دیگر شعبے شامل تھے،جس کی تفصیل ملاقات سے اگلے روز کے اخبارات میں بیان کی جاچکی تھی۔ آج کے اس کالم میں ان تمام اقدامات کی تفصلات

من وعن بیان کرنا چونکہ ممکن نہیں ،اسی لئے چند چیدہ چیدہ اقدامات ہی کا زکرکرلیا جائیگا۔

ان میں سرفہرست یہ کہ گلگت بلتستان حکومت کا اپنا کوئی کانسولیڈیڈ اکاونٹ نہ ہونے کے سبب مالی سال کے اختتام یعنی ہرسال جون کے آخرمیں وفاق سے گلگت بلتستان کو سالانہ بجٹ کے تحت ملنے والی رقم کا خطیر حصہ خرچ ہوئے بغیرواپس وفاق کو منتقل ہونے کے باعث مختلف مدمیں واجب الادا رقوم کے چیکس باؤنس ہونا عام معمول تھا،خاص طورپر پاکستان پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے ساتھ تو یہ ایک المیہ بن چکا تھا۔ اب وزیراعلیٰ کے بقول انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اس المیہ سے بچنے کی غرض سے صوبائی حکومت کا اپنا ایک مخصوص اکاونٹ کھول دیا، جس سے مالی سال کے اختتام پر واپس وفاق کو منتقل ہونے والی رقم اب خطے میں ہی موجود رہے گی اور نئے مالی سال سے اس رقم کا دوبارہ استعمال کیا جائیگا، جس میں خطے کو اربوں روپے کی بچت ہوگی۔

دوسرا اقدام انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں عوام اہمیت کے حامل سینکڑوں زیرالتواء منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا اور متعلقہ ٹھیکہ داروں کو منصوبے مقررہ وقت پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے سخت احکامات جاری کئے۔جس پر وزیراعلیٰ کے بقول اس وقت کوئی بھی منصوبہ زیرالتواء نہیں اور تمام منصوبوں پر کام تیزرفتاری سے جاری ہے۔ پھر حافظ حفیظ الرحمن صاحب کی حکومت نے صحت کے شعبے پر توجہ مرکوزکی اورتمام ضلعی ہیڈکوارٹرہسپتالوں میں جدید مشینوں کی فراہمی،ڈاکٹروں کی کمی دورکرنے اور انہیں بروقت ڈیوٹی پر حاضری کا پابند بنانے کے حوالے سے اقدامات کئے۔

اسی طرح صحت کے شعبے میں ہی وفاقی حکومت کے تعاون سے گلگت بلتستان کے چار اضلاع کے انتہائی غریب اور نادار افراد کے لئے ہیلتھ انشورنس اسکیم متعارف کروایا،جس سے یہ لوگ تین لاکھ تک کے اخرات سے ملک کے کسی بھی ہسپتال میں اپنے لئے علاج ومعالجے کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ اضلاع کے لئے جرمن حکومت کے تعاون سے انشورنس اسکیم کے اجراء پر کام آخری مرحلے میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان آرمی کے تعاون سے گلگت میں اولین میڈیکل کالج کے قیام کے لئے وفاق کی جانب سے تینتیس ارب روپے کی خطیررقم مختص کی گئی ہے اور اگلے سال سے گلگت میں میڈیکل کالج کی کلاسوں کے اجراء کی نوید بھی سنادی۔وزیراعلیٰ نے ہمیں تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے حوالے سے بھی حکومتی اقدامات سے اگاہ کیا، لیکن تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے حکومتی اقدامات کے سلسلے میں تین تین لاکھ روپے رشوت کی بجائے این ٹی ایس کے زریعے میرٹ پر حال ہی میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کی سلیکشن کی مثال ہی کافی ہے،جس پر ہرجگہ صوبائی حکومت کی میرٹ پالیسی کی واہ واہ ہورہی ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری سکولوں میں سمسٹر سسٹم کو متعارف کروانا، ہرضلعے میں ایک ایک ماڈل سکول کا قیام،پرائمری لیول کی تعلیم خواتین اساتذہ کے سپردکرنے اور اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے بھی نمایاں اقدامات شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ نے ہمیں علاقے سے لوڈشیڈگی کے خاتمے کے لئے بجلی کی پیداوارمیں اضافے کے حوالے سے کئے جانے والے حکومتی اقدامات سے بھی اگاہ کیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ بجلی کی صورتحال میں روزبروز بہتری آئیگی مگرلوڈشیڈنگ پر مکمل قابو پانے کے لئے تھوڑا ساوقت

درکار ہوگا۔ انہوں نے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت،گلگت،جوٹیال،دنیور اور دیگر علاقوں کے لئے صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے اقدامات سے بھی اگاہ کیا اور بتایا کہ ذوالفقار آباد جوٹیال میں صاف پانی کا ایک منصوبہ کامیابی کے ساتھ مختصرمدت میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔

گلگت شہرکو گندگی اور کچرے سے پاک کرنے ، مین شاہراہوں کی ری کارپٹنگ ،امن وامان کے قیام اور جرائم پیشہ افراد کی کڑی نگرانی کے لئے شہرمیں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی گواہی عوام خود بہتر اندازمیں دے سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں شہدا پیکج کے تحت دوران ملازمت وفات پانے والے سرکاری ملازمین کے ورثا کو متبادل ملازمت کی فراہمی،چھوٹے ملازمین کے لئے انشورنس اسکیم کا اجراء، زرعی ترقیاتی پروگرام،بورڈ آف انوسٹمنٹ کا قیام،جی بی آرایس پی کے قیام کے لئے پینتیس کروڑ کا انڈومنٹ فنڈ،قدرتی آفات سے نمٹنے کے حکومتی ادارے کے لئے جدید مشینری اور معقول بجٹ کی فراہمی،گلگت غذر روڈ،گلگت تا استور روڈ اور سکردوتا گانچھے مین شاہراہ کی مرمت وکشادگی کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا زکرکرتے ہوئے وزیراعلیٰ صاحب نے دعویٰ کیا کہ گلگت تا سکردو روڈ کی مرمت و گشادگی کا منصوبہ بھی انہی کے دورحکومت میں شروع ہوگا اور حکومتی مدت ختم ہونے سے قبل ہی اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگا۔

وزیراعلیٰ نے اور بہت سارے اقدامات سے ہمیں اگاہ کیا،حتیٰ کہ گھڑی باغ میں پارک کے قیام کے بعد عوامی جلسے اور احتجاج کے لئے جگہ کی عدم دستیابی سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ گھڑی باغ کے متبادل کے طور پر ریورویوروڈ پر ایک اوپن ایئر ہال تعمیر کیا جارہا ہے، جس میں بیک وقت پانچ سو افراد کے لئے جگہ کی گنجائش ہوگی اور جس کا جو من چاہے وہاں پر اپنا دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے۔

نشست کے دوسرے مرحلے میں وزیراعلیٰ صاحب نے علاقے کی تعمیروترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے لئے مذیدبہتر اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں صحافیوں سے بھی تجاویز لئے اور اس حوالے سے مذیدمشوروں اورحکومتی رہنمائی کے لئے مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک بنانے کی بھی یقین دہانی کرائی۔

وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن صاحب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ میری پہلی ملاقات تھی، جس میں، میں نے انہیں وہی حفیظ پایا جو اقتدار سے قبل تھے۔ ان میں علاقے اور عوام کو درپیش مسائل کا ادرک اور ان مسائل کو حل کرکے ایک مثالی عوامی نمائندہ ہونے کا جذبہ اور ویژن پہلے سے کئی گنا زیادہ تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں سب سے پہلے پائیدار امن قائم ہو پھر عوام کا پیسہ عوامی فلاح وبہبودپر ہی خرچ ہوتو یہ علاقہ سوئٹزلینڈ سے کسی صورت کم نہیں۔

بات پھر وہی کہ اگروزیراعلیٰ کی یہ طویل گفتگو اور حکومتی اقدامات کی تفصیل اگر حقائق اور سچائی پر مبنی ہے تو پھر مجھ جیسے ایک عام شہری کو ان اقدامات کی تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ نہیں اگر اس میں کوئی پس خوردگی کا عنصرشامل ہے تو وہ جانے ان کا ایمان۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button