کالمز

چترال کے مسافر اور لواری ٹنل

بشیر حسین آزاد

پیر2جنوری 2017کو چترال اور پشاور سے جو مسافر فلائنگ کوچوں،کوسٹروں اور جیپوں یا کاروں کے ذریعے اسلام آباد،پشاوریا چترال سے لواری پہنچے۔اُنہوں نے برفباری میں18گھنٹے لواری ٹنل کھلنے کا انتظار کیا۔رات کے وقت خواتین،بچوں اور بچیوں نے شدید سردی میں روتے بلکتے گزارا۔لواری ٹنل سے ان کو گزرنے کی اجازت اُس وقت ملی جب حکومت نے ایک غیر چترالی مسافر اور ان کے گھرانے کی خواتین کی حالت زار پر رحم کھاکرٹنل کھولنے کا حکم دیا۔اگر غیر چترالی فیملی سفر نہ کرتی تو چترال کے مسافر کئی دنوں تک اُسی حالت میں پھنسے رہتے یا واپس چلے جاتے۔چترال کے بہت سے مسافر حالات سے مایوس ہوکر واپس جاچکے تھے۔

حکومت کہتی ہے کہ برفباری میں لواری ٹنل ہفتے میں ایک دن کھولا جائے گا۔اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوگا۔این ایچ اے حکام چاہینگے تو دن کے12بجے کھولینگے۔چاہینگے تو شام کے5بجے کھولینگے۔مسافروں کو وقت بالکل نہیں دینگے۔1988سے2017تک30سالوں میں چترال کے مسافروں نے چھ قسم کے تجربے دیکھے۔شیرپاؤ کی حکومت میں دیر سے چترال کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہیلی کاپٹر سروس کا انتظام کیا۔جو بیحد کامیاب رہا۔میرافضل خان کی حکومت میں محمد نواز شریف نے اراندو سے نوا پاس تک 85کلومیٹرافغانستان کے صوبہ کنڑ کا راستہ کھول دیا۔یہ راستہ 2008تک استعمال ہوا۔2008میں لواری ٹنل کو ہفتے میں تین دن کھولنے کا انتظام کیا گیا۔جنرل مشرف نے 2006سے2008تک دوسالوں میں ٹنل کا کچا راستہ تیار کروایا تھا۔اکرم خان درانی نے باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنایا۔دن کے 10بجے سے رات کے 10بجے تک ٹنل کھولنے کے لئے تعمیریاتی کمپنی کو3دنوں کے کاموں کا معاوضہ ادا کیا۔2009سے2014تک یہ طریقہ جاری رہا۔امیر حیدر خان ہوتی نے بھی تعمیراتی کمپنی کو معاوضہ اداکیا۔2014میں پرویز خٹک حکومت نے پھڈا ڈالا تو ہفتے میں دو دن ٹنل کھولنے کا بندوبست ہوا۔مگر ٹائم ٹیبل نہیں دیا گیا۔این ایچ اے کی مرضی دن کے ایک بجے یا شام کے 4بجے کھول دیتے تھے۔2015اور2016اس طرح گذرگئے۔چھٹا تجربہ یہ ہے کہ پرویز خٹک حکومت نے ہفتے میں ایک بارٹنل کھولنے کا انتظام کیا ہے۔اس کا بھی ٹائم ٹیبل نہیں ہے۔ڈرائیوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہفتہ تک بے روزگار ہوجائینگے۔مسافروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دن کے سفر پر7دن لگینگے۔اُس دن ایک ہزار گاڑیاں گذرنہیں سکینگی ٹنل کے اندر دھواں بھر جائے گا۔200گاڑیوں کے بعد ٹنل کو بند کیا جائے گا۔باقی لوگ ایک ہفتہ انتظار کرینگے۔سات دنوں تک اشیائے صرف چترال نہیں آئینگی۔اخبارات اورڈاک نہیں آئینگے،انٹرویو،علاج معالجہ اور عدالتی پیشی کے لئے ایمرجنسی میں آنے جانے والے عذاب میں ہونگے۔چترال کے سیاسی جماعتوں نے کم از کم 2014کی طرح ہفتے میں دو دن ٹنل کھولنے کا مطالبہ کیا۔حکومت نے منظور نہیں کیا،سماجی اور کاروباری تنظیموں نے مطالبہ کیا،حکومت نے منظور نہیں کیا۔اسمبلیوں میں چترال کے عوام کی کوئی رسائی نہیں ہے۔صوبائی اور وفاقی حکومت میں چترال کے عوام کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔

مولانا عبدالاکبر چترالی،آفتاب احمد خان شیرپاؤ،نجم الدین خان اور صاحبزادہ طارق اللہ نے ماضی میں چترال کے عوام کے لئے آواز اُٹھائی تھی۔اس سال وہ بھی خاموش ہیں۔شہزادہ محی الدین،سرتاج احمد خان اور حاجی غلام محمد نے چترال کے عوام کی ترجمانی کی تھی۔اب وہ صورت بھی نظر نہیں آتی۔چترال بار ایسوسی ایشن کے صدر غلام حضرت انقلابی ایڈوکیٹ اور تجار یونین کے صدر حبیب حسین مغل نے چترال کو یتیم قرار دیا ہے۔

معروف کالم نگار اور تجزیہ کار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چترال کے لوگوں کو خیبر پختونخواہ میں نسلی اور لسانی اقلیت اور تیسرے درجے کے شہری کا درجہ حاصل ہے۔ 24اضلاع میں ایک بھی ڈپٹی کمشنر،ایک بھی ڈی ایچ او،ایک بھی ڈی ای او چترال کے سینئر افیسروں میں نہیں ہے۔گذشتہ 4سالوں میں چترال کو نیا ترقیاتی منصوبہ نہیں ملا2012سے پہلے کے منصوبے ادھورے پڑے ہیں2015کے سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ انفراسٹرکچر 18ماہ گذرنے کے باوجود بحال نہیں ہوئے۔اگر شانگلہ اور دیر میں زلزلہ نہ آتا تو چترال کے متاثرین کو حکومت کی طرف سے ہنگامی امداد اور معاوضہ بھی نہ ملتا۔شانگلہ اور دیر میں ہنگامی امداد دینے کے بعد حکومت کو مجبوراً چترال میں بھی اُسی طرح کا پیکیج دینا پڑا۔

چترال کے معروف عالم دین مولانا اسرار الدین الہلال نے چترال کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کو سوتیلی ماں کے سلوک سے تشبیہ دی ہے۔حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ لواری ٹنل پر کام تیزی سے شروع ہے اور جون2017کو کام مکمل کرکے اس کاافتتاح ہونا ہے اس لئے لواری ٹنل کو ہفتے میں دو دن کھولنے سے کام میں خلل پڑجائیگا۔

عوامی حلقوں اور سیاسی حلقوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر ہفتے میں ایک دن کا اور اضافہ کیا جائے تو تین مہینوں میں صرف 12دن کام متاثر ہوگا۔ان12دنوں کے بدلے اگر ٹنل کا افتتاح جو ن کے بجائے ایک دو مہینے تاخیرسے یعنی ستمبر یا اکتوبر 2017 میں بھی کیا جائے تو حکومت اور عوام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔چترال کے مسافر لواری ٹنل پر سفر کے حوالے سے بے یارومددگار ہیں۔لوگ اکرم خان درانی،امیر حیدر خان ہوتی اور آفتاب شیرپاؤ کے دور کو یاد کرتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button