کالمز

میں چلاس ہوں

تحریر: فیض اللہ فراق

زمانے کے گرم سرد لمحوں کی داستان ہوں، میرے من میں تاریخ کے انگنت حوالے دفن ہیں۔۔ میں سنٹرل ایشا کی تاریخی گزرگاہ ہوں جہاں سے زمانے کی بڑی ہجرت ہوئی، میری تہذیب قابل تقلید ہے مگر ثقافت بعض دفعہ اذیت ناک بن جاتی ہے۔ میرے گزرگاہ خیال کو کبھی ابن بطوطہ کی اہٹ تو کبھی مارکوپولو کی قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ میں بدھسٹ تہذیب کا حوالہ ہوں، میں سید نور شاہ غازی بابا کی اشاعت اسلام کا قلعہ ہوں،

ویسے تو چلاس کا قلعہ بھی تاریخی ہے مگر جہاں ہماری جرات و بہادری کے کئی تمغے دفن ہیں، وہاں ہماری ماوں بہنوں کی جنگی مہارتوں اور مردوں کے عسکری جنون کی داستان بھی ہے۔ مجھے ایک زمانے میں ” سومونگر” ( the city of moon) سے یاد کیا جاتا تھا مگر زمانے نے میرے نام کے ساتھ بھی منفرد ارتقائی سفر طے کیا ۔۔۔۔ ” سومونگر” کے بعد زمانے نے مجھے ” چھلتاس” سے پکارا۔۔۔۔ میرے نام کا سفر یہاں نہیں ٹھہرا بلکہ ایک دور ایسا بھی آیا کہ لوگ مجھے ” چلاس” کہنے لگے۔۔۔۔

آج میں چلاس ہوں، میرے من میں محبتوں کا ہجوم ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ کرایہ داروں نے مجھے بدنام کیا ہے۔ میرے مکین جذباتی ضرور ہیں لیکن کبھی انہیں اندر سے دریافت کریں تو معلوم ہوگا کہ انہی جذبات کے پس منظر میں خلوص، وفا اور اپنائیت کے کئی رنگ ہیں۔ میں نانگا پربت کی ماں ہوں، بابوسر، ستیل، کھنبری اور فیری میڈوز میری اولاد ہیں جہاں فطرت کا حسن جھک کر ہر آنے والے کا استقبال کرتا ہے۔۔۔۔۔۔

ویسے تو میری صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے مگر میری اولاد آج میری تاریخ سے نابلد ہے۔۔۔ میرے وجود پر جس کسی نے قدم رکھنے کی کوشش کی مات ان کی مقدر بنی،۔۔۔۔۔ میرے بدھسٹ مکینوں کے یہاں سے جانے کے بعد سکھوں، ہندوں، ڈوگروں، انگریزوں سمیت اندر کے راجاوں نے جب جب مجھے محکوم رکھنے کی کوشش کی میرے بیٹوں نے انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔۔۔۔۔۔ میں دریائے سندھ کا میزبان ہوں، میں گلگت بلتستان کا دروازہ ہوں۔۔۔۔ میری کوکھ سے گلگت بلتستان کا پہلا سی۔ایس۔ایس آفیسر جہانگیر خان، پہلا ہواباز (پائلٹ ) بصیر خان، پہلا پی ایچ ڈی سکالر (ریاضی) ڈاکٹر سلیم جیسی شخصیات پیدا ہوئیں جبکہ میری ہی کوکھ سے روحانی دنیا کے معتبر حوالے غلام نصیر الدین عرف بابا چلاسی اور مجذب بابا پیدا ہوئے۔۔۔ میں مجذب بابا کا مدفن ہوں۔۔۔۔۔

میری چرا گاہوں کی خوشبو فطرت سے پیار کرنے والے کیلئے علاج ہے، میرے چشموں کا پانی پیاسوں کیلئے آب زم زم سے کم نہیں۔۔۔ اب دیامر بھاشہ ڈیم میرے سینے پر بننے جا رہا ہے۔۔۔ میں مستقبل میں پاکستان کیلئے معاشی حب ہوں۔ مجھ سے پاکستان کی خوشحالی وابستہ ہے۔

میرے بیٹوں میں پائی جانی والی منفی خصلتوں بغض، حسد، جذباتیت، عصبیت، تعصب، عدم تحقیق، ذاتی دشمنیاں ، تعلیم کی کمی اور انفرادی سوچ نے مجھے بھی اس بڑھاپے میں پریشان کر رکھا ہے۔۔۔ میری خواہش ہے کہ میرے مکین منفیت کے بجائے مثبت زندگی کے رخ کا انتخاب کرے کیونکہ میرا مستقبل شاندار بھی ہے پریشان کن بھی ۔۔۔۔ میں آنے والے زمانے سے خوف زدہ بھی ہوں کیونکہ آنے والا دور انتہائی برق رفتاری کے ساتھ ترقی پانے والا ہے۔۔۔۔ جدیت سے انحراف میرے مکینوں کو آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ میرا سماج عدم توازن کا شکار نہ ہوں۔۔ مجھے خوف ہے میرے جوان صرف چوکیدار، مالی، نائب قاصد اور مزدور بن کر زندگی کا بقیہ حصہ نہ کاٹ لیں۔۔۔۔۔

میرا خواب ہے کہ میرے جوان ہاتھوں میں تجربے اور ہنر کے ساتھ بڑی بڑی ڈگریاں لیکر آئیں۔۔۔ میرا جنون ہے کہ میرے جوان کام میں لگن لیکر میدان میں اتریں۔۔۔۔میرے جوان اپنے پیشے سے انصاف کریں۔۔۔ اپنی زندگی سے پیار کریں۔۔۔ دوسروں کے کام آئیں جبکہ قلم اور محبت کو اپنا ہتھیار بنالیں۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے تب آنے والے وقت بہاروں کا ہوگا جہاں میرے سینے پر پھول کھیلیں گے اور میرے وجود سے نکلنے والی خوشبووں سے ساری فضا معطر ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button