بلاگز

نا ظم بوا دُوا ہمدرد اکیڈمی خپلو کی سماجی خدمات پر ایک نظر

تحریر :خادم حسین نوری

 بلتستان میں درد دل رکھنے والے کئی لوگ ایسے ہیں جو ہر وقت یتیموں وغریبوں کی خدمت میں سر گرداں نظر آتے ہیں .ان حضرات کا منشورصرف اور صرف غریبوں کی خدمت کرنا ہے. یہ لوگ غریب بچوں کو بھی جدید تقاضوں کے ہم آہنگ معیاری تعلیم دلوانے کے خواہشمند ہیں.اسی لئے غریبوں کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو مٹا کر اور ذاتی فائدہ و نقصان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلا رنگ و نسل دن رات غریب نو نہالان قوم کی فکر میں لگےرہتے ہیں. غریبوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے غم میں شریک ہو کر غم کامداوا بننے والے لوگوں میں ایک اہم نام ناظم الامور بوادوا ہمدرد اکیڈمی خپلو محمد جان کا ہے. محمد جان ایک درویش صفت انسان ہیں ان کا تعلق خپلو میکسرپی کے ایک متوسط خاندان سے ہے. آج سے کئی سال پہلے محمد جان اور خپلو سے تعلق رکھنے والے ان کے چند ساتھیوں نے خپلو میں ہمدرد اکیڈمی اپنا گھر کے نام سے ایک یتیم خانہ کی بنیاد رکھی اور بلتستان بھر سے یتیم اور مستحق بچوں کو داخلہ دینے کا سلسلہ شروع کیا. اکیڈمی انتظامیہ کے کارکردگی سے متاثر ہو کر صاحب ثروت لوگوں نے اس ادارے کے ساتھ بھر پور تعاون کا سلسلہ شروع کیا.یہ پھل دار پودا جو محمد جان نے لگائی تھی آج ایک درخت کی شکل اختیار کرچکی ہے اورجس کے چھاؤں سے ہر غریب و یتیم بچہ مستفید ہو رہے ہیں. جب کبھی میں محمد جان اور ان کےادارےکے بارے میں لوگوں کے منہ سے تعریفی کلمات سنتے تھے تو سوچتا تھاکہ محمد جان اور اور ان کے ٹیم کو شائد بہت زیادہ فائدہ ہونگے. ورنہ کون اس نفسہ نفسی کے دور میں اس طرح کے کاموں کے لیے آپنے آپ کو وقف کرتےاور کبھی اس سوچ و بچار میں گم رہتا کہ ان کے کابینہ کے آفراد میں آپس میں ہم آہنگی نہیں ہے ایسے میں یہ لوگ غریبوں کی خدمت کیا کرتے ہونگے. میں کسی طور بھی ان کے حوالے سے خود کو مطمئن نہیں کر سکا.لیکن میری اس حوالے سے غلط فہمی اس وقت دُور ہوئی جب مجھے سیرت النبی صل اللہُ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کرنے کے سلسلے میں گفد و شنید کرنے اکیڈمی ہذا میں جانا ہوا. جب میں اکیڈمی پہنچ کر کسی بچے سے محمد جان کے بارے میں پوچھا تو اس بچے نے کہا کہ تندور کے سامنے والے کمرے میں محمد جان تشریف فرما ہیں آپ ان سے وہیں ملاقات کر لیجیے. یہ کوئی دوکاند نما کمرہ تھا چاروں طرف پلاسٹک کے شاپینگ بیگ چھت سے نیچے کی طرف لٹک رہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے حاجی مٹھائی کی دوکاند پر پہنچ گیا ہو. محمد جان کے برابر بیں کوئی دس بارہ سال کے دو بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔

محمد جان تیل سے ایک بچے کا کان صاف کر رہا تھا جبکہ دوسرا بچہ پرہیز کی وجہ سے ملک پیک لینے انتظار میں بیٹھے تھے تاکہ روٹی کے ساتھ کھا سکے.موصوف بچوں کے ساتھ اپنے بیٹے کی طرح انتہائی شفقت سے پیش آرہے تھے.یہ صورتحال دیکھ کر میں نے سوچا کہ گانچھے میں اگر کوئی عبدالستار ایدی کے نقش قدم پر چلنے والا کوئی شخص ہے تو وہ صرف محمد جان ہو سکتا ہے.خیر میں جان صاحب کے برابر میں جلوہ آفروز ہوا انہوں نے مجھے چائے کا پوچھا میں نےہاں کر دی جبکہ خود نے نہیں پیا کیونکہ وہ نفلی روزے سے تھے. جب میں نے بچوں کی تعداد کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہاں 80 کے قریب بچے رہاہش پذیر ہیں ان کے قیام و طعام سے لیکر تمام تر تعلیمی اخراجات ادارہ برداشت کرتی ہے. تمام بچے اعلیٰ تعلیمی ادروں میں زیر تعلیم ہیں.اس سلسلے میں ہمارے ساتھ صاحب ثروت لوگوں کی بھر پور تعاون حاصل ہے. اس کے علاوہ کئی بچے اور بچیاں ملک کے اچھے colleges اور universities میں حصول علم سے بہرہ مند ہو رہے ہیں . اس نے مجھے تھگس سے تعلق رکھنے والے طالبعلم شاہ نواز اور عنایت علی براہ کے بارے میں بتایا .وہ دونوں ماڈل سکول میں میری شاگرد بھی رہ چکے تھے دونوں کو شاعری سے بھی دلچسپی تھی .میں دونوں کو اچھی طرح جانتا تھا میرے ماڈل سکول میں پڑھاتے وقت وہ دونوں ساتھویں کلاس میں پڑھتے تھے اور بوا دوا اکیڈمی میں رہائش پذیر تھے.انہوں نے مذید کہا کہ شاہ نواز اس وقت B.E یعنی engineering کر رہا ہے جبکہ عنایت علیBsc فائنل ائر میں ذیر تعلیم ہیں وہ دونو ں اتفاق سے خپلو پبلک سکول اینڈ کالج میں پڑھتے وقت بھی میری شاگرد رہ چکے تھے ان دونوں کے تعلیمی اخراجات محمد جان ابھی تک برداشت کر رہے تھے.

یہ الفاظ سُن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی اور دل ہی دل میں ان کو دعایئں دینے لگا.باتوں باتوں میں بہت دیر ہو چکی تھی کھانے کا وقت قریب آپینچا تھا لہذا میں بھی بچوں کے ساتھ دال اور روٹی سے سیر ہوا.بچوں کے نظم و ضبط دیکھ کر میں بہت زیادہ متاثر ہوا.کھانے سے فارغ ہوتے ہی کسی بچے سے دعا پڑھوائی. جبکہ ننھے منھے دو تین بچے سو چکے تھے انہیں ایک ماں کی طرح محمد جان نے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا بعد ازاں نعتیہ محفل کا اہتمام کیا گیا۔شگر سے تعلق رکھنے والے بچوں نے سریلی آواز میں حضور سرور کونین کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا اخر میں میرے سے بھی بچوں نے کلام سنی یوں تقریب اپنے اختتام کو پہنچی.قارئین کرام جو کچھ صفحہ قرطاس کی نذر کر رہا ہوں یقین کریں حقیقت پر مبنی ہے .محمد جان کی کاوشیں بلا شبہ لایق تحسین ہے اور ان کی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ محمد جان کو ثابت قدم رکھے اور باقی تمام لوگوں کو بھی اس ادارے کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button