کالمز

انسان خسارے میں ہے

محمد صابر گولدور چترال

انسان کی کامیابی اور ناکامی کن چیزوں پر منحصر ہے انسان کی فوز و فلاح کی وہ کونسی آسان شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ نجات کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے یہ سوال ہر بندہ مومن کے دل میں اٹھتے ہیں۔ ان شرائط کی صیح پہچان کےلیے ہمیں قرآن پاک کی جانب رجوع کرنا پڑھتا ہے ـ
سورہء عصر قرآن پاک کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ یہ سورہء مبارک تین آیات پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم بلاغت و فصاحت کا ادبی شاہکار ہے۔ سورہء عصر مختصر مگر جامع ترین سورۃ ہے۔ امام شافی ؒ نے سورہء عصر کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر صرف اسی ایک سورۃ پر غور و فکر کریں تو یہ ان کی ہدایت کےلیے کافی ہے بلکہ ایک اور قول بھی نقل کیا گیا ہے۔ اگر قرآن مجید میں سے ایک سورة کے سوا اور کچھ نازل نہ ہوتا تو ایک یہی سورة لوگوں کی ہدایت کےلیے کافی ہوتی ـ

بعض روایات میں صحابہ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کے بعد رخصت ہوجاتے تو لازما سورہء عصر کا ایک دوسرے کے سامنے تلاوت کرتے ـ اس سورہء مبارکہ کے الفاظ نہایت سادہ اور جامع ہونے کے ساتھ عام فہم بھی ہیں جیسا کہ عصر ، خسر عصر اور خسر اردو میں بھی مستعمل ہیں سوائے ایک دو الفاظ کے باقی سارے الفاظ آسان عام فہم ہیں ـ

سورہء عصر کے مطالعے سے قبل ہم ایک حقیقی بات کی جانب آئیں تو ہم بہتر طریقے سے اس سورۃ مبارکہ کا تجزیہ کر سکیں گے ـ دنیا میں تمام انسانوں کے کامیابی اور ناکامی کے اپنے اپنے معیار ہوتے ہیں کسی کو پیسے کی طلب ہوتی ہے تو کوئی جاہ و جلال کا طالب ہوتا ہے کوئی بڑا عہدہ چاہتا ہے کوئی بڑا گھر بہر کیف سبھی کے اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں ـ لیکن ان سب چیزوں کے برعکس سورہء عصر کا موضوع اور اس کی مقصدیت نجات کی کم از کم شرائط پر سیر حاصل گفتگو پر مبنی ہے ـ یہاں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ اس سورۃ مبارکہ میں جو نجات کے جو شرائط بیان ہوئے ہیں وہ نہایت درجہ کم شرائط ہیں ـ اس سورۃ مبارکہ میں اخروی نجات کےلیے چار شرائط کا اصولی ذکر کیا گیا ہے ایمان عمل صالح ، توصی بالحق توصی بالصبر چاروں شرطیں لازمی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ساقط ہو گیا تو نجات کی کم از کم شرطیں پوری نہیں ہوتی ہیں ہر ایک شرط اپنی جگہ اپنا مقام رکھتا ہے ان کا ظہور بھی ترتیبی اعتبار سے قابل دید ہے ـ

زمانے کی قسم ہے کہ تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان کے کہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی ـ
ﷲ پاک فرماتے ہیں زمانے کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں نہایت بھیانک اور خطرناک بات کہ تمام انسان نقصان اور خسارے میں ہیں عموما دنیاوی زندگی میں ایک بندہ نقصان اور خسارے کا سن کر چونک جاتا ہے یہی حال یہاں بھی بیان ہوا ہے کہ آگاہ ہوجاؤ تمام انسان نقصان اور خسارے میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور باہم ایک دوسرے کو حق کی وصیت و تلقین کرتے رہے اور صبر پر کاربند رہے ـ آج کےدور میں چاہے آپ کے پاس بل گیٹس جتنی دولت ہو یا آپ دنیا کے امیر ترین ارب پتی کھرب پتی شخص ہی کیوں نہ ہوں اگر آپ میں یہ چار چیزیں نہیں تو آپ ﷲ پاک کے نزدیک کچھ بھی نہیں ـ بے شک آپ نماز بھی پڑھتے ہونگے حج بھی کرتے ہونگے اور زکواۃ بھی دیتے ہونگے چونکہ نماز حج اور زکواۃ کا تعلق ایمان اور عمل صالح سے ہے ـ لہذا یہ بات یاد رکھیں جب تک باقی دو شرائط تواصی بالحق اور تواصی بالصبر پر کاربند نہیں رہیں گے اس وقت تک ہم نقصان اور خسارے میں ہیں ـ ہم دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھیں تو یہ منطقی ترتیب بالکل صادق آتا ہے ـ پہلے پہل تو آپ ﷲ پر رسولوں پر اس کے کتابوں فرشتوں اور آخرت کے دن پر ایمان لائینگے اس ایمان کے وجہ سے آپ عبادات کی جانب راغب ہونگے پھر یقینا اچھی صفات آپ میں جاگزیں ہونگی اور آپ چاہیں گے کہ دوسرے لوگ بھی ان صفات سے مستفید ہو آپ ان کو حق کی یعنی کہ ایمان باﷲ کی تلقین کرینگے جب آپ ایمان کی دولت سے خود بھی اور دوسروں کو بھی روشناس کرائینگے تو ضرور آپ کا واسطہ طاغوتی قوتوں اور باطل نظریات سے ہو گا حق کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے آپ کو لعن وطعن کیا جائے گا اس وقت ایک دوسرے کو تواصی بالصبر کی تلقین کریں گے یعنی حق پر ثابت قدم رہنے کی اور لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کرنے کی یہی وہ منطقی ترتیب ہے جو لازمی ہے بجز اس کے نجات ناممکن ہے ـ

قرآن پاک کی مثال ایک تناور درخت کی سی ہے اور سورہء عصر کی مثال دراصل اس درخت کی بیچ کی ہے اپنی جامعیت کی بنا پر تذکر و تدبر کرنے والوں کےلیے سرچشمئہ ہدایت ہے ـ معاشرے میں پھیلے مختلف طبقات کی گروہ بندی کی حوصلہ شکنی کے ساتھ انسان کو اصل الاصول اور زندگی میں انسان کی فوز و فلاح کی بنیادی اور کم از کم شرائط کی نشاندہی کرتا ہے ـ ہم جس چیزکو نقصان اور خسارا تصور کرتے ہیں اور ہماری نظروں میں دنیاوی لحاظ سے نفع و نقصان کا ایک الگ معیار ، تصور پایا جاتا ہے اس معیار ، تصور کو بدلنے اور حقیقی نفع و نقصان کی تعریف و تشریح نہایت عمدہ پیرائے میں سورہء عصر کے اندر موجود ہے ـ

پہلا مرحلہ ایمان کے ذیل میں چند باتوں کا جاننا بہت ضرور ہے جیسا کہ ﷲ کون ہے اس کے صفات ہیں پھر توحید پر مضبوطی سے جم جانا مثلا توحید الوہیت وہ اکیلا عبادت کے لائق ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، توحید ربوبیت پالنے والا پرورش کرنے والا وہی ہے ، توحید اسماء و صفات اس کے سب نام ذاتی ہیں اور ہم ان ناموں کا استعمال اس کے علاوہ کسی کےلیے بھی نہیں کرسکتے ، پھر فرشتوں پر ایمان ، رسولوں پر ایمان ، کتابوں ، یوم آخرت اور جنت جہنم پر ایمان لانا شامل ہیں ـ

دوسرا مرحلہ عبادات سے مراد وہ عبادات جو پیغمبر اسلام ﷺ نے ہمیں سیکھائی نماز ، روزہ ، زکواۃ اور حج وغیرہ ان کے علاوہ بدعات سے بچنا دور رہنا بھی اس ذیل میں شامل ہیں ـ

تیسرا مرحلہ دعوت دین اسلام خوب حکمت عملی کے ساتھ ﷲ پاک کے پیغام کو حکمت و بصیرت سے تمام انسانوں تک پہننا اس کےلیے جدید ٹیکنالوجی کو بھی زیر استعمال میں لانا کتابوں اخبارات رسائل و جرائد انٹرنٹ اور ٹیلی وژن کے ذریعے اسلامی تعلمات کو عام کیا جا سکتا ہے ـ

چوتھا اور آخری مرحلہ راہ حق و صداقت کی اس پرخطر راہ میں صبر کا دامن پکڑے رہنا  اور طاغوتی قوتوں سے نبرد آزما ہونا سچ کا ساتھ دینا اور سچ پر قائم رہنا چاہے جیسے بھی حالات ہی کیوں نہ آئے اور آخری سانس تک خود کو حق و صداقت کےلیے  وقف اور قربان کرتے ہوئے جان جان آفرین کے حوالے کرنا  ہی آخروی نجات کےلیے ﷲ تعالی کے ہاں قابلِ قبول ہے ـ

ان عوامل کے علاوہ ذاتی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل اور اپنے آپ کو زبانی کلامی خوش فہمی مبتلا کرنے  سے نا ہی دنیا میں کچھ ہاتھ  آئے گا اور نا ہی آخرت میں سوائے رسوائی اور زلت کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا ـ ﷲ پاک ہم سب کو آخروی نجات کی ان کم از کم شرائط پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے ـ آمین

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button