کالمز

چار روزہ بین الاقومی ادب کانفرنس اسلام آباد

احمد سلیم سلیمی

ان دنوں زندگی میں کچھ نئے رنگ گھل گئے ہیں۔زبان،ادب اور معاشرہ کے عنوان سے اسلام آباد میں ،اکادمی ادبیات کے تعاون سے چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے۔ملک بھر سے،ہر خطے کے،ہر زبان کے اہل قلم شریک ہیں۔گلگت بلتستان سے بھی تاج صاحب اور دکھی صاحب سرکاری طور پر مدعو تھے۔اور یہ خاک سار گھس بیٹھیا ۔۔۔۔کانفرنس کا علم تھا۔ان صاحبان کی اسلام آباد موجودگی بھی معلوم تھی۔میں پنڈی سے رائٹرز ہاوس اسلام آباد چلا گیا۔ان سے ملا۔وہاں احسان شاہ سے بھی ملاقات ہوئی۔یہ بھی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔احسان شاہ گلگت کے خوبصورت شاعر ہیں ۔یہ صفت ان میں بھی ہے ان کی شاعری میں بھی۔
وہاں کانفرنس کی تفصیلات کا علم ہوا۔پیاسا لب دریا آیا تھا۔پھر کیوں نہ پیاس بجھاتا؟مگر پہلے تیرنا سیکھا۔مطلب سرکاری دعوت نامے کے بغیر ،سرکاری مہمان بننے کا طریقہ۔۔۔۔اور اس کے لیے ادب کا کارڈ استعمال کیا۔اپنی کتابیں،افسانہ نویس،کالج میں ادب کا استاد،حاذ کا حوالہ،دکھی صاحب،تاج صاحب اور احسان شاہ کا تعارف،اکادمی ادبیات کے منتظمین سے گفتگو۔۔۔۔اور پھر اپنا شوق۔۔بس موجیں ہی راستہ بن گئیں اور ساحل مراد تک آگیا۔۔۔،اور یوں چار روزہ  کانفرنس میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
پہلا پروگرام 5 جنوری کی دوپہر کو منعقد ہوا۔اس میں وزیر اعظم صاحب مہمان خصوصی تھے۔یہ ادبی سے زیادہ سرکاری تھا۔صرف باقاعدہ مدعو کیے گئے اہل قلم ہی کو اجازت تھی یا پھر بڑی بڑی کرسی والے جلوہ افروز تھے۔اس لیے جانے کی جسارت نہیں کی۔رائٹرز ہاوس کے ایک کمرے میں بیٹھ کر ،مگر براہ راست اس تقریب کو دیکھتا رہا۔
وزیر اعظم نے ادب اور ادیب کی بہتری اور مالی معاونت کے لیے حوصلہ افزا باتیں کی۔علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ اور اہل قلم کی قدر افزائی کے لیے 50 کروڈ انڈاومنٹ فنڈ کا اعلان کیا۔گلگت سے گوادر تک ادیب اور ادب سے متعلق سہولتوں کی بات کی۔اللہ کرے ان کے اعلانات  عملی شکل اختیار کریں۔
سی پیک کے تناظر میں گلگت بلتستان کی اہمیت محتاج بیاں نہیں۔ادب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ان کی سوچوں کی تہذیب کرتا ہے۔ان کے سخت رویوں میں نرمی پیدا کرتا ہے۔جی بی کےاکثر لوگ ویسے تو صلح جو اور نرم خو ہیں ۔ان میں شیطانی حرکتیں نسبتا کم ہیں۔پھر بھی انہیں مفادپرست عناصر کے نظر فریب اور عقل کش چالوں سے بچنے کے لیے دانشمندی کی ضرورت ہے۔اور یہ صفت علم سے آتی ہے،کتاب سے آتی ہے۔اب وزیر اعظم صاحب کے اعلان کے مطابق گلگت کو بھی ادب کے قومی دھارے سے ملانا ہوگا۔اکادمی ادبیات کی چاروں صوبوں میں شاخیں موجود ہیں۔اس کا دائرہ جی بی تک بڑھانا ہو گا ۔۔تاکہ ادب اور ادیب کو درپیش مسائل کا حل نکالا جائے۔جی بی کا ادب۔۔۔اردو کا بھی،مقامی زبانوں کا بھی۔۔۔اس قابل ہے کہ سماج کی مختلف جہتوں کا ادراک کر کے اس کا اظہار کر سکے۔مگر اس کی اپنی حالت ابھی بہت پتلی ہے۔
اس لیے ادبی اداروں اور شخصیات کی قدر افزائی کی جائے۔۔۔زبانی نہیں ،یقینی۔جب جی بی میں اچھا ادب تخلیق ہوگا۔۔ادبی رویے فروغ پائیں گے۔عوام میں کتاب اور علم سے تعلق جڑے گا۔اس سے ان کی سوچ بھی ان کے رویے بھی بہتر ہوں گے۔
وزیر اعلا حفیظ الرحمان صا حب نے ایک علمی اور ادبی ماحول میں تعلیمی زندگی کا سفر طے کیا ہے۔انہیں کتاب،علم ،ادب اور معاشرے کے اٹوٹ تعلق کا علم ہے۔ان سے امید ہے اپنی بے تحاشا سیاسی اور انتظامی امور کی بھیڑ میں ،کسی کونے میں ادب اور ادیب سے متعلق بھی کوئی گنجائش نکالیں گے۔
)اس کانفرنس کے دوران پورے پاکستان کے بڑے بڑے اہل قلم کا دیدار ہوا۔جنہیں محض سنا اور پڑھا تھا۔۔۔انہیں قریب سے دیکھنے کا احساس نہایت خوشگوار تھا۔
وہاں پر ہی بلتستان کے حسن حسرت صاحب اور اسلم سحر صاحب سے ملاقات ہوئی۔نگر کے اکبر حسین اکبر صاحب سے بھی تعارف ہوا۔اکبر صاحب اکادمی ادبیات میں جی بی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ادھر ہی نلتر کے ایک شنا شاعر اور صاحب علم انسان محمد لطیف نلتریجو سے بھی تعارف کا حسین اتفاق ہوا۔ان کی شنا شاعری کی کتاب "”پوموکی ھیون "گزرے سال شائع ہوئی ہے۔شنا سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک خوب صورت اور حیران کر دینے والی کتاب ہے۔گلگت کے بہت عمدہ شاعر حبیب الرحمان مشتاق صاحب بھی وافر مسکراہٹوں سمیٹ ملے۔
اس کانفرنس کے مختلف سیشن ہیں۔چار دنوں تک یہ رنگ جمنے والا ہے۔
نظر کا ذائقہ بدلنے کے لیے چند تصویریں بھی حاضر ہیں۔تحریر یا تصویر کوئی تو آپ کو پسند آئےگی۔
اس کانفرنس کی باقی باتیں کسی اور شکل میں پھر کبھی۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button