کالمز

نسوانی حقوق اور انسانی حقوق 

تحریر : حاجی سرمیکی

سائنسی ترقی اور تعمیری تجربات کی وسعتوں نے وقت کو تیز اور حدود کو محدود کردیا ہے ۔ رابطہ کاری میں بہتری اور تیزی سے تعلقات عامہ موثر ہوچکا ہے۔ تعلیم، اخبار اور جہاں بینی میں بیش بہااور نمائیاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں داری میں بھی مثبت اور منفی جہتیں اور رجحانات پیدا ہوئے ہیں ۔ ضروریات انسانی میں عیش و نشاط اور تن آسانیاں بڑھ رہی ہیں ان کا حصول براہ راست انسانی اجتماعی یا سماجی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔معاشی برتری اور وسائل پر تسلط جمانے کے لئے بڑی شازشیں جنم لے رہی ہیں ۔ جنگیں اب روایتی چال چلن سے ہٹ کر لڑی جارہی ہیں ۔ایسے میں تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں بہتری سے شعور و آگاہی میں کے ساتھ ساتھ بہتر زندگی گزارنے کے طریقے آشکارہوتے ہیں وہاں محرومیوں، تعصبات، جبر واستحصال ،کھوکھلے نظریات اور فرسودہ وغیر نافع رسوم ورواج کے خلاف باغیانہ سوچ جنم لے رہی ہے۔مختلف ومتضاد تحریکیں برپا ہورہی ہیں ۔ ان میں سے چنداں من جملہ انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ہیں تو چند مخصوص یا گروہی سطح پر ہونے والی ناانصافیوں اور محرومیوں کے ازالے کے لئے برسر پیکار ہیں ۔ گروہی یا مخصوص سطح پر اٹھنے والی تحریکیں بنیادی انسانی حقوق کو وسعت دیتی ہیں ۔ ان کی کامیابی کا دارومدار بھی بنیادی انسانی حقوق کی دستیابی پر ہوتا ہے۔ دنیا میں نسلی امتیازات، نظریاتی اختلافات، عقائد میں تصادم اور جبر و استحصال کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی خونیں اور بھیانک بھی ہے۔ چونکہ انسانی حقوق میں سے بنیادی حقوق کا تعلق صحت مند اور خوشگوار زندگی سے ہے اس لئے انسانی آبادی میں اضافے، وسائل کا بے دریغ استعمال اور روابط و تعلقات عامہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی اور پائیداریت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ مثلاخوارک میں کمی، آبی و زرعی وسائل پر قبضے کی جنگ کا سبب بنتی جارہی ہے۔ بھاری مشینوں اور ذرائع نقل و حمل کا تیل پر انحصار ، کوئلہ گیس ، آبی ذخائر اور گلیشیئرزاور دیگر معدنیات کے ذخائرکی اہمیت میں اضافے اور حصول میں تگ و دواور تقسیم و قبضے کے لئے جنگ و جدل اور سفارش و سازش کا موجب بنتا جارہا ہے۔ ایسے میں کمزور ریاستوں، سماج اور گروہوں کا جسمانی یا نفسیاتی طور پر زیر نگیں آنا اچھنبے کی بات نہیں۔ محرومیاں جہاں نفسیاتی دباو اورپست ہمتی کی باعث بنتی ہیں وہاں باغیانہ اور تباہ کن نتائج کی سبب بنتی ہیں ۔ تیز تر ابلاغ و وسائل ان تحریکوں کی کامیابیوں یا اثرات کو بہت کم وقت میں کونے کونے تک پہنچاتے ہیں اور اس تحریک کو وسعت اورحمیت دینے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ ایسے میں ترقی یافتہ قوموں اور ریاستوں میں پنپنے والی تحریکوں کے زیر اثر ترقی پذیر اور پسماندہ سماج اور ریاستوں میں بھی انہی طرز کی تحریکیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ان گروہی تحریکوں کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ، لیکن پس و پیش میں وقت ، حقائق اور شماریات سے مبریٰ تحریکیں دیکھا دیکھی میں شروع ہوجاتی ہے، ایسی تحریکیں بے نتیجہ ، وسائل کا ضیاں اور سماجی نفسیات پر منفی اثر ڈالنے کا سبب بنتی ہیں ۔یقیناًانسانی اور سماجی نفسیات حیات و ممات کی حد تک وقت،جگہ اور عقائد سے مبریٰ ہی سہی لیکن ان سے جڑی اشتراکیت ، سماجیت اور طرز بودوباش جغرافیائی تنوع اور فکری و شعوری ترقی اور فعالیت پر منحصر ہوتی ہیں ۔ایسی تحریکوں میں تبدیلی بہت سست رو ہوتی ہے اس لئے ترغیب و تبلیغ کے طریقوں کو انسانی نفسیات ، فکر اور شعور کی پختگی کے پیش نظر ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی ماورائے عقل و شعور، پیش نظر کو جھٹلانے والے اعداد و اشارے ، بے تکی اور حقیقت سے دور کے حوالے ان تحریکوں میں شبہات پیدا کرنے کے باعث بنتے ہیں جس کی وجہ سے تحریک اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ تحریک چلانے والے افراد اور تنظیمیں یا گروہ ، ان کی شناخت، سماجی پہچان، فکر وعمل ، اصول پسندی اور استقامت بھی براہ راست قول و فعل پر اثر انداز ہوتی ہے جو کسی بھی تحریک کی جان ہوتی ہے۔ فی زمانہ سماجی بہبود اور اجتماعی ترقی کی دعوے دار تنظیمیں نفسیاتی اور رویوں میں تبدیلی کی تحریکوں یا منصوبوں کو بھی اتنی ہی آسانی سے لیتی ہے جتنی آسانی سے وہ مادی ترقیاتی سرگرمیوں کو انجام دیتی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اصناف و اجناس میں سے کسی کو حق حاصل نہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ حق کیوں حاصل نہیں ۔ یہ معمہ اتنا سہل بھی نہیں کہ جیسے زبان سے ادا ہونے میں لگتا ہے۔ اس کے پس و پیش و مادی و نفسیاتی عوامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح طبقہ بندی، معاشرتی زیروبم کا باعث بنتے ہیں ۔ اب ان کو حل کرنے کی بات کی جائے تو ترقی یافتہ ممالک میں جہاں لوگوں کو کم سے کم بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، رسائی یا دستیابی حاصل ہونے ، تعلیم و میدان عمل میں متوازن رویوں کے حامل ہونے اور اجتماعی سماجی انصاف کی طرف رغبت کے اشاروں میں حوصلہ افزاء اضافوں کی بنیاد پر دیگر ثانوی مسائل کی بات طے کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس ترقی پذیر معاشروں میں جہاں انسانی نفسیات و عمل افراتفری ، انفرادیت ، غیر منظم اور طبقاتی رویوں میں بٹی ہوئی ہوں وہاں اولین ترجیحات کو پس پشت ڈال کر ثانوی حیثیت کی حامل ترجیحات پر رغبت و تبلیغ غیر نتیجہ خیز رہتی ہیں ۔حقوق اور فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں وہاں فرائض پر بھی غور ہونا چاہیے۔ تاہم خاموشی کسی بھی طور اطمینان کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتی۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں محروم طبقات کی خاموشی کو تسلیم وطمانیت سے تعبیر کی جاتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ غیر ذمہ دارانہ طرز حکومت میں رعایا کی خاموشی یا خاموش رکھنے کے لئے مختلف ہتھگنڈے یا طاقت کا استعمال، طاقت کے استعمال کا خوف، یا پھر ادیان و عقائد میں جبر و استحصال کرکے متعلقات و پیروکاران کو بعینہ خاموش رکھنا یا رہنے پر مجبور کرنا بھی حق تلفی ہی ہوگی۔ حقوق کی فراہمی کا عمل کسی ایک نظریے ، اس سے متعلق ہر اول دستوں یا ملازموں کی ذمہ داری نہیں البتہ ہر صاحب فہم و فراست،اہل شعور وارباب علم و دانش پر ایسے ہی واجب ہے جیسے اسے زندگی گزارنے کے لئے جن بنیادی عوامل کی ضرورت ہے۔ اگر مادی اعتبار سے زندگی فراہم کرنے والی اشیاء کو ہم اہم ترین اور سرفہرست شمار کریں تو نفسیات میں فرائض کی ادائیگی اور حقوق کی حفاظت کو ان سے کم تر مقام نہیں دے سکتے۔ ایک صاحب فہم و فراست اور ذمہ دار شخص کے لئے زندگی میں سب سے اہم علم اور عمل ہوتا ہے۔ اگرزندگی ایکبارگی ہی عطا ہونی ہے اور فنا کا ایک دن معین ہے تو اس زندگی کی قدردانی اور اس کی اہمیت سے آگاہی کا معنی ٰ ہی یہی ہے کہ زندگی پر قربان ہونے سے زندگی کو قربان کر دی جائے۔ دوسری طرف شعور و عمل میں بہتری کے لئے فراہم کردہ وسائل پر یہ چھان بین نہیں کی جانی چاہیئے کہ اس کے ذرائع کیا ہیں۔ یعنی کیا اگر انسانی نجاست وفضلات، مردار و گلی سڑی اشیاء زمین کی زرخیزی بڑھاتی ہے تو کیا اس سے اگنے ، نمو پانے اور پھل و پیداوار دینے والی فصلیں بھی ناجائز ہوں گی؟۔ ہاں لیکن ہر اگنے والی فصل ایک جیسی بھی نہیں ہوتی۔ کچھ ضرررساں فصلیں نہ صرف پیداوار بلکہ صارفین کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں جنہیں تلف کرنا یا ان کا استعمال ترک کرنا دانشمندی ہے۔ اس نقصان کو تجربے اور حقائق کی روشنی میں جانچا جانا اور نقصان دہ اثرات کو کم سے کم کرنا بھی اگلی فصل کی کاشت سے زیادہ اہم کام ہے۔ حقوق نسواں پر ترقی پذیر ممالک میں کام کا نتیجہ اتنا تسلی بخش نہیں رہا ہے۔ جسے سمجھنے کے لئے محروم کنندہ و محروم شدہ دونوں طبقات کی ترجیحات، توضیحات اور ملحقات کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے۔ سب سے اہم مرحلہ یہ ہے کہ اگر مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل ہونا شروع ہو تو ہر مسئلہ خوش انجام اطوار سے حل پذیر ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہر مسئلہ خود ایک پرچھائی ہے جو کسی نظام میں موجود نقائص، رویوں میں موجود تعصبات، عمل میں موجود جہالت اور انتظام و انصرام میں موجود تضاد کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ من جملہ سماجی نفسیات کا حل اور ترغیب و تبلیغ کا احسن طریقہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں پنہاں ہے مابعد کی ساری شکایتیں یکے بعد دیگرے حل طلب اور اہمیت کی حامل ہیں۔وما علینا الالبلاغ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button