کالمز

آئی ٹی بورڈ اور محکمہ تعلیم 

اخبارات میں یہ خبر آئی ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کو اپنے کام میں وسعت پیدا کرنے کی ہدایت کی ہے تفصیلات کے مطابق ایک اعلی سطحی اجلاس میں آٹی بورڈ کی سرگرمیوں پر تفصیلی بریفنگ کے بعد وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے نئی نسل کو جدید دور کی اس ضرورت سے روشناس کرنے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دینے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کا دائرہ مزید سکولوں تک بڑھایا جائے خبر میں بتا یا گیا ہے کہ آئی ٹی بورڈ نے 500سکولوں کا ٹارگٹ دیا تھا وزیر اعلیٰ کی ہدایت کی روشنی میں اس کو مزید سکولوں تک بڑھا یا جائے گا خبر بہت دلچسپ ہے اور مفید ہے گویا ایک طرح کی خوشخبری ہے مگر خبر میں چار باتوں کا ذکر نہیں پہلی با ت یہ ہے کہ گذشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے صوبہ خیبر پختونخوا کے سکولوں میں کمپیوٹر لیبارٹریوں کو چلانے کے لئے کمپیوٹر انسڑکٹر یا کمپیوٹر ٹیچر یا ایس ایس ٹی کمپیوٹر سائنس کی آسامیوں پر اساتذہ کی تقرری کا عمل روک دیا گیا ہے دوبار ڈیپارٹمنٹل ٹیسٹ کے لئے تاریخیں دی گئیں دوبار ایٹا ٹیسٹ کے لئے تاریخیں دی گئیں پھر رسوائے زمانہ این ٹی ایس کا شوشہ چھوڑا گیا مگر این ٹی ایس کیلئے صرف 5فیصد آسامیوں کا اشتہار آیا لوگوں نے ٹیسٹ پاس کیا محکمہ خزانہ نے تقرری کا عمل روک دیا تیسری بات یہ ہے جن سکولوں کو جنرل افتخار حسین شاہ اور جنرل علی محمد جان اورکزی نے کمپیوٹر لیب بنا کر دئیے تھے ان سکولوں کے لیب 13سالوں سے بند پڑے ہیں محکمہ تعلیم کے کسی افیسر نے ان کا معائنہ نہیں کیا چوتھی بات یہ کہ خیبر پختونخوا کے کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کا جو نصاب دیا گیا ہے اُس کی ترتیب اُلٹی ہے چوتھے درجے کا کورس پہلے درجے میں ہے تیسر ے درجے کا کورس دوسرے درجے میں ہے جن کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کے 200 طلبہ یا طالبات ہیں 50کمپیوٹر وں کا لوکل نیٹ ورک ہے وہاں کمپیوٹر سائنس کے لیکچر ر کی آسامی خالی ہے پوچھنے والا کوئی نہیں نصاب کی غلط کتاب کے بارے میں کمپیوٹر سائنس کے پڑے لکھے اساتذہ نے 10بار خطوط لکھے رپورٹیں بھیج بھیج کر خود کو تھکا دیا نہ کوئی خط پڑھتا ہے اور نہ کوئی رپورٹ پڑھتا ہے اوپر والے کہتے ہیں یہ کوئی پنجا ب نہیں خیبر پختونخوا ہے سب چلتا ہے یہ چارباتیں اعلی سطح کے اجلاس میں زیر بحث نہیں آئیں یہ بات بھی زیر بحث نہیں آئی کہ آئی ٹی بورڈ کا کوئی انتظامی ڈھانچہ نہیں ہے کوئی تربیتی نظام نہیں ہے کو ئی معائینہ سسٹم یا مانیٹرنگ سسٹم نہیں ہے ایو یلو یشن کا کوئی میکنزم نہیں ہے سولو فلا ئیٹ والا بورڈ ہے اور صرف بورڈ ہے جو زمین پر کسی تعلیمی نظام کے ساتھ منسلک نہیں ہوا میں معلق ہے لٹکا ہوا ہے اٹکا ہوا ہے جس بورڈ کا پہلے سے وجود نہیں اس کی توسیع کا کیا مطلب ہوگا ؟ وزیراعلیٰ سکرٹریٹ ، محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن کی سطح پر اس وقت دو کام التواء کا شکار ہیں 2003 ؁ء میں گورنمنٹ سینٹنل ماڈل سکولوں کو کمپیوٹر لیبارٹریاں فراہم گئی تھیں 2012 ؁ء میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے ان کے لئے کمپیوٹر ٹیچر کی آسامیوں کو منظور کیا کسی ضلع میں دو سکول ہیں کسی ضلع میں دو سے زیادہ ہیں کم از کم 50 سکولوں میں کمپیوٹر ٹیچروں کی بھرتی کاکام گذشتہ 3 سالوں سے رکا ہوا ہے ان سکولوں کے لئے کمپیوٹر ٹیچر اگرفراہم کئے جائیں تو یہ بڑا کام ہوگا دوسرا کام یہ ہے کہ 2006 ؁ء میں ہائر سیکنڈری سکولوں کے لئے کمپیوٹر لیب کی منظور ی دی گئی 10 سالوں سے ان لیبارٹریوں کو چلانے والا ٹیچر نہیں دیا گیا محکمہ تعلیم کے کسی افیسر نے ان سکولوں کے اندر کمپیوٹر لیب کا دروازہ نہیں کھولا این ٹی ایس پاس کر نے والے اُمید وار انتظار میں بیٹھے ہیں صوبائی حکومت کہتی ہے کہ کمپیوٹر سائنس کے ٹیچر کی کیا ضرورت ہے اسلامیات کے 3 اور فریکل ایجو کیشن کے دو ٹیچر دئیے گئے ہیں ان میں سے ایک کو کمپیوٹر لیب کا انچارج لگا دو اور کام چلاؤ اب مسئلہ یہ ہے کہ صوبے کے اندر کمپیوٹر سسٹم اور یو پی ایس فروخت کرنے والوں کی لابی موجود ہے لیبارٹریاں بن رہی ہیں خرید اریاں ہورہی ہیں لین دین ہورہا ہے کمپیوٹر کی تعلیم کو عام کر نے ، طلبہ اور طالبات کو کمپیوٹر پڑھانے کے لئے کوئی آواز نہیں اُٹھا تا اساتذہ کی بھرتی کا ذکر کوئی نہیں کرتا یہ بات خو ش آئیند ہے کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں بریفنگ دی گئی کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس بریفنگ میں گذشتہ 13 سالوں سے بند پڑی ہوئی کمپیوٹر لیبارٹریوں کاذکر ہوتا یا ہا ئر سکینڈری سکولوں میں 2006 سے ٹیچروں کے انتظار میں تالہ لگی ہوئی لیبارٹریوں میں سے کسی ایک لیبارٹری کا تالا کھولنے کی تجویز دی جاتی کیا ہی اچھا ہوتا اگر اساتذہ کی بھرتی کا اختیار ایم پی اے صاحبان سے واپس لیکر محکمہ تعلیم کے افیسروں کو دید یا جاتا اب جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پراعلیٰ سطح کی بریفنگ دی جاچکی ہے وزیراعلیٰ کو اس معاملے کی انکو ائری کا حکم دینا چاہیے کہ صوبے کے سکولوں میں 2003 اور 2006 میں بننے والی کمپیوٹر لیبارٹریاں کیوں بند پڑی ہیں؟ ان کے ایس این ای کدھر ہیں ؟ EMIS کا ریکارڈ کدھر ہے؟ ایک سال پہلے کمپیوٹر ٹیچروں کی آسامیوں کے لئے این ٹی ایس کا جو ٹیسٹ ہوا تھا اُس کا ریکارڈ کدھر ہے ؟ اساتذہ کی بھرتی والی فائل کہاں دبا دی گئی اور کیوں دبا دی گئی ؟ انکو ائر ی سے دو دھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا بقول غالب

مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button