کالمز

بجلی کے منصوبے اور محکمہ برقیات کے حکام

گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کو برسر اقتدار ائے دو سال ہونے کو ہے ان دو سالوں میں صوبائی حکومت کی کاکردگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا اقدام اب تک سامنے نہیں آیا جس سے علاقے کی تعمیر وترقی میں کوئی اہم پیش رفت ہوئی ہو ترقیاتی سیکموں کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو ممبران قانون ساز اسمبلی کو ملنے والا ایک سال کا فنڈ بھی کہاں چلا گیا اس بارے میں بھی کوئی پتہ نہ چل سکا جس باعث ممبران کی طرف سے رکھے گئے کئی منصوبے بھی التوا کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ اہم منصوبوں کی تعمیر کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو وہ بھی کچھوے کی رفتار سے جاری ہے نوممبر کے اخر تک گلگت بلتستان میں بجلی کے کئی اہم منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے ان کا بھی تاحال کوئی پتہ نہیں کہ واقعی وزیر اعلی گلگت بلتستان کے مطابق اس سال کے اخر تک غذر اور گلگت میں بجلی کے تین اہم منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جائینگے جس سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی دورانیہ میں کافی حد تک کمی ہوگی اگر اس سال واقعی میں اگر بجلی کے یہ تین منصوبوں کو مکمل کرکے ان سے بجلی کی فراہمی ہوتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہوگی مگر ان منصوبوں پر جس رفتار سے کام ہورہا ہے اگر ایسی رفتار سے کام جاری رہا تو ان منصوبوں سے بجلی کی فراہمی تک کافی وقت لگنے کا امکان ہے غذر میں بجلی کے بعض ایسے منصوبے بھی ہیں جو گزشتہ دس سالوں سے ان پر کام ہورہا ہے مگر تاحال یہ منصوبے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے جس کی اصل وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گلگت میں آرام کرنے والے محکمہ برقیات کے آعلی حکام صرف اپنے دفتروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور ان آفسران کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ غذر میں تعمیر ہونے والے کروڑوں روپے کے پاور پراجیکٹ کا جائز ہ لے سکے اورتو اور محکمہ برقیات اور تعمیرات کے سپر ٹنڈنگ انجینئرز کی مہینے میں پندرہ دن غذر میں ڈیوٹی ہے مگر یہ دونوں صاحبان پندرہ دن تو دور کی بات ہے مہینے میں ایک ہفتہ بھی غذر میں گزارنے کے لئے تیار نہیں جس باعث یہاں پرتعمیر ہونے والے اہم منصوبے مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہوتے وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے سی پیک سے اپنا صوبے کا حصہ لینے میں کامیاب ہونے کی اطلاعات ہیں اگر واقعی سی پیک سے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اپنا حصہ لینے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ سب کچھ کریڈٹ صوبائی وزیر اعلی کو جاتا ہے وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان اور کے پی کے میں سی پیک سے دس کھرب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں گلگت بلتستان اور کے پی کے میں اہم شاہراہوں کی تعمیر شامل ہے جس میں استور مظفر آباد روڈ ،گلگت سکردو روڈ ،گلگت شندور روڈ اور بابوسر ٹینل جیسے منصوبے شامل ہیں اس طرح چترال شندور روڈ اور کے پی کے کے دیگر اہم شاہراہوں کو بھی سی پیک میں شامل کر دیا گیا ہے اگر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت سی پیک میں اپنا حصہ لینے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کیلئے بلکہ مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کے لئے بھی نیک شگون ہے اگر ان شاہراہوں کی تعمیر کو سی پیک میں رکھا جاتا ہے تو گلگت بلتستان ترقی کی ایک نئی راہ میں داخل ہوگئی اور سالانہ اس خطے میں لاکھوں سیاح ائینگے جس سے یہ علاقہ ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوگااور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اپنا حصہ لینے میں کامیاب ہوتی ہے تو انے والے بلدیاتی اور صوبائی الیکشن میں اس سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اخر میں وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ گلگت اور غذر میں اس ماہ کے اخر تک مکمل ہونے والے بجلی کے منصوبوں کی تعمیرمیں تیزی لانے کے لئے محکمہ برقیات گلگت بلتستان کے اعلی حکام کو دفتروں کی بجائے ان منصوبوں پر روانہ کرنا ہوگا چونکہ اگر یہ آفسران خود ان منصوبوں کی نگرانی نہیں کرینگے تو نہ تو تھوئی پاور پراجیکٹ مکمل ہوگا نہ ہی سہلی ہرنگ پاور ہاوس بنے گا چونکہ تھوئی پاور پراجیکٹ کی مشینری ابھی تک برانداس کے قریب گزشتہ چار سالوں سے پڑی زنگ الود ہوچکی ہے اور تاحال اس مشینری کو تھوئی نہیں پہنچایا گیا ہے ایسے میں ان منصوبوں کا اس سال مکمل ہونا کی بات کرنادیوانے کا خواب نظر اتا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button