کالمز

نیا سیاسی منظر نامہ

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

سابق صدر آصف علی ذرداری نے بڑا قدم اُٹھا یا ہے اور ضمنی الیکشن کے ذریعے قومی اسمبلی میں آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس پر مختلف حوالوں سے گفتگو ہورہی ہے، تجزیے آرہے ہیں، ایک بڑا سوالیہ نشان اس بات پر لگا یا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی رکنیت ڈیڑھ سال یا سوا سال کے لئے حاصل کر کے سابق صدر مو جودہ حکومت کو چیلنج کر رہا ہے یا مو جو دہ حکومت کی مدد کر رہے ہیں؟ یہ بات ہر تجزیہ نگار جا نتا ہے کہ مدت بہت کم ہے اور اس مدت میں مزید کمی کا امکان بھی مو جود ہے جو ہمیشہ سے موجودہ رہا ہے اس کے باوجود سابق صدر نہ صرف خود بلکہ اکلوتے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو بھی لیکر قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات لڑنے جا رہے ہیں۔ باپ بیٹے کو قومی اسمبلی میں آنے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ ہمارے کرم فرما دو باتوں کو نظر انداز کر تے ہیں یا انہیں بھول جانے کی عادت ہے پہلی بات یہ ہے کہ سابق صدر سیاست کے کھیل کو شطرنج کے طرز پر کھیلتے ہیں اور اپنے مہرے سنبھال کر رکھنے کاگر جانتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سابق صدر نے ڈیڑھ سال پہلے دوبئی جاتے وقت سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کو تڑی سنائی تھی، دھمکی دی تھی اور سخت زبان میں خبر دار کیا تھا واپسی پر اُن کا لہجہ بد ل گیا۔

انہوں نے پاک فوج کو سلام کیا پاک فوج کی خدمت کو سراہا اور اسٹبلشمنٹ کو اپنی آشیر با د سے نوازا۔ لہجے کی یہ تبدیلی اپنے اندر کہانی رکھتی ہے بلکہ ایک داستان اس لہجے میں پوشیدہ ہے اس کی پر تیں اور گرہیں آئندہ چند مہینوں میں کھلتی رہینگی۔ میری نظر میں سابق صدر کا اعلان ڈرمائی اعلان نہیں یہ حالات کا تقاضا اور وقت کی ضرورت تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پچھلے چند مہینوں سے اس پر غور کر رہی تھی ۔آخر کا ریہ اعلان سامنے آگیا۔ سندھ میں سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلی نا مزد کر نا، پنجاب کو تنظیمی لحاظ سے دوحصوں میں تقسیم کرنا اور خیبر پختونخوا میں انجینئر ہمایوں خان کو پارٹی قیادت سونپ دینا اس کی شروعات تھی۔ سابق صدر کی ایک خوبی کا رکنوں کو یا دہے انہوں نے 5 سالوں تک ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاوس کے دروازے کا رکنوں کیلئے کھلے رکھے۔ ’’جئے بھٹو‘‘کے نعروں سے دونوں ایوانوں میں گونج پیدا ہوتی رہی دور دراز اضلاع اور دیہا ت کے کار کن بھی ایون صدر میں پارٹی قیادت سے مل سکتے تھے اور اس کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ ملک کے ادیبوں ،شاعروں ،قلم کاروں اور فنکا روں کو ایون صدر اور وزیر اعظم سکرٹریٹ میں ضیا فتیں دی جاتی تھیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو عوامی حافظے کا حصہ بنتی ہیں اور ہما را معاشرہ شخصیت کے سحر اور کرشمے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ یہاں اب بھی اصولوں سے ذیادہ شخصیت کا کر شمہ کام دیتا ہے۔ پارٹی کا رکنوں کے لئے سابق صدر نے اپنے آپ کو شخصیت کے کر شمے کے زور پر قبولیت سے زیادہ مقبولیت کے درجے پر سر فراز کر دیا ہے اور یہ ان کا سیا سی اثا ثہ ہے۔ دوسری بات جو ہمارے کرم فرما بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ مو جودہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں اپوزیشن نا کام ہوتی ہے۔ اس ناکامی سے ایک خلا پیدا ہو اہے۔ سابق صدر کے دو مقولے خا ص مشہور ہو چکے ہیں ایک مقولہ ہے پا کستا ن کھپے ،دوسرا مقولہ ہے پہلے سا ڈی واری تے پھر تہا ڈی باری ‘‘طاہر القادری ،چوہدری شجا عت حسین ،الطاف حسین ،شیخ رشید ،عمران خان اور سراج الحق نے تیسری طاقت کو میدان میں لانے کا عندیہ دیا تھا وہ عملی طور پر کا میاب نہیں ہوا۔

شیخ رشید اور طاہر القادری کے سو لو فلائیٹ نے ان کو چت گرا دیا۔ سراج الحق اور چوہدری شجا عت حسین کی پارٹی پالیسیاں راستے میں حائل ہو گئیں۔ عمران خان کو خیبر پختونخوا میں حکومت کا موقع دیکر تیسری قوت بننے سے روکا گیا۔ مخالفین کو شاید اندازہ تھا کہ حکومت میں ناکامی سے بہتر علاج اس کا اور کوئی نہیں۔ حکومت میں آنے دو 5 سال بعد اپنی کار گردگی کی بنیاد پر عوامی پذیر ائی سے محروم ہو جائیگی اور تحریک انصاف بھی تحریک استقلا ل کی طرح ما ضی کا حصہ بن جائیگی۔ چنا نچہ حکومت گو یا زہر کی میٹھی پڑیا اس پارٹی کو دیدی گئی۔ تیسری قوت کی غیر موجودگی میں پاکستان کے اندر دو پارٹیوں والا نظام مستحکم ہونے جا رہا ہے۔ سابق صدر کی دوبارہ انٹری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ قومی اسمبلی میں آنے کے بعد سابق صدر اور ان کے بیٹے کو بیشمار دیگر فوائد میں سے چار اہم فوائد حاصل ہونگے۔ قائد خزب اختلاف کا منصب ملے گا، پبلک اکا و نٹس کی کمیٹی کا سربراہ ہی ملیگی، نیب کے چیرمین کا تقر ر اُن کی مرضی سے ہوگا، مستقبل میں نگران حکومتوں کے قیام میں اُن کی مرضی اور سہولت شامل ہو گی۔

پنجاب میں اس وقت مسلم لیگ (ن)کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بڑی قوت ہے۔ اگر پنجا ب میں 80 سیٹس پی پی پی کو مل گئیں تو مستقبل کی حکومت ان ہی کی ہوگی۔ سیٹوں میں گڑ بڑ ہوئی تو مسلم لیگ (ن)کے ساتھ مخلوط حکومت میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اس طرح حصہ دار ہوگی جس طرح آج کل ہے یعنی سینٹ کے چیئر مین کا عہدہ ان کے پاس ہے۔ یہ عہدہ صر ف ووٹوں کے ذریعے نہیں ملا پسں پردہ محرکات کا بھی اس میں دخل تھا۔ مستقبل میں پی پی پی وفا ق میں حکومت بنانیکی باری مل گئی تو ایون صدر میں مسلم لیگ (ن)کا کوئی بڑا لیڈر بھی آسکتا ہے۔ یہ مستقبل کی صورت گری ہے مرزا غالب نے اس حوالے سے بڑی بات کہی ہے
با زیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تما شا میرے آگے
ہوتا ہے نہا ں گر د میں صحرا میرے ہوتے
گھستا ہے جبین خاک پہ دریا میرے آگے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button