میں تاریخ کو ہی نہیں مانتا یہ میرا وہ جملہ ہے جس سے میرے کافی دوست اختلاف کرتے ہیں اورآپ بھی شاید اختلاف رکھتے ہو۔
میں تاریخ کو کیوں مانوں؟ کیونکہ ہرواقعہ کا ایک راوی نہیں ہوتا ۔ جتنے زیادہ راوی اتنے ہی طرح طرح کے انکشافات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ مجھ جیسا کم فہم مانے تو کس کی بات مانے۔
چلیے اس سوچ کو سمجھنے کے لیے ہم خود تاریخ سے ہی مدد اور اسی سے بات کرتے ہیں۔یہان ہم صرف کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن سے آپ بھی سمجھ جائیں گے کہ ہاں میں بھی تاریخ کو نہیں مانتا ہوں۔
تاریخ کا ہی حوالہ دینے سے پہلے ایک تاریخ دان کا تاریخی بیان بیاں کرتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک تاریخ کو سمجھنے کے لیے بہت سی کتابیں پڑھنا پڑھتا ہیں۔ کیوںکہ یہ لوگ بھی خود ایک تاریخ کو نہیں مانتے۔
چلیے تاریخ شروع کرتےہیں۔ حضرت ادمؑ کی جنت میں داخل ہونے پر تو سب متفق ہے لیکن جنت کونسی ہے اس میں اختلافات ہیں۔
اس بات سے لیکر کہ ابلیس کی پیدائش کس چیز سے ہوئی سب متفق نہیں، اصحاب کہف کی تعداد پر تو سالوں سال جنگ جاری رہاہے۔
حتیٰ کی حضرت تاجدار کائنات ﷺکی پیدائش پر بھی مسلمان ایک صفحے پرنظر نہیں اتے۔
نور اور بشر ہونے پر مورخین میں اختلافات تو ایک الگ کہانی ہے جس کا اندازہ اس موضوع پر رقم شدہ کتابوں کی تعداد سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔
باغ فدک تو اختلافات کی ایک اور تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
امامت اور خلافت پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
حضرت امام حسنؑ ، امام حسیںؑ کی شہادت ، حضرت معاویہ کی صحابیت ہونے پر، یزید پر، غدیر خم کا واقعہ اور کربلا کے میدان میں بھوکے پیاسے ہونے اور نہ ہونے پراختلاف ہی اختلاف ہیں۔
ہرچیز اور واقعات پر نہ صرف اختلافات ہیں بلکہ ہر ایک کے پاس اپنے اختلافات کے دفاع میں ناقابل تردید دلائل بھی موجود ہے۔ مجھ جیسا کم علم ایسے مواقع پر الجھن اور تذبذب کا شکار رہتاہے۔
میں کونسی دلیل کو مانوں اور کس کی نہ مانوں ۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں تاریخ کو ہی نہیں مانتا کیونکہ تاریخ مجھے سمجھانے کے بجائے تذبذب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔
عقائد میں اختلاف، عملیا ت میں اختلاف، خود تواریخ میں اختلاف یہاں تک کہ نماز، روزہ، زکوٰتہ ، حج اور کلمہ طیبہ بھی اختلاف سے خالی نہیں ۔
اللہ کو دیکھنے ، نہ دیکھنے پر اختلافات،محمد روسول اللہ کانفرس اور سیرت محمد ﷺ کانفرس میں اختلاف موجود ہیں۔
عید کی تعداد، طرز حکمرانی، رسم قل، رسم ورواج الغرض ہر چیز میں تاریخ نے اختلافات کے انبھار لگے ہیں۔
مخالفیں نے اپنی اپنی باتیں ، واقعات اور تواریخ کو منوانے کے لیے طرح طرح کی باتیں ،تشریحات، اقولات اور واقعات ، جو ایک عام ذہن انکار نہ کرسکتا ہو، پیش کیے ہیں۔
میں نے پہلے اسلامی واقعات کی اسلیے نشاندہی کی ہے کیونکہ مسلمانوں میں اختلافات کچھ حد سے زیادہ ہے۔کس کی مانوں ، کس کی نہ مانوں۔ تاریخ ہی ہے جو مجھے سکون دینے کی بجائے شگون میں مبتلا کردیتے ہیں۔
کتابوںمیں اختلاف، انٹرنٹ پر اختلاف، اور مشنیں تو اختلاف ہی پیدا کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ایٹم بم تو اسی لیے ہی بنایا ہے۔ ٹینک، توپیں،مزایل اور طرح طرح کے اوزار تو تاریخ کے اختلاف پر ہی منحصر ہے۔
طرز معاشرت، طرز معاملات، طرز کاروبار، اصول و قوانیں، احکام و ہدایات، منصوبہ بندی، یہاں تک کہ طرز زندگی ہی اختلافات سے بنی ہوئی ہے۔اور یہ سب تاریخ کا ہی مرہوں منت ہے۔
یہ چاند، یہ ستارے، سیارے، سورج الغرض ہر چیز پر تحقیقات ہوئےہیں ہر ایک نے اختلاف ہی بیان کیے ہیں۔
زمیں کو مانتے ہیں پر آسمان کے بارے میں اختلاف، کائنات پر اختلاف یہاں تک کہ ریگستان، صحرا، پہاڑ پر بھی اختلاف ہی تو ہے۔
اپنی انا، اپنا من، ارادے، راستے ، صورت، سیرت ، ذات، عمل حقوق، امتحان، شوق، محبت، شناخت، جلوت، خلوت، زباں، دوست، دشمن ، منزل، مقصد، دنیا، آخرت حتیٰ کہ زندگی اور موت بھی تاریخ کے وساطت سے اختلاف کا شکار ہے۔
میں اختلافات میں پڑنا نہیں چاہتا اسلیے تاریخ کو نہیں مانتا کیونکہ یہ سب تو تاریخ کا عمل بھی ہے اور کمال بھی۔اگر تاریخ نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا، نہ اختلافات، نہ ذات پات، نہ امیرغریب۔ یہ سب مورخیں کا ایجاد کردہ ہے۔تاریخ مجھے وحدت کے بجائے کثرت کی طرف دعوت دیتی ہے۔اسلیے تاریخ سے انکارکر رہا ہوں۔
میں دعوٰی کرتا ہوں کہ آپ بھی تاریخ کو نہیں مانتے کیونکہ آپ کے اندر بھی انا ہےکوئی آپ کے خلاف کوئی دلیل پیش کرے تو آپ نہیں مانیں گے۔ آپ صر ف اور صرف ان واقعات اور تاریخ کو مانتے ہیں جس سے آپ کی سوچ، عمل، فکر اور معاملات ملتے ہو۔
اگر تاریخ آپ کے خلاف بولے تو آپ تاریخ کو ماننے سے انکار کررینگے۔ فرق صرف ا تنا ہے کہ آپ خفیہ طور پر انکار کا اعلان کرتے ہیں اور میں کھلا عام اعلان کررہا ہوں۔ورنہ آپ بھی باغی ہے اور میں بھی۔
لہذا میں چند وجوہات پیش کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں۔
میں تاریخ کو نہیں مانتا کیونکہ میں اختلافا ت کی جنگ میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا۔.1
میں کثرت کے بجائے وحدت کو ترجیح دیتا ہوں۔ .2
میں واقعات کی تاریخ سے زیادہ واقعا ت کی حقیقت کو مانتا ہوں۔.3
مجھے تاریخ سے زیادہ کام کی نوعیت پسند ہے۔.4
میں تاریخ سے زیادہ سوچ، فکر، خیالات کو ترجیح دیتاہوں۔.5
۔حقیقت تاریخ سے زیادہ حقیقت اعمال سے فائدہ ہے6.
۔7۔تاریخ لکھنے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے اور کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔
8۔مورخ کے بھی کچھ خاندان، رشتہ دار ہونگے وہ ان کے خلاف کیسے لکھ سکیں گے؟؟؟۔
9۔ ایک واقعہ کو کئی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
10۔تاریخ قاتل اور مقتول دونوں کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخر تاریخ مجھے اطمینان کی راہ سے نکال کر بے چینی کی راہ پر کیوں ڈالتے ہیں لہذا میں تاریخ کو کیوں مانوں ؟؟؟؟
نوٹ:اس موضوع (یعنی میں تاریخ کو کیوں مانوں ) کو پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ایک دفعہ اس کا جواب(یعنی ہاں میں تاریخ کو مانتا ہوں) بھی ضرور پڑھیں۔کیونکہ یہ دونوں پڑھے بغیر میرا نقطہ نظر مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہی قاری کو وجہ اختلاف سمجھ آئیگی۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Hum ap ko jawab q de??