کالمز

کاشغر گو ادر شاہر اہ 

کاشغر گوا در شاہر اہ چین اور پاکستان کی دوستی کا ایک اہم منصوبہ ہے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشیں ہو رہی ہیں اتوار 13 نومبر کو کاشغر سے 300 کنٹیروں کا تجارتی قافلہ 12 دن سفر کے بعد گو ادر پہنچا اس نے مغربی روٹ کو استعمال کیا افتتاحی تقریب سے ایک دن پہلے بھارت نے بلوچستا ن اور سندھ کو ملانے والے علاقے میں شاہ نوارانی ؒ کے مزار پر خود کش حملہ کر کے 52 پاکستانیوں کو شہید اور 100 سے زیادہ کو زخمی کیا اُس روز ٹیلی وژن چینلوں پر وزیراعظم محمد نوا ز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور چینی سفیر کی گوادر والی تقریب میں شرکت کی خبر کے ساتھ شاہ نورانی کے مزار پر بھارتی حملے میں ہلاکتوں کی خبر ساتھ ساتھ چل رہی تھی تقریب سے دو روز قبل تیمر ہ گرہ اور ایبٹ اباد میں الگ الگ تقریبات میں ایک فضول بحث پر مغزماری کی خبریں اخبارات میںآئی تھیں تیمرہ گرہ کی تقریب میں امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق نے مژدہ سنایا کہ سی پیک کا متبادل راستہ تیمر ہ گرہ سے گذرے گا اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے ایم پی اے اور صوبائی وزیر مشتاق غنی نے ایبٹ اباد میں خطاب کر تے ہوئے کہا کہ کسی کا باپ تیمر گرہ سے سڑک نہیں گذارسکتا ہم نے شملہ پہاڑی کے دامن میں چائینزکالونی کے لئے جگہ مختص کی ہے ایسا لگتا ہے گویا ملاکنڈ اور ہزار ہ کے درمیان سخت مقابلہ ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیںیہ باتیں میڈیا کی سطح پر جب اُٹھالی جاتی ہیں تو ہمارے عوام اور سیاسی ورکروں کی لاعلمی اور کم علمی کو ظاہر کرتی ہیں کاشغر گو ادر شاہر اہ یا معروف معنی میں چائنا پاکستان اکنا مک کارویڈور (CPEC) صرف ایک سڑک کا نام نہیں اس شاہر اہ کی 3 شاخیں ہونگی جو مختلف علاقوں سے گذر ینگی اس وجہ سے پہلی شاہر اہ کو مغربی روٹ کانام دیا گیا اس میں دستیاب انفراسٹرکچر سے کام لیا گیا اس لئے دو سالوں کے اندر پہلا تجارتی قافلہ کا شغر سے گو ادر پہنچا منصوبہ بندی کے وزیراحسن اقبال نے دو سال پہلے نومبر 2014 میںیہ بات کہی تھی کہ پورے منصوبے کی تکمیل میں 10 سال کا عرصہ لگے گا ہم موجودہ انفر اسٹرکچر کو گو ادر سے ملا کر دو سال میں پہلا روٹ کھولنا چاہتے ہیں ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن کے دو روٹس (Routes) اس کے متبادل راستے ہیں ان کو الٹر نیٹ روٹس کا نام دیا گیا ہے 7 نومبر 2016 کے اخبارات (ڈان وغیر ہ ) میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے مواصلات کی میٹنگ اور اجلاس میں دی گئی تجاویز یا بریفنگ پر مبنی خبر آگئی تھی اس پر خاص توجہ نہیں دی گئی خبر میں تفصیل کیساتھ بتا یا گیا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن سے گذرنے والی سڑک جڑواں سڑک ہوگی متبادل سڑک ہوگی کیونکہ گلو بل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئر پگھل رہے ہیں سیلاب آرہے ہیں پہاڑ ٹوٹ کر گر رہے ہیں عطا اباد جھیل اس کی ایک مثال ہے جہاں چائینہ نے ڈھائی سال کی محنت کے بعد سرنگ تعمیر کر کے سڑک کو کھول دیا اب وہاں دیا مر بھا شا ڈیم بن رہا ہے داسو ڈیم بننے والا ہے ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر دریا ئے سندھ کے دوسرے کنارے الگ سڑک زیر غور ہے اس کے علاوہ ایک سڑک چترال اور ملاکنڈ سے گذر ے گی جو گا ہکوچ ، پھنڈر ، شند ور اور لواری کے راستے تیمر گرہ اور چکدرہ تک جائیگی یہاں ایک آساں راستہ تیاری کے مراحلے میں ہے جو دوسالوں کے اندر چکد رہ کے مقام پر سوات ایکسپر یس وے کے ساتھ مل جائے گا دونوں سڑکیں ایک دوسرے کی حریف نہیں دونوں جڑواں بہنیں ہونگی گلگت سے یہ سڑک شاہر اہ ریشم کو چھوڑ کر مغرب کی طرف آئیگی 200 کلومیٹر پر ضلع غذر کا ہیڈ کوارٹر گا ہکوچ ہے آگے تحصیل پھنڈر کا مقام گولاغ موڑی تک 120 کلومیٹر پکی سڑک کے ذریعے ملا ہوا ہے گولاغ موڑی سے شندور 27 کلومیٹر اور شندور سے بونی 60 کلومیٹر کچی سڑک ہے آگے بونی سے تیمر گرہ تک 280 کلومیٹر پکی سڑک موجود ہے لواری ٹنل 2017 ؁ء میں عام ٹریفک کے لئے کھول دیا جائیگا اور یہ ایک محفوظ راستہ ہوگا قدرتی آفات کی صورت میں یہ متبادل شاہراہ ہوگی جو گلگت کو چکدرہ کے راستے پشاور اور راولپنڈی سے ملائے گی اس میں ہزارہ اور ملاکنڈ کے دو ڈویژنوں کو ایک دوسرے کا حریف بننے اور کسی کو باپ یا مائی کے لال کا طعنہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں یہ ہماری کم علمی اورجہالت ہے چترال ایسے خطے میں واقع ہے جو دوسری صدی عیسوی میں بھی شاہر اہ ریشم کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا تھا وادی آمو ، فرغانہ اور دیگر علا قوں میں جنگوں کی وجہ سے شاہر اہ ریشم بند ہوجاتی تو کاشغر ، یار کند، اندی جان اور فرغانہ سے آنے والے ترک قافلے چترال ، چغہ سرائے اور جلال آباد کے راستے پشاور اور کابل تک سفر کرتے تھے گیری آلڈر نے اپنی کتاب برٹش انڈیاز ناردرن بارڈرلینڈ(لندن 1961 ) میں اس متبادل شاہرا ہ کا ذکر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے لارڈ کرزن نے لیوز فرام اے وائسر ائز نوٹ بک (1926) میں اس شاہرا ہ پر نوٹ لکھا ہے دیگر محققین نے بھی اس کا ذکر کیا ہے قدیم چین کی دستاویزات خصوصاً تھان سلطنت کے پرانے ریکارڈز میں چترال ( چو ،وی ) سے گذارنے والی شاہراہ کے حوالے موجود ہیں اور چینی اپنی تاریخ سے پوری طرح باخبر ہیں البتہ چترال ملاکنڈ روٹ کو سب سے مختصر (شارٹسٹ )روٹ کہنا تھوڑا سا مبالغہ ہوگا پرامن راستہ ، متبادل راستہ اور جڑواں راستہ کہنا حقیقت سے قریب تر ہے ہم اخباری بیانات اور تقریروں میں اس کی جتنی مخالفت کریں اصل منصوبہ میںیہ شاہر اہ رہے گی یہ چینی منصوعات کو پشاور ، جلا ل اباد اور کابل تک لے جا نے کا الگ راستہ ہے اور چینی حکام کو اس کی اہمیت اور افادیت کا پورا علم ہے یہ بت طے ہے کہ سی پیک کی ایک سڑک ہزارہ ڈویژن سے اور دوسری سڑک ملاکنڈ ڈویژن سے گذریگی ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button