کالمز

گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں مسلہ کشمیر کا حصہ ہے؟

کیوں نہ آج مذکورہ عنوان پر تھوڑی سی بات کی جائے ۔کیوں خوشی ہوئی آپ کو یہ جملہ پڑھتے ہوئے ۔میں بھی بڑا خوش ہوں اور دل کرتا ہے کہ آپ سے بات کر ہی ڈالوں ۔ اس جملے پر میں نے بہت سارے زاویوں سے جائزہ لیا۔ اور ہر جائزے کے بعد بات جموں و کشمیر ریاست پہ ہی آکے رکتی ہے ۔ کسی طرح سے چاہا بھی کہ یہ رکاوٹ توڑتے ہوئے آگے نکل جائوں لیکن خود کو نکال نہیں پا سکا ۔ آخر ہر زاویہ یا جائزے کی سوئی اسی مقام پہ آکے کیوں اٹک جاتی ہے۔یہ جملہ یا بات بہت پہلے کی بات نہیں ایک دھائی پہلے ہی وجود میں آیا ہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر ایک آزاد ریاست تھی جو پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی سے دنیا کے نقشے میں نقش تھی اور اس کی وہی حثیت اب بھی برقرار ہے اور اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اب یہ ریاست تین حصوں میں بٹ چکی ہے اس کے باوجود بھی دنیا اور اقوام متحدہ کے سرکاری نقشوں میں اس کی ریاستی حثیت اسی طرح قائم ہے جیسے یہ ریاست اٹھارہ سو چھیالیس میں تھی۔اب اس کی موجودہ حثیت کیسے بنی اور وہ حالات اور واقعات کیا تھے ان واقعات کا بیان یہاں غیر ضروری ہے۔میں جس بات کا تذکرہ کرنے چلا ہوں وہ آج کل استعمال ہو نے والا یہی جملہ ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں مسلہ کشمیر کا حصہ ہے۔

جیسے میں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ میری سوچ کی سوئی جموں و کشمیر ریاست سے آگے چلتی نہیں جس سے میں سن سکوں کہ آخر یہ معمہ ہے کیا۔۔گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں لیکن مسلہ کشمیر کا حصہ ہے۔میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جب گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں تو مسلہ کشمیر کا حصہ کیسے ہے؟ پھر ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ اگر مسلہ کشمیر کا حصہ ہے تو یہ کیسے اس مسلے میں الجھ کر رہ گیا؟۔ مجھے تو یہ جملہ سن کر یا پڑھ کر ہی ہنسی آتی ہے۔ ہنسی اس لئے کہ آخر ان لیڈران کو اپنی رعایا کو بھی تو مطمعن کرنا ہے ۔ اگر وہ اس قسم کے سیاسی بیانات نہ دیں تو اخر حکمرانی کیسے کریں ۔دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جملہ ادا کرنے والے خود ہی چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کے ساتھ ہی نتھی رہے اور گلگت بلتستان والوں کو مکمل حقوق ہی نہ ملیں۔ شائد یہ میری سوچ ہو۔ اس بارے تفصیل اور تشریح جملہ بولنے والے ہی کر سکتے ہیں ۔ میری اس سوچ کا محور یہ ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو کشمیر سے مکمل الگ کر دیا گیا تو اس کو ایک با ضابطہ صوبہ بنانا ہوگا جو کہ وفاق کے لئے شائد ممکن نہ ہوگا اس لئے کہ پاکستان میں بھی کئی صوبے بنانے کے مطالبے ہیں ۔۔اور اگر اس کو پورا کشمیر کا حصہ بنایا جائے تو بھی بہت ساری مشکلات اور مسائل کا پاکستانی حکومت کو سامنا ہوگا۔اب کی بار مسلم لیگ کا نعرہ بھی پیپلز پارٹی کے نعرے کے ساتھ ملاپ کر گیا ہے۔ سابق حکومت کے حکمران بھی اپنے دور اقتدار میں اس جملے کو دھراتے رہے ہیں جو اب موجودہ حکومت کا بھی موقف بن گیا ہے۔ اور موجودہ حکومت کا موقف سن کر پیپلز پارٹی والے بیوقوفوں کی طرح بگلیں بجانے لگے ہیں ۔حالانکہ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ وفاق اور گلگت بلتستان حکمرانوں کا گھٹ جوڑ ہی لگتا ہے۔ گلگت بلتستان کے سیاسی رہنماوں کے اس موقف کے بارے میں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ صاف چھبتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ اور گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے یہ بہت ہی کمزور موقف ہے اور ایک کمزور موقف کبھی بھی آئینی حقوق کے حصول کے لئے کار گر نہیں ہو سکتا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button