کالمز

مرد وں کے معاشی ، معاشرتی ، ذہنی اور نفسیاتی مسائل اور صنفی بنیادوں پر ہونے والا تشدد

جنس انسان کی حیاتیاتی ساخت ہے جبکہ صنف یا جینڈر انسان کے جنس کی مناسبت سے روا رکھے جانے والے معاشرتی رویے کا نام ہے، جس کے تحت کوئی معاشرہ مرد یا خاتون کے بارے میں الگ الگ تصورات رکھتا ہے اور اسی مناسبت سے ان میں کام تقسیم کرتا ہے۔ مثلاہمارے معاشرے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ خاتون وہ سارے کام نہیں کر سکتی جو مرد کرتا ہے جبکہ مرد کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ کام کرے جو گھر میں خاتون کے لئے مختص کئے جاتے ہیں۔ ان تصورات کو فروغ دینے میں سینہ بہ سینہ چلنے والی تاریخ ، روایات، ادب، شاعری ،میڈیااور نصاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔کسی معاشرے میں صدیوں سے سرایت شدہ ان تصورات سے لوگ گہری عقیدت رکھتے ہیں اور ایسے تمام نئے خیالات کو کفر قرار دیتے ہیں جو ان تصورات کو چیلنج کرتے ہوں۔دوسری طرف جدید دور کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ اب خواتین کی بڑی تعداد ان تمام شعبوں میں نمایا ں کار کردگی دیکھا رہی ہے جو ماضی میں صرف مردوں کے لئے مخصوص تھے۔ جیسے آج کی خاتون جنگی جہاز چلاتی ہے ، تمام کھیلوں میں اپنا لوہا منوا تی ہے، فوج ا ور پولیس جیسے اداروں میں بھی ہے جب کہ مرد بھی وہ تمام کام کرتے ہیں جو روایتی طور پر خواتین کے لئے مخصوص تھے۔ مرد اب کھانا پکانے، صفائی اور کپڑے دھونے جیسے کام کرتا ہے ۔ جیسے آج کل ہوٹلوں میں باورچی اکثر مرد ہوتے ہیں ، اسی طرح سویپر اور ڈرائی کلینر کا کام بھی مرد ہی کرتے ہیں اور ان کاموں سے بڑا منافع بھی کماتے ہیں۔ جدید دور کے بدلتے رجحانا ت کی وجہ سے کردار بدل گئے ہیں مگر اکثریت کی سوچ نہیں بدلی ہے۔ روایتی سوچ اور جدید دور کے تقاضوں میں ایک تصادم کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں صنفی عدم مساوات اورصنفی بنیا دوں پر ہونے والاتشددجیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں مرد اور عورت دونوں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے والوں کا خیال ہے کہ ساری خرابی کے جڑ مرد ہیں۔ جبکہ مرد وں کا خیا ل ہے تعلیم اور حقوق سے آگاہی کی وجہ سے خواتین بے قابو ہو چکی ہیں۔ دونوں جنس کے اپنے اپنے تقاضے ہیں اور دیکھا جائے تو دونوں کی بات درست لگتی ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قانون فطر ت کے مطابق مرد اور عورت دونو ں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ مرد اور عورت کے مسائل سانجے ہیں۔ وہ اگر ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہونگے تو ان کا حل بھی ڈھونڈ سکتے ہیں اور آرام کی زندگی گزارنے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے وگرنہ تشدد کی فضا ء قائم رہے گی۔

عورتوں کے مسائل کا اکثر تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔مگر اس بات کا ذکر نہیں ہوتا ہے کہ مرد کن مشکلات سے دوچار ہے جن کے سبب وہ گھر ، خاندان اور معاشرے میں مثبت کردار ادا نہیں کر پاتا۔ اس لئے آج ہم مرد وں کے ان ذہنی ، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا ذکر کریں گے جو نہ صرف مرد کی زندگی کے لئے نقصاندہ ہیں بلکہ ان کے ساتھ زندگی گزارنے والے بچے اور خواتین کے لئے بھی مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ہم مردوں کی اس نفسیات کو سمجھ جائیں تو اس کی مدد سے خواتین کے مسائل بھی حل کئے جاسکتے ہیں۔

یہ بات اکثر لوگوں کے لئے حیران کن ہوگی کہ دنیا میں خواتین کے عالمی دن کی طرح ہر سال ۱۹ نومبر کو ستر سے زائد ممالک میں باقاعدگی سے مردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دفعہ آغاخان ہیلتھ سروسز اور پی پی ایچ آئی کی مدد سے گلگت میں بھی یہ دن منایا گیا تھا۔ جس میں سکریٹری صحت گلگت بلتستان سعداللہ جان ، پی پی ایچ آئی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر سلیم، ڈی ایچ اوگلگت ڈاکٹر اسرار، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے صدر ڈاکٹر حنیف اور آغان ہیلتھ سروسز گلگت بلتستان کے فیاض کریم سیمت درجنوں مرد اور خواتین نے شرکت کی تھی۔ اس دن کو منانے کا آغاز تھومس اوسٹر نے ۷ فروری ۱۹۹۲ ؁ء کو کیا تھا۔ اس سے قبل ۱۹۶۰ ؁ء سے ہر سال ۲۳ مارچ کو روس میں ریڈ آرمی اور نیوی ڈے کے طور پر یہ دن منایا جاتا تھا ۔ بعد ازاں ۱۹ نومبر کو مردوں کا عالمی دن قرار دیا گیا اس کے بعد دنیا بھر میں ہر سال ۱۹ نومبر کو مردوں کا بین الاقوامی دن کے طور پر منا یا جاتا ہے۔اس سال اس دن کا موضع ” "Stop the male suicide تھا۔

اس دن کو منانے کے بنیادی مقاصد میں صنفی عدم مساوات کا خاتمہ، مردوں کے تجربات کو اجاگر کرنا، مردوں کی صحت کے علاوہ ان کے سماجی، جذباتی اور روحانی بہتری کے لئے اقدامات اٹھا نا ، مردوں کے بارے میں منفی تصورات کا خاتمہ، مردوں کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانا، مردوں کے رول ماڈل کو سامنے لانا، گھر ، خاندان اور معاشرے میں ان کے اچھے کردار کا تذکرہ کرنا اور سب سے اہم یہ کہ مردوں کی مدد سے ایک ایسا پرامن اور محفوظ ماحول پیدا کرنا جہاں لوگ خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ یعنی مجموعی طورپر مردوں کے سماجی اور نفسیا تی مسائل حل کرکے ان کو مزید کاآمد بنانا تا کہ وہ معاشرے میں مسائل پیدا کرنے کی بجائے ان کے حل کا سبب بنیں ۔ یہاں تک کی وہ صنفی مساوات کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ہمارے یہاں کے مردوں کے مسائل سمجھنے کے لئے سماج کو سمجھنا ضروری ہے۔ جیسا کہ سماج کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ” افراد کی ایک کثیر تعداد جو کہ منظم زندگی گزارتی ہو ، مل جل کر فیصلے کرتی ہو اور ضروری کام صلاحیتوں کے مطابق آپس میں تقسیم کرتی ہو” ۔ ماہرین عمرانیا ت کسی سماج کو چھ اداروں میں تقسیم کرتے ہیں۔جن میں خاندان، تعلیم، مذہب، معیشت، سیاست اور تفریح شامل ہیں۔ یہ تما م ادارے مل کر سما ج کی نہ صرف تشکیل کرتے ہیں بلکہ سماج کی مجموعی سوچ بھی ان اداروں کے زیر اثر ہوتی ہے۔ ہماری سماج ایک زبانی روایتی سماج ہے جس کو ہم روایتی سماج بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسی سماج جدید یا سائنسی سما ج کے بر عکس روایات اور طے شد ہ تصوارت پر قائم ہوتی ہے۔ ایسی سماج تحقیق ، جستجو اور لکھنے پڑھنے پر زیادہ یقین نہیں رکھتی ہے۔ ایسی سماج کے پاس مسائل کا حل سائنسی بنیا دوں پر نہیں نکلا جاتا بلکہ ان کا حل روایا ت میں ڈھونڈا جاتا ہے ،اور ایسی سما ج کی سوچ جاگیردارانہ اور مردوں کی بالادستی پر مبنی ہوتی ہے۔ ایسی سما ج میں مرد کا تصور روایتی ہوتا ہے یعنی مرد جنگجو ، شکاری، گھر ، خاندان اور قبیلہ کا کفیل اور سربراہ، امیر، دھن دولت کا مالک ،جاگیردار، پیر، مولانا، مضبوط اعصاب کا مالک، بہادر، دانشور وغیرہ ہوتا ہے ۔ جبکہ خاتون کا تصور حسین،صنف نازک، بچوں کو پالنے والی، ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور، گھر اور خاندان کی عزت، پردہ دار، حیا ء والی ،چادر اور چار دیواری کی مالکہ وغیرہ ہوتا ہے۔

ہماری سماج میں مرد چونکہ کفالت کا زمدار ہوتا ہے اس لئے ان سے بے شمار توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ جن میں ماں باپ کے لئے اچھا بیٹا ، بیوی کے لئے اچھا شوہر، بہن کے لئے اچھا بھائی، بچوں کے لئے اچھا باپ، بوس کے لئے اچھا ماتحت ملازم اورماتحت کے لئے اچھا بوس وغیرہ شامل ہیں۔ اچھا سے مراد یہ کہ وہ کفالت کا پورا بندوبست کرے، کنجوس نہ ہو، ہاتھ کا کھلا ہو اور جب بھی ان کی ضرورت ہو وہ عینک والا جن کی طرح ہر جگہ حا ضر ہو۔

اسی طرح مرد جب رشتہ لینے جاتا ہے تو جو شرائط رکھی جاتی ہیں ان میں مرد کا بہادر ہونا، تعلیم یافتہ ہونا، اعلیٰ خاندان کا ہونا، دھن دولت اور زمین کا مالک ہونا، بیوی اور سسرال کا تابعدار ہوناا ور اچھے عہدے پر فائز ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح مرد اگر ملازمت کا امیدوار ہو تو ان کے لئے شرط ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو، کئی صلاحیتوں کا الک ہو، لالچی نہ ہو، کم تنخواہ پر گزارہ کرتا ہو، وقتا فوقتا مالک یا بوس کی گالیا ں بھی برداشت کرتا ہے۔

اگر مرد ان تما م توقعات اور شرائط پر پورا نہ اترے تو گھر میں عزت نہیں ملے گی، ملازمت اور رشتے کا اہل نہیں ہوگا اور ساتھ ساتھ طعنوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ بھی شروع ہوگا۔ ماں باپ کہیں گے کہ ہمارا بیٹا نالائق، سست، بے روزگار اور بے کار ہے۔ اگر خوش قسمتی سے شادی ہوجائے اور وہ بیوی اور سسرال کا زیادہ خیا ل رکھے تو ماں باپ بہن بھائی سب مل کر کہیں گے کہ بندہ بیوی کا غلام ہے، اور اگر وہ ماں باپ کی طرف زیادہ مائل ہو تو بیوی کہے گی یہ تو مرا دشمن ہے۔ بہن بھائی اور رشتدار کہیں گے کہ اتنا اچھا بندہ تھا غلط رشتہ ملنے کی وجہ سے ضائع ہوا اور ماں باپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ہمسایہ کہیں گے اتنی چلاک بیوی ہے تعویز وں کی مدد سے بیوی نے اپنے سے باندھ رکھا ہے۔ ہماری سما ج میں مرد کے بارے میں ادب، شاعری اورمیڈیا میں کچھ stereotype خیالا ت بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے مرد اقتدار کا بھوکا ہوتا ہے، لاپرواہ ہوتا ہے، شرابی، بدمعاش، فضول خرچ، جرائم پیشہ وغیرہ ہوتا ہے۔ ان مشکلات کے علاوہ جدید دور میں مرد کے لئے سماجی تبدیلیوں کے بعد نئے مشکلات درپیش ہیں جن میں بنیا دی تبدیلی یہ ہے کہ آج کے بچے، بیوی پڑھے لکھے اور میڈیا کی وجہ سے سمجھدار ہیں لہذاآ ج نہ صرف ان کی توقعات مرد سے بڑھ گئی ہیں بلکہ وہ اپنے فیصلے بھی خود کرتے ہیں اور اکثر اختلاف رائے بھی رکھتے ہیں۔ آج بیویوں کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ ہے۔ کئی اداروں کی سربراہ خواتین ہیں اور مردوں کو ان کے ماتحت کام کرنا پڑتا ہے۔ ورکنگ خواتین اکثر گھر سے باہر ہوتی ہیں تو مرد کے زمے گھر کے کام بھی آجاتے ہیں اس کے باوجود کہ مرد کے ماں باپ نے ان کی کھبی یہ تربیت نہیں کی ہے کہ وہ گھر کے امور یعنی کھانا پکانا، صٖفائی کرنا ، بسترے بچھانا ، برتن دھونا وغیرہ جیسے کام سرانجام دے سکے۔ اس کے باوجود اگر مرد یہ سب مجبوری میں کرتا ہے تو ان کے روایتی ذہن اور جذبات کو ٹھیس پہنچتا ہے اور وہ دل سے ان کو قبول نہیں کرتا ہے ۔

گو کہ مرد کا روایتی رول اب ختم ہوتا جارہا جب کہ اس کی ذہانت اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ گھر ، خاندان اور معاشرے کی ان سے وابسطہ توقعات اور ان توقعات کے پورے نہ ہونے پر ملنے والے طعنوں کے علاوہ صنفی مساوات کے تصور کی صورت میں مرد کی روایتی برتری بھی اب خطرے میں ہے جس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی روایتی مردانگی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتی ہے جس کے نتیجے میں مرد کے اندر نفسیاتی امراض کا پنپنا فطری امر ہے۔

اس پر جلتی کا کام بعض Fehminist تحریکوں نے بھی کردیا ہے جو کہ صنفی مساوات کی جگہ مرد دشمن تصوارت کو فروغ دیتی ہیں، وہ مرد کو ظالم بنا کر پیش کرتی ہیں۔جس کا نتیجہ ہے کہ مردوں کا خیال ہے کہ خواتین کے حقوق کے لئے بنائے گئے قوانین کو

Gender neutral بنانے کی بجائے ان میں مرد وں کے خلاف شقیں شامل کی گئی ہیں۔ یہی وجوہات ہے کہ وہ Male Chauvinism کے تصورات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں آ ض مردوں کے حقوق کی کئی تحریکیں بھی چلتی ہیں۔ ہمارے ہاں کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے حقوق مرداں بل لانے کا اعلان کیا ہے۔ جو کہ پنجاب اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خلاف لائے گئے بل کی مخالفت میں لایا جارہا ہے۔ مردوں کے اس طبقے کا خیا ل ہے کہ خواتین کے حقوق کی حد سے زیادہ پرچار اور مرد مخالف تحریکوں نے صنفی بنیادوں پر تشدد کو فروغ دیا ہے۔ ۲۰۱۰ ؁ء میں رائٹس رائٹس نامی تنظیم کے صدر یوسف جمال نے مظفر گڑھ میں پہلی دفعہ مردوں کا عالمی دن منایا تھا جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان میں تعلیم کے میدان میں صنفی عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن میں خواتین آگے نکل رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کراچی یونیورسٹی میں ۹۰ فیصد، پنجاب یونیورسٹی میں ۷۰فیصد اور بہاولدین ذکریا یونیورسٹی میں ۵۲ فیصد لڑکیا ں پڑھ رہی ہیں۔

مردوں اور خواتین کے درمیان اس صنفی کشمکش نے مردوں اور خواتین کو، ذہنی ، نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ مگر سب سے زیادہ مرد نفسیاتی دباؤ میں مبتلا ء ہے۔ جس کی وجہ سے وہ تشدد کا سہارا لیتا ہے جس کی شکا ر اکثر خاتون ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں مرد اور خواتین دونوں عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ ملک میں غیرت کے نام پر قتل، خودکشی، منشیات کا استعمال، گھریلوتشدد، صنفی بنیادوں پر تشدد، بے راہ روی، جنسی حوص کا نشہ، مختلف جرائم ، ٹریفک حادثات، منفی رویے، گرتی ہوتی جسمانی و ذہنی صحت سمیت دیگر بے شمار مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

اعداد و شامر کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کے نتیجے میں خواتین کے مقابلے مردوں کی اموات چار گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر گلگت بلتستان کی مثال دی جائے تو ۲۵ ہزار نفوس آبادی پر مشتمل وادی گوجال میں ۲۰۱۴ ؁ء سے ابتک ۱۲ افراد نے خود کشی کی ہے جن میں ۷ نوجوان اور پڑھے لکھے مرد تھے۔ ۲۰۱۱ ؁ء سے ابتک گلگت بلتستان میں ۸۴ افراد نے خودکشی کی ہے جن میں اکثریت مردوں کی ہے۔

غیرت کے نام پر قتل ،مردوں کی روایتی سوچ کے علاوہ نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ ہے ۔پاکستان میں سالانہ ہزاروں مرد اور خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ غیر کے نام پر قتل ہمیشہ مرد کرتا ہے آج تک کسی خاتون نے کسی مرد کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا ہے۔ ۲۰۱۵ ؁ء میں گلگت بلتستان میں غیرت کے نام پر ۵۰ افراد قتل ہوئے جن میں نصف سے زائد مرد تھے۔ ایک شخص نے اپنی بہن اور اور ان کے منگیتر کو صرف اس لئے قتل کیا کیونکہ وہ فون بات کرتے تھے۔

جنسی حوص بھی مرد کی ایک نفسیاتی بیماری ہے ۔ آج تک کسی خاتون نے کسی مرد کو جنسی حوص کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔پاکستان میں جنسی تشدد اور اجتماعی زیادتی کے بے شمار وقعات ریکارڈ ہوتے ہیں ۔ گلگت بلتستان میں کچھ سالوں میں چند سنگین جنسی تشد د اور اجتماعی زیاتی کے واقعات رونما ء ہو چکے ہیں۔ جن میں نو عمر لڑکیوں کو جنسی حوص کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ چھوٹے بچوں کو جنسی زیاتی کا نشانہ بنانے کے بھی بڑے واقعات پیش آئے ہیں جن میں گلگت میں دو معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد ان کو قتل کرنے کے دردناک واقعات بھی شامل ہیں۔ مردوں کو درپیش سماجی مسائل اور ان مسائل کی وجہ سے پیدا شدہ نفسیاتی امراض کی فہرست بہت لمبی ہے۔

منشیات کا استعال ایک بہت بڑا سماجی مسلہ ہے جسکا مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر دوسرا مرد منشیات کا استعال کرتا ہے۔ اسی طرح غصہ مرد کا بڑا مسلہ ہے وہ اس پر قابو پانے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔تشدد کی ایک بڑی وجہ غصہ پر قابو نہ پانا ہے ۔ ہمارے ہاں اس کو نفسیاتی بیماری نہیں سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک بڑی بیماری ہے۔ مردوں میں تعلیم کی طرف رجحان کم ہونا بھی ایک بڑا مسلہ ہے ۔ غربت کی وجہ سے لوگ اپنے کم عمر بچوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا دیتے ہیں۔ کم آمدنی بھی مرد کا بڑا مسلہ ہے جس کی و جہ سے وہ اپنے کنبے کی کفالت نہیں کر پاتا اور وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ خطرناک جگہوں میں کام کے نتیجے میں مردوں کی ہلاکتیں بھی مردوں کا سماجی مسلہ ہے جس کی مثال حالیہ گڈانی میں بحری جہاز کا واقعہ ہے۔ خاندانی تنازعات اور ساس بہو کی لڑائی بھی ایک بڑا مسلہ ہے جس کی وجہ سے مرد نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔مردانگی کے زعم کا شکار مرد اپنے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے بھی مشکلا ت میں گرا ہو تا ہے۔ بے روزگا ر ی، غربت اور کم آمدنی کی وجہ سے مرد جرائم کی طرف بھی جاتا ہے۔فرقہ واریت اور دھشت گردی میں بھی مرد ہی کام آتا ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مرد کو ہزار نفسیاتی امراض لاحق ہوں مگر وہ اپنی ر وایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانے سے گریزاں ہوتا ہے ۔ وہ ڈھنگ سے اپنے جسم اور بیٹھنے کی جگہ کی صفائی بھی نہیں کرتا یہ اس کی نفسیاتی بیماری کی علامت ہے۔

مردوں کے ذہنی دباؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صنفی تصادم کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور خاندان جیسی معاشرے کی بنیادی اکائی کمزور ہوتی جارہی ہے۔

باقی دنیا نے مردوں کو درپیش مسائل کا ادارک ہم سے پہلے کیا ہے اور دنیا کے کئی ممالک نے ان مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتہا پسندانہ اور تشدد کے رجحانات پر قابوکے لئے منصوبہ بندی بھی کی ہے۔ مردوں کے عالمی دن کی مناسبت سے امریکہ نے ۲۰۱۲ ؁ء سے ۲۰۲۲ ؁ء تک دس سالہ منصوبہ بنایا ہے جس میں مردوں کے مسائل کا تدارک کیا جائے گا۔ اسی طرح سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک بو سٹوانا نے بینک کے ملازم مردوں کے لئے Paternity leave کا اعلان کیا ہے تاکہ مرد اپنے بچوں کے لئے وقت دے سکیں۔

ہمارے ہاں مردوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی صحت سے متعلق آگاہی کے لئے کوئی تربیتی ادارہ نہیں ہے جہاں ان کو اچھا باپ، شوہر، بھائی اور معاشرے کا اچھا فرد بنانے کی تربیت دی جاسکے تاکہ مرد تشدد ، جرائم ، منشیات کی طرف راغب نہ ہوسکے، وہ جنسی حوص، بے راہ روی سے گریز کرے اور خود کو نفسیاتی دباؤ سے بچاتے ہوئے صحت مند زندگی گزار سکے۔میڈیا بھی اس ضمن میں کوئی رول ادا نہیں کر رہا ہے ۔ایک صحت مند ذہن کا مرد ہی اپنے آس پاس خواتین اور بچوں کو خوشگوار زندگی دے سکتا ہے وگرنہ ایک نفسیاتی مریض سے اچھائی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ ایک ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جہاں صنفی تصادم کی بجائے صنفی مساوات سے متعلق آگاہی دی جائے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے سے نفرت کی بجائے ساتھ مل کر ایک خوشگوار زندگی گزارنے کی بنیا دی اصولوں سے آشنا ہو سکیں۔ اس ضمن میں اچھے مرد اور خواتین کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر مردوں کو اپنے نفسیاتی مسائل پر قابو پانے کے لئے کونسلنگ کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں سائکاٹرسٹ اور سائکالوجسٹ

تعینات کئے جاسکتے ہیں۔میوزک،ادب، کھیل اور تفریح کے دیگر زرائع فراہم کئے جاسکتے ہیں اور مردوں خصوصا نوجوانوں کو ان کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ یوگا اور spiritual therapy کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ فوری نوعیت کے مسائل پر قابو پانے کے لئے ہیلپ لائین بنائی جاسکتی ہے۔ جبکہ مردوں کی خودکشیوں پر قابو پانے کے لئے آج تک جتنی خودکشیاں ہوئی ہیں ان پر تحقیق کر کے ان کے تدارک کے لئے لائحہ عمل تیا ر کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑ ھ کر یہ کہ صنفی تصاد م کی بجائے صنفی مساوات کی تعلیم نصاب میں شامل کی جاسکتی ہے تاکہ مرد وں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ صنفی تصادم یورپ سمیت پوری دنیا کا بڑا مسلہ ہے مذکورہ تمام اقدمات کے ذریعے صنفی تصادم کو روکا جاسکتا ہے ورنہ بدلتے حالات میں خاندان کی آکائی کے خاتمے کے علاوہ معاشرہ نت نئے مسائل سے دوچار ہو سکتا ہے۔

نوٹ( یہ کالم ان خیالات پر مبنی ہے جو کہ ۱۹ نومبر ۲۰۱۶ ؁ء کو مردوں کے بین الاقوامی دن کے موقع پرپریس کلب گلگت میں منعقد ہونے والے سمینا ر میں راقم نے اپنی تقریر میں پیش کیا تھا)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button