کالمز

برف کے گولے

برف کے گولے بنا بنا کے اس کے ہاتھ برف کے ہوگئے تھے ۔۔چہرہ بھی سردی میں سرخ ہوگیا تھا ۔۔وہ سنو بالنگ کر تی رہی تھی ۔۔ساتھیوں کے ساتھ کھیلتی رہی تھی ۔۔وہ برف کے گولے بناتی رہی تھی اور ساتھی کھیلتے رہے تھے ۔۔لمسہ خود نہیں کھیل سکتی تھی کیونکہ کہیں کسی کو اس کی گولی نہ لگے اور اس کو مار نہ پڑ جائے ۔۔لمسہ گا ؤں کی ایک غریب مزدور کی بچی تھی ۔۔ڈری ڈری ،سہمی سہمی ۔۔کھاتے پیتے سارے بچیوں کی غلطیاں بھی اس کو برداشت کرنا پڑتی ۔۔بچی تھی گھر بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔باہر نکلتے ہوئے پیچھے سے ماں کی آواز آتی ۔۔لمسہ اپنے پیچھے شکایت گھر نہ لانا ۔۔لمسہ کو برف کی گولی لگتیں۔ مگر وہ کسی کو کچھ نہ کہہ سکتیں ۔۔وہ کسی کی طرف گولی نہ پھینک سکتیں ۔پھر بھی اس کو زدوکوب کیا جاتا کہ وہ سخت گولیاں بنا تی ہے ۔۔لمسہ کی غریبی نے اس کو بڑ ا قیدی بنا چکی تھی ۔۔برف کی گولیوں کی لڑائی ایک روایتی کھیل ہے وہ گاؤں میں بچوں میں کھیلا جاتا ہے ۔بوڑھے تک یہ کھیل کھیلتے ہیں ۔۔لمسہ کا دل کرتا کہ وہ بھی کسی کی طرف برف کا گولا پھینکے۔ مگر اگر کسی کو لگے تو غضب آ جائے گا۔۔آج موسم ذرا زیادہ سرد تھا ۔۔بادل آئے تھے دھوپ صاف نہیں تھی ۔۔لمسہ بادل ناخواستہ گولیاں بناتی رہی ۔ایک ادھ دفعہ خواہش بھی ہوئی کہ کسی کو اپنے بنائے ہوئے گولوں میں سے ایک اٹھا کر مارے ۔۔لیکن ایسا نہیں کر سکتی ۔۔کیوں کہ وہ کسی کی ساتھی نہیں ۔کوئی اس کی حمایتی نہیں ۔۔لمسہ کے ہاتھ لال بھبوکا ہوگئے تھے ۔برف کی طرح ٹھنڈے ۔۔ایک گولی آکر اس کے سر پہ لگا یہ شمسہ کی گولی تھی ۔۔سب ہنس پڑے ۔۔پتہ نہیں کیوں شمسہ ہنستی ہنستی یکدم سنجیدہ ہوگئی ۔۔ کیونکہ لمسہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے ۔۔گولی لگنے سے نہیں اپنی بے بسی پہ ۔۔۔وہ کیوں کسی لال ، حاجی،وغیرہ کی بیٹی نہیں ہوئی ۔۔ اس کے گھر میں بہت سارے کمرے کیوں نہیں ہیں ۔۔اس کے ابو کی زمینیں کیوں کم ہیں ۔۔اس کا ابو آفیسر کیوں نہیں ہے ۔۔لمسہ اس فلسفے سے بے خبر تھی ۔۔شمسہ تڑپ کے رہ گئی اس کو ایسا لگا کہ انھوں نے کائنات کے نظام کو درہم برہم کردیا ہے ۔۔ کیونکہ اس نے لمسہ پر گولی پھینکی ہے اس کی گولی لگنے سے لمسہ رونے لگی ہے ۔۔ابھی آسماں ٹو ٹ پڑے گا۔ ابھی زمین اس کی آنسوؤں میں بہہ جائے گا ۔۔ابھی سارے پہاڑ گرینگے ۔ابھی سارے دریا خشک ہونگے ۔۔ابھی ہوائیں چلنا بند ہوجائیں گے ۔ابھی سارے پھول مرجھا جائنگے ۔۔ابھی پرندے چہچہانا بند کر دینگے ۔۔ابھی بڑے بڑے گھروں میں آگ لگ جایئگی ۔۔ا س سمے لمسہ اس سے بڑی لگی بہت بڑی ۔چاند سے اتری ہوئی شہزادی ۔۔لونا ۔۔شمسہ کا قد خود اس کو بہت چھوٹا لگا ۔۔بونا ،پتھر،بے حس ۔۔سب بچیاں ان کے ارد گرد حیران کھڑی تھیں ۔چلو لمسہ کو تو گولی لگی ۔اس کا کام رونا ہے ۔۔اس کے رونے پہ توجہ کون دیتا ہے۔۔ رورو کے چپ ہوجائے گی ۔۔لیکن شمسہ ۔۔۔یار شمسہ کیا ہوگیا تمہیں ۔۔لمسہ کا رونا اب بند ہوگیا تھا ۔اب وہ خود بھی شمسہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔سہمی ہوئی تھی۔۔سوچ رہی تھی کہ وہ روئی کیوں ؟اس کے رونے کی وجہ سے شمسہ روئی۔۔ اگر شمسہ گھر جا کر بتائے تو غضب آجائے گی ۔۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔۔شمسہ گولی سے مجھے کچھ نہیں ہوا تھا ۔۔بس ساتھیوں نے ہنسنا شروع کیا تو پتہ نہیں کیوں مجھے رونا آیا ۔۔۔شمسہ نے ہچکیاں لیتی ہوئی کہنے لگی ۔۔۔’’کل میں گولی بناؤنگی تم مارا کرنا‘‘ ۔۔ تم میرے گروپ میں شامل ہونا‘‘ ۔۔ تمہیں اگر کسی کی گولی لگے گی تو میں اس کا بازو توڑ دونگی‘‘۔۔۔۔پھر وہ چیخ کر لمسہ کے گلے لگی اور کہا۔۔’ ’ لمسہ تم مجھ سے اچھی ہو‘‘ ۔۔۔پھر یکدم ارد گرد کے سارے پھول کھل گئے ۔۔پرندے چہچہانے لگے ۔پھر کیا ہو ا لمسہ کو لگا کہ خزان میں بہار آگئی ہے۔۔محبت کی خوشبو سے زمین و آسماں معطر ہوگئے ہیں ۔۔فاصلے مٹ گئے ہیں ۔۔لمسہ بھی شمسہ جیسی ہے ۔۔خوبصورت ۔۔گوری ۔۔شوخ شریر ۔۔ چنچل۔۔ہنس مکھ ۔۔ہنسیں تو پھول کھلیں ۔۔گلشن انسانیت کا پھول ۔۔لیکن انسانوں کی بستی میں ہم نے یہ تقسیم کہاں سے کیا ہے ۔۔کوئی لمسہ کوئی شمسہ ۔۔ایک گولی بنانے والی ۔۔ایک گولی پھینکنے والی ۔۔ایک ہنسنے والی ایک کو رونے کی بھی اجازت نہیں ۔۔برف کی گولیاں ۔۔ہم سب برف کی گولیاں ہیں ۔۔یخ بستہ ۔۔ہماری دولت ہمیں اندھا کرتی ہے ۔۔شمسہ اور لمسہ کا قصور نہیں ۔قصور ہمارا ہے ۔۔ہم پھولوں میں فرق کرتے ہیں ۔۔برف کے گولوں کا بھی قصور نہیں ۔۔برف کے گولے لمسہ اور شمسہ میں فرق نہیں کرتے ۔۔اگر درمیان میں ہمارا کردار نہ ہو تو اسی طرح لمسہ اور شمسہ ایک دوسرے کے گلے لگ جائینگی ۔۔اور ان کی چھوٹی سی دنیا جنت بن جائے گی ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button