کالمز

نئی پارٹی کا جنم

14جولائی کی صبح نئی پارٹی کا جنم ہوا ہے یہ مسلم لیگ (ن) ہی ہے مگر وہ مسلم لیگ (ن) نہیں جو ٹینکوں پر سوار ہوکر ’’ میرے عزیز ہم وطنو !‘‘ کا ترانہ گاتے ہوئے IIIبریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر سے میدان میں آئی تھی یا شاہ فہد بن عبدالعزیز کے جدہ والے محل میں سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئی تھی یہ مسلم لیگ (ن) بالکل نئی پارٹی ہے جو 1961ء کی جماعت اسلامی ، 1967ء کی پاکستان پیپلز پارٹی اور 1973ء کی عوامی نیشنل پارٹی کی طرح جمہوری اقدار کا پرچم لیکر آمریت کے بتوں کو پاش پاش کر نے کیلئے میدان میں آگئی ہے اس بات پر سب حیران ہیں کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو داماد اور بیٹی کے ہمراہ جیل میں ڈالنے والے اُس کے ہمدرد ہیں یا دشمن ؟ اگر ہمدرد ہیں تو سب کچھ ’’ ٹوپی ڈرامہ ‘‘ ہے اگر دشمن ہیں تو بہت ہی نالائق اور نادان دشمن ہیں جنہوں نے درمیانہ درجے کے سیاست دان کو بھٹو اور نیلسن منڈیلا بنادیا ہے اس کی اولاد کو خواہ مخواہ بغیر استحقاق کے مستقبل کیلئے اُن کا جانشین بنا دیا ہے اور مسلم لیگ کو ترک صدر طیب اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے ہم پلہ پارٹی بناکر عوام کی نظروں میں مزید مقبول اور قابل قبول جماعت بنادیا ہے یہ بات طے ہے کہ نواز شریف کو اُن کی اولاد کے ہمراہ زیر عتاب لانے والی طاقتیں پاکستانی عوام کے مزاج سے بخوبی واقفیت رکھتی ہیں ان طاقتوں کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستانی عوام جذباتی لوگ ہیں بھٹو نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف بغاوت کر کے وزیر خارجہ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تو عوام

اُ س کے نام کے گرویدہ ہوگئے عوام یہ بات بھول گئے کہ بھٹو نے ایک دن ایوب خان کو’’ ڈیڈی ‘‘ کا درجہ دیا تھا اور اس کے گُن گاتا تھا عوام نے ’’ ایوب خان مردہ باد ‘‘ کی دھنوں پر دھمال ڈالا بھٹو کو کندھے پر بٹھایا اور جنوبی ایشیا کا عظیم لیڈر بناکر فخرِ ایشیا کا خطا ب دیا وجہ یہ نہیں تھی کہ عوام کو بھٹو کی شُستہ انگریزی پسند تھی یا بھٹو نے عوام کو بہت کچھ دیا تھا وجہ یہ تھی کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو بھٹو نے جس طرح للکارا وہ ادا عوام کو پسند آئی تھی اب تک عوام کو بھٹو کے سحر اور جادو سے چھٹکارا نہیں ملا آمریت اور امریکہ کے خلاف جس نے آواز اُٹھائی عوام نے اس کو سر آنکھوں پر بٹھالیا مسلم لیگ (ن) کا نون اپنے بچوں کو ساتھ لیکر خواہ مخواہ ہیرو بن گیا شاید یہا ں بھی ’’ مقدر کا سکندر‘‘ والی بات درست ہو عوام چند باتوں کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوگی عوام کو یہ باور کرانا بہت مشکل ہو گاکہ پانامہ کیس میں اقامہ کی بنیاد پر فیصلہ درست تھا پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم یا ان کی اولاد پر آف شور کمپنی کا جو الزام لگایا گیا وہ حقیقت پر مبنی تھا عوام کو یہ باور کرانا مشکل سے زیادہ نا ممکن ہوگا کہ آف شور کمپنی صرف نواز شریف کی اولاد نے بنائی ؟ کسی جرنیل کی اولاد نے نہیں بنائی؟ کسی جج یا بیوروکریٹ کی اولاد نے نہیں بنائی؟ عوام کو یہ باور کرانا بھی ناممکنات میں شمار ہوگا کہ بیرون ملک جاکر گھر خریدنے والا واحد پاکستانی نواز شریف کا بیٹا تھا دوسرا پاکستانی کوئی نہیں اگر عہدے کی بات ہو ،حلف اُٹھانے کے بعد بیرون ملک جائیداد خریدنے کی بات ہو تو عوام کو آپ کسی بھی منطق کے ذریعے باور نہیں کراسکتے

کہ گریڈ 20یا گریڈ 21اور گریڈ 22کے افیسروں کی اولاد کے پاس دوبئی ، ویانا ، نیو جرسی ، ہیوسٹن ، لندن ، نیو یارک اور دیگر بڑے شہروں میں کھربوں ڈالر کی جو بڑی بڑی جائیدادیں ہیں وہ سب حق حلال کی کمائی سے خریدی گئی ہیں تاجر اور صنعتکار کی حیثیت سے نواز شریف کی اولاد نے لندن میں جائیداد خرید کر جرم کیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں جنرل جیلانی کا لاڈلا، جنرل ضیاء الحق کا منہ بولا بیٹا اور 1990ء کی دہائی میں جنرل مرزا اسلم بیگ کا پسندیدہ کردار اتنا بدعنوان تھا کہ اس کو جیل میں ہونا چاہیئے تھا عوام کو ان باتوں سے قائل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے نواز شریف کو سزا دینے لئے حکمران طبقے نے جس وقت کا انتخاب کیا وہ بھی خاصا مشکوک وقت ہے انتخابات سے ایک سال پہلے ان کو سزا دی گئی کہ تم نے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی؟ انتخابات سے دو ہفتے پہلے اس کو سزا دی گئی کہ تمہارا بیٹا لندن میں جائیداد کا مالک کیوں بنا ؟ ان دو الزامات کے لئے عین انتخابات کا وقت ڈھونڈنا عدل اور انصاف ، تحقیق اور تفتیش یا احتساب اور شفافیت یا غیر جانبدرانہ اور آزادانہ انتخابات کے دعوؤں کی مکمل نفی کرتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ ایک مخصوص گروہ کو لندن میں اُس کے گھر پر حملے کیلئے منظم کرنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حکمرانوں نے ایک پارٹی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوسری پارٹی کو انتخابات جتوانے کا منصوبہ بنایاہواہے یہی وجوہات ہیں جن کی بناء پر کہا جارہا ہے کہ نوازشریف کو اولاد کے ساتھ جیل میں ڈالنے والے اگر ان کے دشمن ہیں تو نالائق دشمن ہیں اگر اُن کے دوست ہیں تو بے حد عیار اور مکار دوست ہیں جنہوں نے خواہ مخواہ نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو ، شیخ یاسین اور یاسر عرفات کی صف میں لاکھڑا کیا ہے اور مزاحمت کی علا مت بنا دیا ہے ؂

نہ گنواؤناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button