کالمز

پیشہ پیغمبری کی توہین

تحریر۔۔ارشاد اللہ شادؔ ؔ
بکرآباد چترال

اگرچہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح نے وسائل کو بری طرح مجروح کیا ہے لیکن سب سے زیادہ اگر کوئی شعبہ پاکستان میں پالیسی سازوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے وہ پرائمری تعلیمی نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرائمری سطح کے تعلیمی منصوبے موثر طریقے سے زیر عمل نہ آسکے ۔ سب سے زیادہ عدم توجہی پرائمری سطح کی تعلیم سے برتی جارہی ہے۔ خاص طور پر مناسب بلڈنگ، مناسب فرنیچر ، پینے کا صاف پانی، سینی ٹیشن ، تربیت یافتہ سٹاف اور دیگر بنیادی سہولیات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

چونکہ پاکستان میں دیہی علاقوں کے سکولوں میں بنیادی سہولیات محدود ہیں۔ خاص طور پر سرکاری سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ بچوں کو سکول کی چار دیواری میں صاف پانی میسر نہیں ہے، لہذا وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ سب سے خطرناک صورتحال یہ ہے کہ ان سکولوں میں صحیح سیکورٹی کے انتظامات بھی نظر نہیں آتے ہیں۔ خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں زلزلے کی تباہ کاریوں نے پہاڑی علاقوں میں قائم سرکاری سکولوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ تعمیر نو کا سلسلہ اگرچہ جاری ہے لیکن بہت سے علاقوں میں ابھی ابھی تعمیر کا سلسلہ مکمل نہیں ہو سکا ۔ بلڈنگ تو بن رہی ہے لیکن مناسب سیکورٹی کی انتظامات ناقص ہے۔

(EMIS) (The Education Management Information System)کے مطابق پاکستان بھر میں 45.7فیصد پرائمری سکولوں میں صاف پینے کا پانی میسر نہیں۔ اور 64.1فیصد میں لیٹرین کی سہولت موجود نہیں ۔ لہذا اسکا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ بچوں میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ لوگ بچوں کو سرکاری سکولوں سے نکال دیتے ہیں یا انہیں سکول نہیں بھیجتے کیونکہ ان سکولوں میں بنیادی سہولیات مثلاً صاف پانی، لیٹرین ، سینی ٹیشن ، سیکورٹی میسر نہیں ہوتی۔

بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ، اگر ان کی مناسب دیکھ بال اور صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یقیناًاس قوم کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے، لہذا سکولوں کی سطح پر صحت اور صفائی ، سیکورٹی کا مناسب انتظام انتہائی اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر سوچنا اور اس کے حل کے لیے مناسب حکمت عملی اپنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔

آئے روز سرکاری سکولوں میں خدمات سرانجام دینے والے مختلف کیڈر کے ٹیچروں نے احتجاجی جلوس نکالا جو کہ سیکر ٹریٹ روڈ سے گزرتاہوا چترال پریس کلب میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ یہ بات اخباروں کی زینت بنی ہوئی ہے کہ سرکاری سکولوں میں پولیس کی ہدایات کے مطابق سیکورٹی کے انتظامات نہ کرنے پر اساتذہ کے خلاف ایف ۔ائی ۔ آر کاٹی گئی ہے۔اور پیشہ پیغمبر ی سے تعلق رکھنے والے واجب الاحترام اساتذہ سکول میں پڑھائی کے اوقات میں تھانے کچہریوں میں ذلیل و خوار ہونے پر مجبور ہیں۔ یہ بات بھی مضحکہ خیز ہے کہ پولیس کے ہدایات کے مطابق سکولوں کے لیے واک تھروگیٹ ، سی سی ٹی وی ، اسلحہ ، خصوصی موبائل فون سیٹ اور سیکورٹی گارڈ رکھنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے لیے ایک پائی کی بجٹ بھی سکولوں کے پاس نہیں ہے، بیچارے اساتذہ کرام ان لوازمات کو کیسے پورا کریں گے؟ ادھر سے پولیس کی طرف سے اساتذہ کے خلاف دھڑادھڑ ایف ائی آر کاٹی جارہی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سرکاری سکول چونکہ حکومت کی ملکیتی سکول ہیں اس لئے کچھ تو عقل کے ناخن لینا چاہیے ان غریب اساتذہ کو گرفتار کرنے کی بجائے وزیر تعلیم سے لیکر سکیڑیری تعلیم اور ڈائریکٹر سمیت ایجوکیشن آفیسر کو گرفتار کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ ان سکولوں کی تعمیرات و سیکورٹی پر توجہ دینگے۔

راقم الحروف کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ سکول کے ماحول کی بہتری کے لیے سب سے اہم ترین کردار اساتذہ کا ہے۔ کیونکہ بچے ان کے زیر تربیت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ سکول کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اساتذہ کے ذمے ہوتی ہے۔ لیکن سکول کی تعمیراتی و سیکورٹی ذمہ داریاں اساتذہ کے سر پر نہیں ہیں۔ سکولوں کے لیے بنیادی سہولیات ، تعمیر و سیکورٹی انتظاما ت کی بہتری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ضلعی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اساتذہ کی ذمہ داری صرف یہ کہ وہ متعلقہ آفسران کے ساتھ میٹینگز کا اہتمام کرکے انہیں صحت و صفائی ، سیکورٹی وغیرہ کے حوالے سے ضروری معلومات فراہم کرئے۔ اور انہیں آمادہ کریں کہ سکول میں مناسب سیکورٹی انتظام کیلئے کوشش کریں ۔ یہ فرائض سرانجام دینے میں اساتذہ کرام کوئی کسر نہیں چھوڑے ۔ لیکن ڈیپارٹمنٹ کے کانوں میں جوؤں تک نہ رینگی۔

ڈیپارٹمنٹ کے پاس اگر سکولوں کے لیے کوئی فنڈ موجود نہیں ہے تو یہ ذمہ داری ضلعی نمائندوں پر لاگو ہوتا ہے کہ وہ سکولوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں۔ وہ سکولوں کے لیے مخصوص فنڈ کا انتظام کریں ۔ دریں حالات میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ضلعی انتظامیہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔

اساتذہ کے خلاف ایف ۔ آئی ۔ آر کاٹنا حقیقت میں پیشہ پیغمبری کی توہیں ہے۔ جیسے ہر ذِی ہوش انسان بری نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے، ان کے خلاف بے جا ایف ۔ آئی ۔ آر کاٹنا ظلم کے مترادف ہے۔ کیونکہ سکول کے صحت و صفائی و سیکورٹی سکولوں پر مامور اساتذہ پر عائد نہیں ہے، انکا کام بچوں کی زریں مستقبل کو سنوارنا ہے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے مگن ہیں۔ لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بے جا اساتذہ کرام کے خلاف ایف۔آئی ۔ آر کاٹ کے اساتذہ کو احتجاج کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس ضمن میں ضلع ناظم کو کوئی احسن کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ سکولوں کو فنڈ فراہم کریں اور ان کے خلاف ایف ۔ آئی۔آر کے اندراج کا سلسلہ روکیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ ، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ضلعی حکومت اپنی مشترکہ ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے سیکورٹی کے اہم ترین مسئلے کے تدارک کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔ اور اپنے بچوں کو بہترین صحت و صفائی اور سیکورٹی کا نظام مہیا کریں تاکہ مستقبل کے لیے ایک بہترین اور صحت مند نسل تیار ہو سکے۔ یقیناًآج کی توجہ اور درست حکمت عملی کل کی کامیابی اور ترقی کی نوید بنے گی۔

قلم ایں جارسید و سر بشکست…..!!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button