کالمز
پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی ۔۔۔۔پہلی قسط
تحریر: سید انور محمود
اٹھاسی(88) سالہ سرتاج عزیز اس وقت پاکستان کے مشیر خارجہ ہیں۔سرتاج عزیز نواز شریف کےاچھے ساتھیوں میں سے ایک ہیں، انہوں نے پاکستانی سیاست میں 1984 میں قدم رکھا اور فوجی آمر ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے خوراک و زراعت کی حیثیت سے شامل ہوئے ۔ اگست 1990سے جولائی1993تک وہ نواز شریف کی کابینہ میں وفاقی وزیرخزانہ، منصوبہ بندی و معاشی امور کے وزیر بھی رہے،وہ ایک ناکام وزیر خزانہ تھے جو ہر چیز پر سرچاج لگایا کرتے تھے۔قوم نے انکو‘‘سرچارج عزیز’’ کا خطاب دیا تھا۔نواز شریف جب دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو سرتاج عزیز 7 اگست 1998سے 12 اکتوبر 1999تک نواز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے، افسوس اس وقت بھی وہ ایک ناکام وزیر خارجہ تھے،اس لیے کہ جب پاکستانی افواج نے سیاچن میں اپنے مسلسل نقصانات کو روکنے کیلئے کارگل آپریشن کا فیصلہ کیاتو وہ ملک کے وزیر خارجہ تھے اور کسی بھی ملک کو اپنا ہمنوا نہ بناسکے، جسکی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف کوامریکہ کی آزادی کے دن 4 جولائی 1999 کو صدر بل کلٹن کے دربار میں حاضر ہونا پڑا تاکہ وہ پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ ایک مکمل جنگ سے بچایں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں کارگل آپریشن کے بارے میں پیشگی باخبرنہیں رکھا گیا لیکن ان کے دور کے وزیرداخلہ چودھری شجاعت حسین دعوے سے کہتے ہیں کہ کارگل پر نوازشریف کو باقاعدہ بریفنگ دی گئی تھی ۔
انہتر(69) سال ہوگئے ہیں بھارت اور پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے، لیکن بھارت کے کسی بھی رہنما کو آجتک یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ وہ پاکستان کو دل سے تسلیم کرلے۔ پاکستان بننے کے 24 سال بعد بھارتی سازش سے پاکستان کے مشرقی بازو کو علیدہ کرکے بنگلہ دیش بنوایا گیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے ایک کردارسابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا ‘‘آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا’’۔ جبکہ گذشتہ سال جون 2015 میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی دہشتگردی کا برملااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ”بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اوربھارتی فوج مکتی باہنی کے ساتھ مل کرلڑی تب ہی بنگلہ دیش کو آزادی نصیب ہوئی”۔ بھارتی قصائی نریندرمودی جو گائے کو زبح کرنا گناہ سمجھتا ہے لیکن انسانوں کو قتل کرنا اس کے نزدیک ایک نیک کام ہوتا ہے، اس کا 1971 کے سقوط ڈھاکہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے اعتراف نے بھارتی رہنماوں کی پاکستان دشمنی کو پورئے طریقے سے ننگا کردیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بنگلہ دیش میں نریندرمودی کے بیان کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ کو پاک بھارت تعلقات پر از سرےنو جائزہ لینا چاہیےتھا۔اس جائزہ کے نتائج کو سامنے رکھ کرمستقبل میں پاک بھارت تعلقات کا لاحہ عمل طے کرنا چاہیے تھا۔
جون 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تیسری مرتبہ اقتدار ملا اور نواز شریف بھی تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے سرتاج عزیز کومشیر خارجہ مقرر کیا اور وزیر خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا جو اب بھی ان کے پاس ہے۔9 جون 2016 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کےتین سال مکمل ہونے پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیاتھا جس میں دس کامیابیاں گنوائی گیں تھیں۔مشیر خارجہ کی کامیابیوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر چین سے تعلقات تھے اور اس سلسلے میں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے کا ذکر کیا گیا تھا۔ مشیر خارجہ کے مطابق چین اور پاکستان کی دو طرفہ تجارت 19 ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہے جبکہ چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 2015 میں ایک سو ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا تھا جو 2013 میں صرف 65 ارب ڈالر کے قریب تھا۔ مشیر خارجہ نے اپنی کامیابیوں میں افغانستان کے مصالحتی عمل کا بھی ذکر کیا تھا جو بلوچستان میں 21 مئی 2016 کو امریکی ڈرون حملے میں ملا منصور اختر کی ہلاکت کے بعد تقریباً ختم ہو چکا ہے۔خارجہ پالیسی کی کامیابیوں میں مشیر خارجہ ایران سے تعلقات کا بھی ذکرکرنا نہ بھولے اور کہا گیا کہ یہ تعلقات ایرانی صدرحسن روحانی کے حالیہ پاکستان کے دورے سے مستحکم ہوئے ہیں۔ دوسری جانب گذشتہ ساڑھےتین برس سے پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر نواز شریف حکومت کے اس دور میں کوئی پیش رفت نہیں ہوپائی۔ مشیر خارجہ کی طرف سے خارجہ پالیسی کے شعبے میں حکومت کی کامیابیوں کے بارے میں بیان ایک ایسے وقت جاری کیا گیا تھا جب پاکستان کی خارجہ پالیسی شدید دباؤ کا شکار نظر آتی تھی اور حکومت کے ناقدین پاکستان کے سفارتی طور پر تنہا ہونے کی باتیں کررہے تھے۔
جون 2016 میں راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر میں پاکستانی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کی قیادت میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں سرتاج عزیز کے علاوہ خارجہ امور پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری بھی موجود تھے۔وزارت خارجہ کے تین اعلیٰ ترین اہلکاروں کی اس اجلاس میں موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اس اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا تھا۔9 جون 2016 کوایک پریس کانفرس میں مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات عدم اعتماد کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ مطلب پرست دوست ہے، جب اس کو ہماری ضرورت ہو تو آجاتا ہے۔ کام نکل جانے پر ہمیں پوچھتا تک نہیں۔ امریکہ کا بھارت کی طرف جھکاؤ خطے میں دفاعی عدم توازن پیدا کرتا ہے۔سرتاج عزیز کا کہنا تھاکہ 2013 کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں استحکام پیدا ہوا جو ان کے بقول اس سے قبل غیریقینی صورت حال کا شکار تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ کی بحالی کا حوالہ بھی دیا۔ گذشتہ تین برسوں میں(جون 2013 سے جون 2016 تک) وزیراعظم نواز شریف کے امریکہ کے دو دوروں کو بھی مشیر خارجہ نے خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا۔
دوسری طرف سفارتی محاذ پر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جارحانہ پالیسی اور پاکستان کے مغربی ہمسایہ ملکوں ایران اور افغانستان سے سرمایہ کاری کے معاہدوں کے بعد امریکہ کے دورے کے دوران جس انداز میں نریندرمودی کی پذیرائی ہوئی ہے وہ پاکستان میں شدید تشویش کا باعث تھی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 سے اب تک امریکہ کے چار دورے کیئے ہیں اور اس کی امریکی صدر براک اوباما سے سات مرتبہ ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ ایک ایسے وقت جب بھارتی وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر تھے اور بھارتی قوم کی نظر واشنگٹن پر لگی ہوئی ہیں، پاکستانی قوم لندن کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں ہمارئے وزیر اعظم جو وزیر خارجہ بھی ہیں لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے واشنگٹن میں پاکستان مخالف جذبات اتنے بڑھے کہ امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کےلیے دی جانے والی مالی معاونت پر پابندی لگا دی جس سے پاکستان کے لیے ان طیاروں کی خریداری کا حصول ناممکن ہوگیا۔ اس سلسلے میں مشیرخارجہ سرتاج عزیز کی خارجہ پالیسی مکمل ناکام رہیں اگر کوئی تھیں؟۔
(جاری ہے)