محکمہ واپڈا کی نیک نیتی اور متاثرین کے تحفظات
اسلم چلاسی
بلاشبہ محکمہ واپڈا کی پچھلے سات آٹھ سالوں سے متاثرین کے حوالے سے انتہائی مایوس کن کار کر دگی رہی ہے جس کی وجہ سے نا خوش گوار حالات بھی پیدا ہوگئے اور نوبت جلاؤ گھیراؤ تک بھی آگیا اورخون خرابہ بھی ہوا۔ نتیجہ کے طور پر لوگوں کی نیتیں بھی خراب ہوگئے، جس جذبہ حب الوطنی سے لوگوں نے قربانی پیش کی تھی اس میں شکوک و شبہات کی آمیزش شامل ہوئی۔ اوپر سے پٹوار خانہ نے نیک نیتی کے جنازہ ہی نکال دیا۔ کمی کوتاہی کہیں سے بھی ہو، ذمہ داری محکمہ واپڈا کے گلے میں ہی ڈال دیا گیا۔ جس سے عوامی سطح پر محکمہ واپڈا سے اعتماد اٹھتاگیا۔ حالانکہ حقیقت اس سے بلکل برعکس ہے، جتنا قصور واپڈا کا دیکھا یاجا رہا ہے اتنا نہیں ہے۔ چونکہ متاثرین کے املاک کی پیمائش سے لیکر ایوارڈ کی تیاری اور تکمیل کے بعد معا وضات کی ادائیگی تک لینڈ اکوزیشن کا کام ہے اوراعتماد سازی میں انتظامیہ کے مشورہ پر عوامی افادیت کے اداروں کو محکمہ واپڈا نے گود لیا تھا۔ ا ب انتظامی سطح پر سفارشات محکمہ واپڈا کو اعتماد سازی کے حوالے سے موصول ہی نہیں ہوئے تو کیا خاک اس پر کام ہوگا؟
آبادکاری کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے تقریباًً ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ خاندانوں کو ری سیٹل کرنا ہے لیکن اب تک انتظامی سطح پر لینڈ اکوائر نہیں کیا گیا۔ انظامیہ زمین خریدے تو واپڈا تعمیر کرے گا، ورنا ہوا میں تو صرف ہوائی خسرے بنتے ہیں محلات تعمیر نہیں ہوتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک فیز وائز آبادکاری کے حوالے سے دوچار ماڈل کالونیاں تعمیر ہوتے، کم از کم لوگوں کو دیکھاتے کہ آپ کے قربانی کا صلہ یہ ہے، آپ نے ملک کے لیے اپنے ہرے بھرے کھیتوں کھلیانوں اور مکانات کو قربان کیا اور بدلے میں تپتے صحرا میں صحیح مگر آپ اس جومپڑی کے حقدار ٹھہرے ہیں۔ جس طرح فیز وائز پیمائش ہوئی ہے، فیز ون میں کھنبری تھور ہڈور کو بغیر جبرانہ کے معاضات ادا کیے گئے ہیں ان کو سب سے پہلے آباد کرنا چاہیے پھر فیز ٹو میں چلاس آتا ہے اور اسی طرح فیز تھری میں گوہر آباد کے علاقے آتے ہیں۔ لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے جن کو سب سے کم رقم ادا گیا ہے ان کے آبادکاری کا تو کوئی اتا پتا نہیں ہے مگرجو با اثر ہیں ان کو بسانے کیلے سبھی بے تاب ہیں۔ جس سے دیامر ڈیم فیز ون کے متاثرین کے اندر انتہائی تشویش پیدا ہوئی ہے چونکہ ان کو پچیس فیصد اضافی رقم بھی نہیں ملی ہے جبکہ فیز ٹو اور فیز تھری کے متا ثرین کو پچیس فیصد اضافی رقم کے ساتھ ساتھ بنجر اراضیات کے تگنی رقم ملی ہے۔
اب اصولی طور پر سب سے پہلے فیز ون کے متاثرین کو بسانے کی ضرورت ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے لیکن دبے لفظوں میں یہ بتایا جارہا ہے کہ زمین کی کمی ہے سب کو چلاس شہر میں بسا یا نہیں جا سکتا ہے جس کے لیے سگہ سل میں زمین خریدنے کی کو شش ہورہی ہے۔ لیکن پھر بھی تمام متا ثرین کو ٹھکانہ لگانا مشکل ہو گا چونکہ فیز ون تھور ہڈور اور کھنبری کے متاثرین سگسل میں بسنے کیلے تیار نہیں ہیں جبکہ چلاس شہر میں زمین کی کمی ظاہر کیا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں جن لوگوں کو چلاس شہر کی اونرشپ کا حق حاصل ہے وہ کسی بھی صورت میں چلاس کا نعم البدل سوچ بھی نہیں سکتے ہیں اور یہ جائز بھی نہیں ہے کہ آبائی علاقے سے گھنٹوں کے مسافت پر کہیں دور ایسی جگہ میں بسانا جہاں پر حق ملکیت بھی حاصل نہ ہو۔
اب تمام متاثرین کو ان کے متاثرہ علاقوں کے قریب بسانے کیلے محکمہ واپڈا کی کوشش جاری ہے انتہائی با وثوق زرائع سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں گفت و شنید کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے اور بہت جلد متاثرین کے حوالے سے اہم پیش رفت ممکن ہے جس کو محکمہ واپڈا کی نیک نیتی کہا جا سکتا ہے۔ اور اس سلسلے میں دو سو کروڑ روپے واپڈا کو موصول ہو چکے ہیں۔ جن کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کیلے مختلف سفارشات کو حتمی شکل دیا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر تو متاثرین اس بات پر انتہائی مایوس تھے کہ آبادکاری کی ذمہ داری لوکل گورنمٹ اور محکمہ پی ڈبلیو ڈی کو دیا جا رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اصل حقائق سامنے آگئے اور اب عوامی سطح پر امید کی جا رہی ہے کہ دیامر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لا یا جا ئے گا جس کے ذریعے متا ثرین کی آبادکاری کے عمل کو آگے بڑھایا جا ئے گا۔
اب واپڈا کی مثبت پالیسیوں سے یہ امید بھی کیا جا رہا ہے کہ جو ابتدائی وعدہ تھا کہ ایک سو ایک ارب روپے متاثرین پر کپنسیشن اعتماد سازی اور آباد کاری کے مد میں خرچ کیے جانے تھے محض مفروضات نہیں تھے بلکہ بہت جلد سچ ثابت ہو نگےاور حسب وعدہ وہ تمام مراعات متا ثرین کو دیے جائنگے جس کا حقدار ہیں۔