کالمز

ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے 

محض ڈیلی ٹائم کی ایک خبر پر اتنا طوفان ،حیرانگی ،تبصرے ،دشنام طرازیاں اور واویلا ہے تو زرا سوچیں موجودہ ،، سپلائی کور،، اور سابق سپلائی کورکے تمام کالے کرتوتوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹے تو کیا ہوگا ؟کچھ نہیں ہوگا ،چند دن تک غیرت برگیڈ کی توپوں کا رخ سپلائی کور کی طرف ہوگا خوب بمباری اور پھر خاموشی ،سب اچھا ہے کی رپورٹ آئے گی کیونکہ وقت کی گردشوں اور رویوں کی تبدیلی نے زندگی کے معیار کو یکسر تبدیل کر دیا ہے ،عزت ضمیر اور غیرت کے الفاظ اپنی معنی کھو چکے ہیں ،ابن الوقتوں کیلئے آسانیاں اور صاحب کردار لوگوں کیلئے مشکلات کے پہاڑ،عزت اور بے عزتی کے معیار ہی الٹ گئے ہوں تو وہاں ایسی خبروں کی کیا اوقات،ہاں البتہ ایسی خبریں مردہ ضمیر معاشرے کیلئے تفریح طبع کا سامان ضرور پیدا کرتیں ہیں ۔۔

جیسے جیسے وقت کی گھڑیاں قرب قیامت کے کانوں میں ٹک ٹک کرتیں ہیں ایسے ایسے معاشروں اور انسانوں میں تبدیلیاں بھی رونما ہوتیں ہیں ان میں ایک تبدیلی یہ بھی ہے کہ کردار ، قابلیت، شرافت،پرہیز گاری،علم و دانش اور اعلی ظرفی کی موت واقع ہوتی ہے ،ان صفات کا زکر صرف کتابوں اور داستانوں تک محدود ہوتا ہے ،صاحب علم ،صاحب دانش ،صاحب کردار،نیک و پرہیز گار لوگ گوشہ نشین ہوتے ہیں کیونکہ آداب شاہی بجا لانا ان کے بس کا روگ نہیں ،

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے

ایسے میں وہی لوگ آگے آتے ہیں جو آداب دربار سے بھی آشناہوتے ہیں اور حرف ضمیر کا گزر ان کے قریب سے بھی نہیں ہوتا ہے اسی قبیل کے لوگ معاشرے میں معتبر ٹھہرتے ہیں ۔اعلی حکومتی عہدے اور مراعات کیلئے عزت کو طشتری میں رکھ کر میر دربار اور دربار کے نورتنوں کو پیش کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں ۔

ڈیلی ٹائم میں ایک خبر کیا چھپی ہر طرف ہو ہو کار مچی ہے حالانکہ پردے کا اک سرا ہی اب سرکا ہے پردے کی اوٹ کی اس طرف وقت کے نام نہاد بڑے بڑے شرفا کے چہرے جلوہ گر ہیں ،اس خبر میں کم سے کم میرے لئے حیرانگی کا کوئی پہلو نہیں کیونکہ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں بڑے بڑے شرفا کو عزتوں کی طشتری پیش کر کے بدلے میں چند ٹکے اور ایک آدھ عہدہ حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے،،،،،،ستم کہ پھر یہی شرفا اپنی ہر تقریر اور تحریر میں عزت اور لفظ ضمیر کا پرچار کرتے ہوئے نظر آئے ،میرے لئے باعث حیرت کا کوئی پہلو اس لئے بھی نہیں کہ بڑے بڑے شرفا کو اپنی ان گنہگار آنکھوں سے وقت کے دربار کے حمام میں ننگا دیکھا ہے۔

بتوں سے مجھ کو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں

یہ آج کی کوئی نئی کہانی بھی تو نہیں ،،ہمیشہ سے دربار کے یہی قوانین رہے ہیں کہ صاحب کردار لوگ اور کڑے وقت میں بادشاہوں اور وقت کے حکمرانوں کیلئے قربانیاں دینے والوں کا دربار سجنے کے بعد داخلہ تک ممنوع ہوتا ہے ،،،،،،تف ہے ان لوگوں کی سوچ پر جو اپنی قربانیوں اوراچھی صفات کا صلہ دربار وقت سے ملنے کے متمنی ہوتے ہیں حالانکہ قانون دربار ہمیشہ سے یہ رہا ہے دربار سجتے ہی برے وقتوں کے ساتھیوں اور وفادار اور باضمیر لوگوں کی فہرست مرتب کر کے انہیں حرف غلط کی طرح بھلادیا جاتا ہے اور ان لوگوں کی دستار بندی ہوتی ہے جن کے ہاں قابلیت ،کردار ،شرافت اور پرہیز گاری و وفادای کے بجائے درباری آداب بجا لانے کا ہنر بدرجہ اتم موجود ہو ،خوش آمدی اور حکمران وقت کی تعریفوں کے پل باندھنے کے ہنر سے آگاہ ہوں ،غیرت اور ضمیر کا ان کی زندگی سے گزر بھی نہیں ہوا ہو ،اور بوقت ضرورت عزت کا سودا کرنا ہو تو انہیں ناگوار نہ گزرے ،اب اگر کوئی یہ تصور کرے کہ موجودہ درباروں میں یہ قوانین نہیں تو اس کی سوچ پرافسوس ہی کیا جا سکتا ہے ،خیر کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ہوا کی سائیں سائیں سے پتہ چلتا ہے کہ اور کئی خبریں قطار در قطار کھڑی ہیں جو پردہ نشینوں کی نیندیں حرام کریں گی، ،،،،،،ایسے میں اک بار یہی کہوں گا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button