کالمز

چترال کلچرل اینڈ میوزیکل نائٹ

کہتے ہیں کہ سقراط جب زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگرد کریٹو نے پوچھا کہ اے استاد بتا ہم تیری تجہیز وتکفین کن رسموں کے مطابق کریں۔’’میری تجہیز وتکفین؟‘‘ سقراط ہنسا اور پھر سنجید ہ ہوکر کہنے لگا کہ’’کریٹو ! میں نے تم لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ لفظوں کو ان کے صیحح معنی میں استعمال کیاکرو مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے ۔ کریٹو! یاد رکھو کہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے ‘‘۔

ہمارے معاشرے میں بھی علمی اصطلاحات کے ساتھ اس قسم کا برتاؤکیاجاتاہے ۔ عام لوگوں کی بات ہی کیا خاص پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ثقافت، تہذیب اور تمدن کے درمیان تمیز نہیں ہم عمومی باتوں میں ان تینوں الفاظ کو ہم معنی تصور کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب بھی ہمارے معاشرے میں کلچر یا ثقافت کی بات کی جاتی ہے تو اسے صرف محفل موسیقی تک محدود کرتے ہیں حالانکہ ثقافت ایک وسیع اصطلاح ہے اور موسیقی ثقافت کا ایک جز ۔ثقافت کی تعریف یوں کی جاتی ہے کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کی رسم ورواج، ادب، انسانی لیاقت، تصورات، روایات، سماجی معاملات وغیرہ ۔ ایک اور تعریف کے مطابق ثقافت یا کلچرکسی معاشرے کے لوگوں کے علم، عقیدے، آرٹ ، اخلاقیات ، ملکی دستور، روایات وغیرہ کو کہتے ہیں ۔کیمبرج ڈکشنری ثقافت کی یوں تعریف کرتا ہےکہ، ’’کسی مخصوص وقت میں لوگوں کے مخصوص گروپ کے اطوارخاص کرعمومی روایات اور عقائد کو ثقافت کہاجاتاہے ‘‘۔یہاں عقائد سے مراد صرف مذہبی عقائد ہی نہیں بلکہ سماجی رسم ورواج اور طورطریقے وغیرہ بھی اس میں شامل ہے ۔

ان سارے معروضات کے بعد اصل موضوع کی جانب آتے ہیں ۔گزشتہ دنوں خیبر پختونخواہ حکومت کے ثقافتی ادارہ ’’کے پی ڈائریکٹریٹ آف کلچرل ‘‘ نے ’’ڈسٹرکٹ یوتھ فورم کے ساتھ مل کر پشاور میں ’’چترال کلچرل اینڈ میوزیکل نائٹ ‘‘ کے نام سے ایک محفل موسیقی کا انعقاد کیا ۔ جس میں چترال کے کہوار زبان کے کئی فنکاروں کو مدعو کیا گیا تھا اس کے علاوہ لطیفہ گوئیوں کا گروپ بھی اس میں مدعو تھا ۔ گو کہ اس آپا ہپی اور غیر یقینی صورتحال میں پشاور جیسے حساس شہر میں اس قسم کے ادبی پروگرامات یقیناًحوصلہ افزا ہے البتہ اس کے ساتھ ہی چند اعتراضات بھی پیش کرنے کی جسارت کررہاہے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ پشاور میں منعقدہ اس پروگرام میں صرف محفل موسیقی منعقد کی گئی تھی، باقی ثقافت کا کہیں نام ونشان نہیں تھا ۔ ساتھ ہی ساتھ پروگرام کے منتظمین پروگرام میں نظم وضبط کو برقراررکھنے میں بری طرح ناکام رہے کیونکہ انتظامی رضاکار اپنے سینے میں کارڈ سجائے اسٹیج پر موسیقی سے محظوظ ہورہے تھے دوسری جانب عوام کے ہجوم کو راستہ دکھانے اور انہیں مخصوص نشستوں تک پہنچانے کا کوئی خاص بندوبست نہیں تھا جو کہ انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتاثبوت ہے ۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ انتظامیہ نام کی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں تھی جبکہ بے قابو ہجوم جو چاہتے تھے ہنگامہ خیزی کرتے پھر رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ پروگرام اپنے آغاز سے آخر تک بدنظمی کا شکار رہا ۔

علاوہ ازین ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ضلع چترال میں چودہ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اگر چترال کو ایک باغ کہاجائے تو چودہ زبانین بولنے والے اس باغ کے خوبصورت پھول ہے ۔ جو اپنی خوبصورتی اور خوشبو سے اس پورے باغ یعنی چترال کو معطر کئے ہوئے ہیں ۔ یہ چودہ زبانین چودہ ثقافتوں کی نمائندگی کررہی ہے جو کہ ملا کر چترالی ثقافت کہاجاتاہے ۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کیاجائے تو باغ کی خوبصورتی نہیں رہے گی ۔

پشاور میں جو پروگرام منعقد کیاگیاپہلی بات یہ ہے کہ اس میں ثقافت کے جملہ اجزاء شامل نہیں تھے۔ اس لحاظ سے اسے کلچرل کی بجائے میوزیکل نائٹ ہی کہاجاتا تو زیادہ بہتر تھاکیونکہ میوزک کے علاوہ ثقافت کے دوسرے اجزاء سرے سے موجود ہی نہیں تھی تو پھر’ کلچرل نائٹ‘ لکھ کر ثقافت کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس پروگرام میں صرف چترال کی صرف ایک زبان کہوار کی نمائندگی موجود تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چترال کی سب سے بڑی اورگلگت بلتستان کی دوسری یاتیسری بڑی زبان کہوار ہے ۔ البتہ اس پروگرام میں باقی ماندہ تیرہ زبانوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی جو کہ ثقافت دشمنی اورکہو قوم کے علاوہ چترال میں رہائش پزیردوسرے اقوام کے ساتھ سراسر ناانصافی کے مترادف ہے۔ اگر یہ چترال کلچرل اینڈ میوزیکل نائٹ تھا تو چترال کے سارے چودہ زبانوں اور ثقافتوں کی بھرپور نمائندگی ہونی چاہئے تھی ۔ دوسری جانب کہو ثقافت کو بھی صرف موسیقی اور کاپھوڑ تک محدودرکھ کر اس ثقافت کی دھجیاں بکھیر دی گئی ۔ اسٹیج سیکٹری جو کہ کہوار زبان کے بلند پایہ شاعر اور ادیب ہیں، وہ بھی بار بار چترالی زبان اور چترالی ثقافت کہہ کر اس پروگرام کو یاد کرتے رہے۔ اگر کہوار کے لئے کہو شاعر ہی چترالی وار کی اصطلاح استعمال کریں تو گلگت بلتستان کے عظیم کہو شعراء ادباء اور کہو قوم کا کیابنے گا؟کیا ہم بھول گئے کہ غذر سے تعلق رکھنے والے رحمت علی نے دودہائیوں سے زائد عرصے تک کہوار موسیقی وشاعری پر راج کیا ۔ مظفر الدین بیگانہ اور اشقامن سے تعلق رکھنے والے ممتاز علی انداز نے بھی کہوارادب وشاعری کی ترویج میں کلیدی کردار اداکیاہے؟

ایک اور قابل ذکر امر جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ کہ ہمارے معاشرے میں بے مقصد لطیفہ گووں کو تو لوگ سروں پر بٹھاتے ہیں البتہ کسی دانش ور ، ادیب یا مصور کی قدرنہیں کرتے۔ یہی کچھ پشاور میں منعقدہ ’چترال کلچرل اینڈ میوزیکل نائٹ‘ میں بھی دیکھنے کو ملا ۔ انتہائی آفسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہاہے کہ منور شاہ ، جبار اور توکل خان کو اسٹیج پر بلا کر کامیڈی( جس کا اردوترجمہ شائد مزاح نگاری ہوگا) کے نام پر جو بے مقصد اور غیر سنجیدہ ڈرامہ بازی کی گئی انہیں دیکھ کر اپنے مادری زبان اور ثقافت کی زبوں حالی پر دل خون سے آنسو تو بہت روئے ۔ ان تینوں حضرات کی بے مقصد اونٹ پٹانگ پر حاضرین زور سے قہقہہ لگاکر اور تالیاں بجا کر ان کی اس فضول حرکات پر داد دیتے ہیں ۔ حالانکہ مزاح ادب کی ایک بہترین صنف ہے جس میں انتہائی غیر مرئی انداز سے کسی بھی سماجی ومعاشرتی یا سیاسی برائی کو زیر بحث لایاجاتاہے ۔لیکن ہمارے کامیڈین انتہائی اونچی آواز نکال کر یا ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو کر اسے مزاح نگاری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس سارے مظہر کو دیکھ کر ایسا لگا جیسا کہ یہ قوم شور مچانے اور انتہائی اونچی آواز میں ایک دوسرے سے جھگڑنے کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں ۔بھلا ان صاحبان کو بار بار اسٹیج میں بلا کراس قسم کی غیر سنجیدہ حرکتیں کروانے سے کونسی ادب یا ثقافت کی پزیرائی ہوئی ؟

دوسری جانب چترال کے غیور نوجوان جو سوشل میڈیا میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر ثقافت اور تہذیب پر تقاریر کرتے ہیں ان کی تہذیب کا یہ عالم تھا کہ ہر گانے کے لئے دس دس پندرہ پندرہ افراد ناچنا شروع کردیتے او رناچتے بھی کیا اسٹیج پر عجیب وغریب حرکت کرتے ہوئے میوزیکل شو کی بدمزدگی میں مزید اضافہ کرتے رہے ۔چترال کا یہ دستو ر رہاہے کہ جب کہیں محفل موسیقی منعقد کی جاتی تھی توہر ساز کے لئے صرف مخصوص ماہر رقاض رقص کرتے اور باقی تالیاں بجا کر انہیں داد دیتے ۔ البتہ کلچر کے ایسے محافظ پیدا ہوئے ہیں کہ فیس بک میں لمبی لمبی تقریرین اس موضوع پر لکھتے ہیں لیکن ان اصولوں کی پاسداری کو واجب نہیں سمجھتے جو ہمارے آباواجداد کی میراث رہی ہیں۔ایسا لگتاہے کہ آج ہمارامعاشرہ سماجی اقدار کو پاؤں تلے روندنے والے ایسے بے ترتیب نام نہاد تعلیم یافتہ ہجوم کے کنٹرول میں ہے جو روایات کو توڑ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہماری روایات کو بیرونی یلغار سے کوئی خطرہ نہیں البتہ اپنے معاشرے کے تربیت سے محروم تعلیم یافتہ طبقے کی وجہ سے ہمارے سماجی اقدار تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔

پس تحریر: مہمان خصوصی کو اسٹیج پر بلا کر تقریر کروانے کے بعد ان کے ذریعے ٹرافی تقسیم کی گئی۔ منتظم صاحب نے مہمان خصوصی کے ذریعے اپنے آپ کو شیلڈ دلواکر حاضرین سے زبردست داد وصول کی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button