کالمز

ٹریفک مسائل: چند تجاویز

تحریر: تنویر احمد حقیؔ

عصر حاضرمیں دنیا کے بڑے مسائل میں سےایک اہم مسئلہ ٹریفک کےکنٹرول کا ہے۔ٹریفک ایک ایسا مسئلہ ہے جو دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک کو یکساں طور پر درپیش ہیں۔ آج سے نصف صدی قبل امریکہ نے ”مسئلہ ٹریفک” کا اندازہ لگایا تھا اور امریکہ میں ٹریفک کے حوالے سے اصطلاحات کی گئی تھی، آج امریکہ ٹریفک کے حوالے سے بہت ہی کنفرمٹیبل ہے۔ ہر ادارے، پلازے  اور اہم مقامات پر پارکنگ کے وسیع ایریاز ہیں۔وہاں یہ قانون بنا تھا کہ ٹریفک پارکنگ کے لیے مخصوص جگہیں بنائی جائیں گی اگرچہ اس وقت اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ مگر امریکی آنکھ پچاس سال بعد کا دیکھتی ہے۔

اسی تناظر میں ہم گلگت بلتستان کا جائزہ بھی لیتے ہیں تو ٹریفک ہمارے لئے ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔پورے گلگت بلتستان کی سڑکیں سنگل ہیں۔یہاں پر ڈبل سائیڈ کا رجحان نہیں ہے۔ آج سے دس سال قبل شاید ٹریفک منیج کرنے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا مگر آج چھوٹی بڑی گاڑیوں کی اتنی کثرت ہوگئی ہے اس مسئلے کو سلجھائے نہیں سلجھتا۔ صرف شہر گلگت یا پھر جی بی کے تمام اضلاع کے ہیڈ کوارٹر ز کا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انتظامیہ ٹریفک کے حوالے سے بہت پریشانیوں کا سامنا کررہی ہے۔ این سی پی اور ڈبلنگ گاڑیوں کی بہتات نے ہر انسان کو گاڑی کے حصول تک رسائی دی ہے۔ ایسے بھی گھر ہیں جن میں بلاضرورت ایک سے زائد گاڑیاں ہیں۔ ہر آدمی چاہیے پروفیشنل ڈرائیور ہویا نہیں گاڑی لے کر روڈ پر نکلتا ہےجس سے ایک اژدھام وجود میں آتا ہے۔ ٹریفک مسائل میں ایک اہم مسئلہ نان پروفیشنل لوگوں کا ڈرائیوو بھی ہے۔مشاہدے کے مطابق کم عمر لڑکے بھی گاڑیاں اور موٹرسائیکل لے کر روڈ پر نکلتے ہیں اور آندھا دھن گاڑی چلاتے ہیں اور نامناسب ایریاز اور بیج روڈمیں گاڑی کھڑی کرکے دور چلے جاتے ہیں۔

اگر ہم غور کریں تو دنیا کا پورا نظم و نسق کی متقاضی ہے  اور کائنات میں کسی بھی نظام کو تسلسل کے ساتھ قائم ودائم رکھنے کے لئے ڈسپلن کے اصول و ضوابطہ کا قیام نہایت ضروری اور لازمی ہے۔کیونکہ ڈسپلن ہی بہتر زندگی اور معاشرے کی تہذیب ہے۔ یہ بات اظہر من الشمش ہے کہ جس معاشرے میں جتنا ڈسپلن ہو وہ معاشرہ اتنا ہی مہذب  کہلاتا ہے اور بام ترقی پر پہنچ جاتا ہے۔مگر آفسوس کہ ہمارے معاشرے  میں اس ترقی کی راز کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے معاشرے  کے اندر ہر شعبہ میں ڈسپلن نام کی کوئی شی موجود نہیں ہے۔اس کا اندازہ ٹریفک نظام کی زبوں حالی سےبھی لگایا جاسکتا ہے۔کافی عرصے سے تبلیغی مرکز گلگت میں ٹریفک کی بے ضابطگیاں دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک مسجد کےسامنے چند گاڑیوں کی ڈسپلن برقرار نہیں کیا جاسکتا تو پورے شہر میں کیوں کر ممکن ہوگا۔جب پورے شہر کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو بھی یہی صورت حال نظر آئی۔ اس وقت گلگت سٹی کو صفائی کے ساتھ ٹریفک کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔بے تحاشا گاڑیوں کی وجہ سے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اورپا پیادہ چلنے والے بھی ان مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں۔

بہرحال انتظام ٹریفک میں بنیادی طور پر تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔جن پر عمل پیرا ہوکر ٹریفک کے نظام کو کافی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اس  لئے چند مفید تجاوزات حاضر خدمت ہے۔

1۔ ڈرائیور حضرات کو اس بات پر پابند کیا جائے کہ وہ ٹریفک قوانین کے پابند رہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔

2۔ان  گاڑیوں کا  جو فنی طور پر ناقص اور خستہ حالی کا شکار ہو سڑکوں پر لانے سے روکا جائے۔

3۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے ڈرائیوروں کولائسنس دے جو تجربہ کار ہو۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے تیزرفتار اور غیرذمدارانہ ڈرائیونگ کرنے والے کم سن بچے اور غیر لائسنس یافتہ ہوتے ہیں۔

4۔ٹریفک پولیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے چوک چوراہوں میں گاڑیوں کا ایک دوسروں کوغلط طور پر کراس کرنا ڈرائیوروں کی عام سی عادت بن چکی ہے۔جو ہمہ وقت حادثات کی وجہ بن سکتی ہے ۔لہذا قبل از وقت ٹریفک پولیس کی کارکردگی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

5۔گلگت سٹی بلکہ تمام ہیڈ کوارٹرز میں بڑے بڑے ٹرک اور ٹرالیاں درمیان روڈ پر دن دھاڑے کھڑی کی جاتی ہیں اور سامان اترا جاتا ہے۔ ان کے لیے کوئی مخصوص وقت اور جگہ کی ترتیب ہونی چاہیے۔

6۔حکومت کو چاہئے کہ ٹریفک پولیس کے عملہ کوبہترٹریننگ اور جدید طریقہ کار سے آراستہ کیا جائے۔اور مناسب حد تک ان کی تعداد کو بھی بڑھایا جاسکتا ہے ،تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ مقاصد تک باسانی پہنچ سکیں۔

7۔ موجودہ دور میں غیر قانونی گاڑیاں اور بغیر لائسنس کے گاڑیوں کا سڑکوں پر بھرمار ہوچکی ہے،اور وہ باؤلے کتوں کی طرح گاڑیوں کو سڑکوں پر چلاتے ہیں۔انہی گاڑیوں کی وجہ سےسڑکوں پر ٹریفک جام رہتی ہیں۔اور حادثات پہ حادثات ہوتے ہیں مگر ان کے روک تھام کے لئے کوئی قانون متحرک نہیں!گلگت اسمبلی کو باقاعدہ اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے اور چوری کی ہوئی گاڑیوں کی روک تھام بھی بہت زیادہ ضروری ہے۔

8۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی گاڑیوں کے ڈرائیور کئی سالوں سے مرمت کے منتظرسنگل وے روڈ پر اپنے پاب کی جاگیر سمجھتے ہوئے نہایت  تیز رفتار اور بے ہنگم انداز میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جن کی وجہ سے روڈ پر موجود دوسری چھوٹی ٹریفک بدترین  طریقے سے متاثر ہوتی ہیں۔ان کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنا بھی نہایت ضروری ہیں۔اور ان کو ٹریفک اخلاقیات سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔

کافی دنوں سے یہی چند تجاویز ذہن کےاسکرین پر نمودار ہوئے تو عرض کیا۔ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ بھی دیکھائی دیتی ہیں ۔ مگر مزید بہترین اقدامات کی ضرورت ہے۔اگر ٹریفک مسائل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو بہت جلد ٹریفک کنڑول اور منیج گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button