بلاگز

میرے روزنامچے کے اوراق سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلاح الدین صالح قطرے سے دجلہ بہاتے ہیں

 شمس الحق قمرؔ
بونی ، حال گلگت

یاد نہیں کونسا سن تھا کہ چترال کے ایک مقامی ہوٹل کے سبزہ زار میں صلاح الدین صالح ؔ نے بھولنے والے محبوب کو انوکھے انداز سے یاد کیا ، گلہ شکوہ کیا وہ بھی دعائیہ کلمات سے، حسن ادا اتنا بے مثال کہ پوری محفل زعفراں زار ہو کر رہ گئی ۔ یہ مختصر کہانی نظم کی ہیّت میں تھی ۔ میری اِن صاحب سے ملاقات اُس وقت ہوئی جب اُس نے اپنے محبوب کو زبانی گلپاشی سے مورد الزام ٹھہرایا ۔ یہ مصرعہ بہت سارے دوستوں کے یہاں عام ہوا ’’ مہ نغزینینئے مہ روخثیتاؤ لہ ‘‘ پھر ہم ریڈیو پاکستان چترال میں ایک ساتھ کام کرتے رہے ۔ ریڈیو پاکستان میں آپ کھوار پروگرام ’’ تریچمیرو اوانار‘‘ اور میں اُردو پروگرام ’’ آبشار‘‘ میں کام کرتا تھا ۔ قدرت نے بعض لوگوں کی زبان میں خاص میٹھاس رکھی ہے انہی قسمت کی دھنی لوگوں میں سے ایک صالح ؔ بھی ہیں ۔ مجھے آپ کی زبان کی حلاوت اور تراوت سے غالب ؔ کا ایک شعر یاد آتا ہے کہ ؂ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا ۔ صالح گالی بھی دعاؤں سے دیتے ہیں ۔ ریڈیو والا کام بڑے ٹنشن کا ہوتا ہے ۔یہاں سانس بھی آہستہ لینا ہوتا ہے کیوں کہ شیشہ گری کا کام بڑا نازک ہوتا ہے ۔ اصولی طور پر پروگرام سکرپٹ پروڈیوسر کو لکھنا ہوتا ہے لیکن اُس زمانے میں ہم خود لکھا کرتیتھے لیکن اہم بات یہ تھی کہ ہمارے پروڈیوسر آن ائیر جانے سے پہلے ہمارے سکرپٹ چیک کرتے تھے ۔ سکرپٹ سے ہٹنے پر سنئیر پروڈیوسر ( غلام محمد صاحب ، اللہ ہمیشہ خوش رکھے )سیخ پا ہو جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ صلاح الدین صالح سے بڑی غلطی ہوئی تو غلام محمد صاحب نے بے نقط سنا ہی دیا ۔ میں نے سوچا کہ اب یہ دونوں بہ دست وگریباں ہوں گے لیکن صالح نے تمام تُرشی قہقہے میں یوں تحلیل کیا کہ جیسے غلام محمد نے اُسے اعلی ٰ کار کردگی کی سرٹیفیکیٹ سے نوازا ہو ۔

ایک ایسا خوش گفتار انسان کہ جس کے غصے میں بھی پیار و محبت کی لذت ہو اور وہ دل سے محبت کا بیان اپنی ملائم زبان سے فرمایے تو سچ مچ قیامت آتی ہے اور دل سے سننے والے احباب کے دلوں میں مسلسل طوفان اُٹھتے ہیں اور انکی لہریں ہر با شعور اور باذوق انسان کی سماعتوں سے ٹکراتے ہوئے دور تک پھیل جاتی ہیں بلکہ یوں کہیے کہ صالح ؔ کو گفتار کا خاص ملکہ حاصل ہے۔ ہوٹل کے سبزہ زار میں اپنی نظم پڑھی تو سب پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی ۔ آپ تو ایک تھے جس پر سب کچھ بیت گیا تھا اور برداشت کیا ہمارا صالح ؔ سے گلہ یہ ہے کہ کیا خوب ہوتا کہ اپنے تک محدود رکھتے لیکن ظالم نے دل کی واردات ایسی ہی بتائی جیسی بیت گئیتھی ۔ مشاعرے میں موجود تمام فراد تخیل کی پُرپیچ وادی میں اُ ن کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔ مکرر ، واہ واہ ! ، صبحان اللہ اور تحسین و آفرین کی صدائیں گونجتی رہیں ۔ بات بہت چھوٹی تھی ۔ ایک مبہم سا نقطہ تھا اور کوئی نکتہ نہیں تھا وہ یہ کہ صالح ؔ کے محبوب اُسے بھول گئے تھے جو کہ کوئی ان ہونی بات نہ تھی ہر محبوب کا شیوہ ہے، بھول جاتا ہے ۔ اسی لئے تو اُسے محبوب کہتے ہیں ۔ محبوب کے لئے یہ بات پہلے سے طے ہے کہ وہ محبت کرے نہ کرے اُس کی اپنی مرضی ہے اور وہ اپنی مرضی پر چلنے اور زندگی گزارنے کا استحقاق رکھتا ہے ۔ وہ مجبور و لاچار آپ ہی ہیں کہ آپ محبت کرتے ہیں ۔ ورنہ کوئی درد تمہارے حصے میں نہ آیا ہوتا۔ آپ مجبور ہیں اور وہ مختار ۔ آخر کونسی ایسی بڑی بات تھی جو ایک محبوب اپنے چاہنے والے کو بھول گئے ۔ لیکن صالح ؔ کا دل اُس کانچ کی طرح ریزہ ریزہ ہو گیا کہ جس کے ہر ٹکڑے میں صالحؔ اپنے آپ کو الگ الگ نظر آنے لگا ۔ کیوں کہ اُس نے محبت کی تھی اور محبت کا توقع رکھتے تھے ۔ یہ محبت ضروری نہیں کہ صرف انسان سے ہی ہو ۔ محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن انسان محبت کے غیر متوقع نتائج پر جب پارہ پارہ ہو جاتا ہے تو ایسی صورت حال میں اپنے آپ کو سمیٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے ۔ اپنے آپ کو سمیٹنے کی کوشش میں شدید درد کی جو ٹیسیں اُٹھتی ہیں اُس اذیت سے وہی لوگ خوب واقفہوتے ہیں جو ایک مرتبہ بکھر گئے ہوں ۔ صالحؔ نے اپنے بکھرے ٹکروں کو ایک ایک کرکے اٹھانا شروع کیا معنی خیز شککوہ کیا :

مہ نازنین اے مہ روخثیتاؤ لہ ژانو باطین اے مہ روخثیتاؤ لہ

غیچ سرمہ گین اے مہ روخثیتاو لہ برو نما کین اے مہ روخثیتاؤ لہ

او اتھے ژانئے تہ روخثیکو نو بوم سرو سمین اے مہ روخثیتاؤ لہ ماہ جبین اے مہ روخثیتاؤ لہ مہ نازنین اے مہ روخثیتاؤ لہ

سرفو کانو سار باریک تھان شئیلی صفاتان کھیو کوم تہ غیچھان شئیلی

پری حسین اے مہ روخثیتاؤ لہ مہ نازنین اے مہ روخثیتاؤ لہ

زندگی تروق بیتی تروق ژار بیکو ہوئے صالحؔ عشقو انگارہ چار بیکو ہوئے

ژانو مکین اے مہ روخثیتاؤ لہ مہ نازنین اے مہ روخثیتاؤلہ

اس نظم کا عنوان ’’ روخثیک ‘‘ ہے فنی اعتبار سے اچھی نظم وہ ہو تی ہے جو وزن ، بحر، قافیہ و ردیف سے قطع نظر اپنے محور میں رہتے ہوئے اپنی پرواز کو بلند سے بلند ترین سطح کی جانب لے جانے میں کامیاں ہو اس شکوے میں شروع سے لیکر آخر تک شاعر تلوار کے دھار کے اوپر انتہائی احتیاط سے چلتے ہوئے نظر آتا ہے ۔ یہ ایک ایسی پرُ تناؤ رسی ہے جس کے اوپرعشق کی دنیا کے بازی گر ہی اپنا وزن بر قرار رکھ سکتے ہیں ان ہی باز گروں میں صالحؔ کا نام بھی صف اول میں نظر آتا ہے ۔ صالح نے اپنے سفر کے لئے سنگلاخ اور پر پیچ گھاٹیوں کا انتخاب کیا ہے ۔ اس وادئ پرُ خار میں مسافر بظاہر آسودہ حال نظر آتا ہے لیکن آبلوں سے پیپ بہتی ہے ، لہو پھوٹتا جا رہا ہے اور گریباں چاک ہے جیسے ؂ زندگی تروق بیتی تروق ژار بیکو ہوئے صالحؔ عشقو انگارہ پوچی چار بیکو ہوئے ۔

ہم نے صالحؔ کے عشق کی بات کی لیکن اصل پردہ چاک نہیں ہو سکا کہ کیسا عشق اور کہاں کا عشق ہے ؟ یہاں یہ بھی اس نظم کی خوبی ہے کہ ہر سننے اور پڑھنے والا رعایت لفظی سے کام لیتا ہے ۔ ہر قاری اور سامع اپنی بساط کے مطابق معنی اخذ کرتا ہے ۔ ہم جب بھی کسی شاعر کا کوئی شعر پڑھتے یا سنتے ہیں تو اُن کی باتوں سے ہمارا ذہن یکدم سے اُس عشق و عاشقی کی طرف جاتا ہے جو ایک انسان دوسرے انسان سے کرتا ہے اور آخر میں وہ عشق جاکر دونوں میں نفرت پرمنتج ہوجاتا ہے ۔ لیکن شاعر اپنی شاعری میں جو کچھ بھی کہتا ہے اُس میں رمز، کنائے ، مجاز مرسل ، رعایت لفظی اور مختلف تراکیب سے کام لیتا ہے ۔ یہ وہ فنی مہارتیں ہیں جو سمندر کو کوذے میں بند کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔صالح ؔ کے یہاں یہ خوبی موجود ہے کہ ایک ہی لفظ کو کئی معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔صالح ؔ کی نظم میں ایسی علامات نظر آتی ہیں کہ جن کی جڑیں کسی اور جگہ روپوش ہیں اور ہمیں صرف سطحی عشق معاشقے کی مہک محسوس ہوتی ہے ۔ صالح ؔ کے الفاظ سیدھے سادے اور عام فہم ہیں لیکن ان کی ترتیب ایسی ہے کہ ہر لفظ کے اندر ایک کائینات نظر آتی ہے ۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ قطرے سے دجلہ بہاتے ہیں ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے !

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button