کالمز

پاناما لیکس کا اہم ترین پہلو!

احمد حسن

اب جبکہ تمام تر توجہ پاناما کے اندر نواز شریف کے بچوں کی چو ری اور مبینہ منی لانڈرنگ پر ہے، جسکی تحقیق ہونی ہے، یہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ شفاف تحقیق سے خود وزیر اعظم صاحب قصوروار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم صاحب نے قوم سے اپنے خطاب میں اس بات کی سختی سے تردید کی ہے،تاہم پاکستانی اداروں اور ایجنسیوں کی پچھلے کچھ عشروں میں کی گیٗ تحقیقات میں وہ واضح طور پر ملوث نظر آتے ہیں۔ ۱۹۹۰ کی دہایٗ میں کی گیٗ FIA کی ایک رپورٹ میں(جبکہ ابھی پاناما والی کہانی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا)،لندن کی ان اپارٹمنٹس اور انکی مبینہ طور پر شریف خاندان کی ملکیت ہونے کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔اسکے علاوہ نواز شریف خاندان کی ایک بینک اکاونٹ کا بھی ذکر تھا جسکی مالیت تب ۷۰ ملین ڈالر تھی۔اسی رپورٹ میں شریف خاندان کی کچھ آف شور اکاونٹس کا بھی ذکر تھا جو کہ خدشہ ہے، وقت کے ساتھ ساتھ تعداد اور مالیت میں کیٗ گنا بڑھ چکے ہیں۔

پاناما لیکس میں ابھی تک نواز شریف کے بچوں کے نام تین کمپنیوں، نیسکول لمیٹڈ، نیلسن انٹرپرایزز لمیٹڈ اور ہنگون پراپرٹی ہولڈنگز لمیٹڈ کی تفصیلات آچکی ہیں جوکہ ۱۹۹۳، ۱۹۹۴ اور ۲۰۰۷ میں بنائی گئ تھیں اور مبینہ طور پر ان کمپنیوں کے پیسوں سے لندن کی فلیٹس خریدی گیٗ تھیں۔ شریف خاندان نے ان الزامات کی شروع سے ہی تردید کی ہے اور پاناما اخبارات کے خلاف عدالت جانے کا عندیہ بھی دیا ہے تاہم نو مہینے سے زیادہ کاعرصہ گزرجانے کے بعد بھی شریف خاندان نے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔لگتا ایسا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پرد ہ داری ہے۔

شریف خاندان کے خلاف ٹیکس چوری، منی لانڈر نگ اور بینک ڈفالٹ کی خبریں کافی عرصے سے گردش کرتی رہی ہیں ۔ پہلی مرتبہ ۱۹۹۸ میں لندن کی Observerاخبار نے باضابطہ طور پر اس بات کا انکشاف کیا تھاکہ برطانیہ میں شریف خاندان کی بیش بہا دولت جمع ہے۔یہ خبر بعد میں بہت سارے برطانوی اخبارات میں چھپا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شریف خاندان کی طرف سے ان باتوں کی کوئی تردید نہیں آئی۔اور ۱۹۹۷ میں نواز شریف جب وزیراعظم بنے تو FIAکی لندن فلیٹس کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات یہ کہہ کر بند کروادی گیٗ کہ یہ سیاسی انتقام کی بنیاد پر کی جارہی ہیں۔مان لیتے ہیں FIAکی تحقیقات سیاسی انتقام کا نتیجہ تھیں تو پاناما میں شریف خاندان کے کونسے سیاسی حریف ہیں کہ سارا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیاگیا ہے۔ بی بی سی کی ۱۳ جنوری کی رپورٹ سے پاناما لیکس کے انکشافات کو اور تقویت ملتی ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ وکیل، قانوندان، دانشور اور عام آدمی جو پڑھا لکھا ہے، اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ شریف فیملی قصوروار ہے۔ اب ہم پاکستانیوں کے لےٗ پاناما کوئی سیاسی مسٗلہ ہے نہ ہی معاشی مسٗلہ ہے بلکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ ایک سماجی اور اخلاقی مسٗلہ بن چکا ہے۔ اس بات سے قطع نظرکہ پاناما لیکس محظ الزامات ہیں یا حقیقت، مہذب قوموں نے اپنے کردار سے واضح کیا ہے کہ وہ واقعی ہی اپنے لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں۔اور انصاف کی فراہمی جو کہ اسلامی حکومتوں کا شیوہ تھااب ان معاشروں کی پہچان بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئس لینڈ کے وزیراعظم، چلی کے صدر،اسپین کے ایک وزیر، آسٹریا میں ایک ادارے کے CEO، آرمینیا، یوروگواےٗ، نیدرلینڈ، ہانگ کانگ، سری لنکا اور آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے دیگر اداروں کے سربراہان نے جوابدہی کو اپنا فرض سمجھ کر اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوےٗ اپنے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا۔ کیونکہ پاناما لیکس میں انکا نام آیا تھا۔جبکہ پاکستان میں نواز شریف کا جھوٹ بولنا ایک طرف، قوم کے وزارت اطلاعات کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ شریف خاندان کی پاک دامنی کا گیت گایا جاےٗ۔ ایسے حالات میں پاکستانی قوم کس کی طرف دیکھے اور اخلاقیات کی مثال ہم کہاں تلاش کریں۔اور اتنا کچھ سمجھنے کے بعد اور دیکھنے کے بعدہم بہتری کی کیا توقع رکھے اس سماجی نظام سے، ان حکمرانوں سے، اس انصاف کے نظام سے اور اس عوام سے۔ جہاں انصاف نہ ملے، غربت لوگوں کا مقدر بنایا جاےٗ، جہالت غالب ہواور جہاں ایک طبقہ عوام کو یہ باور کراےٗ کہ پورا معاشرتی نظام دراصل انکے خلاف ایک منظم سازش ہے تو نہ ہی عوام خود کو محفوظ محسوس کریگا اور نہ ہی پھر حکمران محفوظ رہیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button