شعر و ادب

ادب نامہ (ادبی بورڈشگر)

علی فر ز اد شگری

اد بی بور ڈ شگرخالصتا ایک ادبی تنظیم ہے۔علا قے کے چند با ذوق اور ادب نواز نو جوا نوں نے انیس سو اٹھا نو ے میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔اپنی ا بتدا سے یہ تنظیم اپنی مد د اپ کے تحت علا قے میں ازبان و ادب کو فرو غ دیے کیلے کوشاں ہے۔اب تک اس پلیٹ فا رم سے تین معیا ری اور مستند تصا نیف شا یع ہو چکی ہیں۔نقیب آزادی،بلتی لغت،اور شوق بجیس تینوں بلتی زبان و ادب کی شا ہ کار تخلیقات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اپنی ان تصا نیف میں را جہ محمد علی شا ہ صبا صاحب نے انتہایے مہا رت سے با لخصوص سر ز مین شگر با ا لعمو م پور ے ر بلتستان کی تا ریخ،زبا ن و ادب اور ثقافت سے متعلق اہم اور نا در معلو مات سے نیے نسل کو آگاہ کرانے کی ایک کا میا ب سعی کی ہے۔علا قے کی واحد ادبی تنظیم ہو نے کے نا طے اس تنظیم کی مصرو فیات اور مشکلات میں روز افزوں اضا فہ ہو نا ایک فطری امر ہے ۔لیکن ان مشکلات سے مقا بلہ کر نے سے اس تنظیم کے ممبران نے کبھی بھی گریز نہیں کیا ہے جس کی بدو لت یہ تنظیم اپنا ادبی سفر جا ری رکھنے میں اب تک کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔
ادبی بورڈ شگر کی اد بی خد مات بر سوں پر نہیں بلکہ عشروں پر محیط ہیں غا لبا سر ز مین شگر میں با قا عدہ اور منظم مشا عرے کی با قا عدہ طور پر پر بنیاد اسی تنظیم نے رکھی۔مشاعروں کا یہ تسلسل اب بھی اپنی پو ری آب و تاب کے سا تھ جا ری ہے۔ان مشا عروں نے سر ز مین شگر کے با ذوق با سیو ں کے ذوق ادب کو مز ید مہمیز کر کے رکھد یا۔
اردو زبا ن کی مشہور تنقید نگار رام با بو سکینہ کے بقول ان کے زما نے یا اسکے کچھ عر صہ پہلے کے ادو ار میں عام طور پر مشا عروں کی تین سطحیں ہوا کر تی تھیں۔ایک سطح تو وہ تھی،جس میں اہل ذوق اور شا عر حضرات ایک متعین اور مقر ر ہ دن یا ہر ماہ کسی ایک صا حب فن یا صا حب علم کے ہا ں جمع ہو تے،محفل مشا عرہ جمتی اور سب اپنا اپنا کلام سنا تے۔اس کلام پر تنقید بھی ہو تی تھی اور بحث بھی۔اس طرح شعری روا یتوں اورقوا عدو ضوا بط سے انحراف کی گنجا یش تقر یبا نا ممکن نہ سہی تو مشکل ضرور خیال کیا جا تاتھا۔مگر انتہا یی جسا رت کے سا تھ اس حقیقت کا اظہار کر پڑ تا ہے کہ متذ کرہ با لا مشا عروں اورفی زما نہ مشا عروں کے معیا رات کا توا زن بر قرار نہ رہا۔ان ادبی اور علمی معیا رات کی بگاڑکے کیے وجو ہات ہو سکتی ہیں۔ ان و جو ہا ت میں سے پہلی وجہ لا زما استا دی اور شا گردی کی ر وایت سے انحراف ہے۔استادی اور شا گردی کی روا یت ا نتہا یی قدیم مگر موثر ثا بت ہو یی ہے ۔اس روا یت نے جہا ں ز بان و ادب کو نا تجر بہ کاراور نو نہال شعرا اور لکھا ر یو ں کی کج فہمیوں کی گزند سے بڑی حد تک محفوظ رکھا وہا ں زبان و ادب کے تہی دست دا من کو بے مثال شعری محا سن سے بھر د یا۔ نتیجے کے طور پر زبان و ادب کا چہرہ اب بھی مثل خور شید و قمر منور ہے۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس نور سے فییضیا ب ہو نے سے نیی نسل کنا رہ کشی اختیار کر ر ہی ہے۔اس کے مقا بلے میں جد ید یت کے یہ اند ھے پجا ر ی دور جد ید کے چند بے سرو پا سا مان تفر یح سے اپنے دل بہلا نے پر تلے ہو ے ہیں۔دور حا ضر کے توا نا د ا نشور اور شاعر افتخار عا رف کا کہنا ہے کہ آج کی نیی نسل کتب بینی جیسی عظیم اکتساب علم اور ذہنی تفر یح سے رو گر دا نی اختیار کر رہی ہے۔جس سے سماج کی فکری و تخلیقی صلا حیتوں کو شد ید امکا نی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
یقیناًاس عظیم دا نشور نے نیی نسل کی اصل کمزوری بھا نپ لیتے ہوے اس کے سنگین نتیجے سے ہمیں آگاہ کیا۔اگر ہم بھی اپنے سماج پر نظر دوڑا ییں تو ہم ان کم زو ر یوں کا بآسانی مشا ہد ہ کر سکتے ہیں۔کسی حد تک مروجہ علوم کے جز ییات سے بہرہ مند ہو نے کے سا تھ ساتھ علم و دانش کے لاز می اور ضرو ری کلیات سے عاری یہ نسل نہ صرف اپنی ہستی کیلیے بلکہ پو ر نیے سماج کیلیے نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان کے مترا دف ثا بت ہو سکتی ہے۔اب بھی وقت ہے ،کہ ان کمزو ریوں سے چھٹکا را حاصل کرنے کے لیے علمی بنیا د پر کام کیا جاے۔درج بالا سطور میں ماضی قریب کے مشا عر وں اور دور حاضر کی مشاعروں کے معیارات کے توا زن کی بگاڑ زیر بحث تھی ۔ان وجو ہا ت کا تفصیلی جا یزہ لینے کے لیے وقت کے دامن میں گنجا یش مو جود نہیں ،لیکن اس اہم مسلے سے منہ موڑا نہیں جا سکتا۔مستقل بنیاد پر اس مسلے کے حل کے لیے ما ہر ین سے مشورے کی ضر ورت ہے۔
ادبی بورڈ نے ما ضی قر یب اور دور حا ضرا کے ا دبی و علمی محا فل اور نشستو ں کے معیا رات کی توا زن کی بحا لی کا جو بیڑا اٹھا نے کی کو شش شروع کی تھی اسمیں ابھی بہت کچھ کرنا با قی ہے۔گلگت بلتستان کے دو سرے علا قوں کی ادبی تنظیموں کے ساتھ ہما ری تنظیم کے گہرے اور پا ییدار مرا سم کی موجود گی ا نہی کو ششوں کی عکا س کے علا و ہ اور کچھ نہیں۔بزم علم و فن سکردو کے ساتھ ادبی بورڈ کا لا زوال رشتہ ادبی و علمی بنیاد پر استوار ہے۔حلقہ ار با ب ذوق گلگت کے شعرا بھی ادبی بوردڈ کے ادبی محا فل میں شر کت کر چکے ہیں۔مجھے امید ہے کہ یہ خوبصورت رشتے اور روابط مستقبل میں بھی قا یم و د ایم رہیں گے اور ادب اور اہل ادب ہمیشہ اہل سماج کے دلوں پر حکمرانی کر تے رہیں گے۔
ادب اور اہل سے متعلق میں یہاں سماج کے عام طبقے کے ذہنوں میں مو جود چند غلط فہمیوں کا تذکرہ کرنا ضرو ری سمجھتا ہوں ۔ اگرچہ میں بخوبی جانتا ہوں کی ان غلط فہمیوں کی روا یت کا فی پرانی ہے۔میری ایک کمزور گزا رش سے یہ پا رینہ ودیر ینہ چپقلش ختم نہیں ہو گی۔روز ازل سے یہ روایت مخلو قا ت عالم کی خلقت و فطرت کے اندر رچی بسی ہو یے ہے۔ یہ رچی بسی ہو یے فطرت ہر چیز کا مثبت اور منفی پہلو ہے۔جب تک یہ دو نوں پہلو متحر ک نہیں ہوتا کسی بھی عمل کا نتیجہ بر آ مد نہیں ہوتا۔لیکن اس کی حرکت کو نقطہ اعتدال سے تجا وزکی اجا زت نہیں ،اس صورت میں تجا وزات کے نیے در وا ہو نگے۔پھر ان نیے تجاوزات سے چھٹکارا پانا انتہا یی مشکل ہو گا۔لہذا اگر یہ دونوں پہلو اپنے اعتد ال میں رہیں ، تو ہر عمل راہ اعتدال پر گامزن رہے گا ،ورنہ ہر خلقت سے فا ید ے کا کم اور نقصان کا زیادہ امکا ن رہتا ہے۔مثال کے طور پر اگر بجلی کے مثبت اور منفی رو اپنے اپنے دا یرہ کار کے اندر سر گرم عمل رہیں تو اس معتدل عمل کے نتیجے میں رو شنی پیدا کر نے کے ساتھ ساتھ تمام برقی آلات کو متحرک کر کے مشکل سے مشکل کاموں کو آ سان سے آسان کر کے رکھد یتے ہیں اس کے بجا ے اگر یہ د و نو ں بر قی رو اپنے معمول اور اعتدا ل سے ہٹ جا یں،تووہ اپنے آس پاس میں مو جودتمام چیزوں کو جلا کر راکھ کر ڈالیں گے ۔با لکل اسی طرح اہل سماج کو بھی اپنے مثبت اور منفی پہلو کو راہ اعتدال پر گا مزن رکھنا ہو گا ورنہ ہما را اپنا معا شرہ تبا ہی کا شکار ہو گا۔اس کا مطلب یہ با لکل نہیں کہ کو یی بھی معا ملہ جو ادبی ہو یا علمی سیا سی ہو یا کہ معاشی کے با رے میں آ پ اپنی تن قید ی آرا لکھنے یا بیا ن کر نے کے حق سے دستبر دار ہو جا ییں۔ بلکہ تعمیری تنقید ی کی روا یت کو بر قرار رکھنا اور اس کو علمی،ادبی،اور سیا سی ما حول میں زیا دہ سے زیا دہ فرو غ دینے کی ضرورت ہیاس کے بغیر کویی بھی معا شرہ نقطہ اعتدال پر گا مزن نہیں رہ سکتا۔
ما ضی میں حکو متی سطح پر زبان و ادب اور اہل علم و ادب اور ان کی خد مات کو بلا تعطل یکسر نظر اندا ز کیا جا تا رہا ۔یہ سلسلہ اب بھی جا ری ہے ،لیکن حال ھی میں مو جو دہ حکو مت نے ادب اور اہل علم و ادب سے متعلق ایک امید افزا بیان کے ذ ر یعے اس شعبے سے مر بو ط شخصیات کی دل جو یی کر نے کی کو شش کی ہے ۔ضرب عضب کے نام سے وطن عز یز کے دشمنوں کے سا جو جنگ کا میا بی کے ساتھ جا ر ی ہے ۔اس کے مقا بلے میں حکو مت کی نیی اور جاندار پا لیسی ضرب قلم جہا لت ،غربت اور انتہا پسند ی کے خلاف انتہا یی کا ر گر ثا بت ہو گی۔اس پا لیسی پر عمل در آمد ھو یا نہ ہوادب اور اہل ادب کی ہی جیت ہو گی ۔چو نکہ ایک دفعہ پھر حکمران طبقے نے اس اٹل حقیقت کی تا یید کی ، کہ زبا ن و ادب ہی وہ وا حد آ ہنی ہتھیا ر ہے جس کے ذریعے سے ملک دشمن عنا صر اور جہا لت کو شکست فا ش دے سکتی ہے ۔ یہ بات با لکل صحیح ہے ،اگر آپ تا ریخ اقوام عالم کا مشا ہدہ کر یں تو اس حقیقت کا پتہ چل جاے گا، کہ دنیا کی مو جو دہ مہذب اور تر قی یا فتہ قو مو ں نے اپنی قوم کو جہا لت و غربت کی چنگل سے کتاب و قلم کے ذ ریعے نجات دلا یی ہے ،نہ کہ با رود بندوق کی طا قت سے۔
زبان و ادب سے متعلق یہاں اس اہم نکتے کو بھی عرض کرتا چلوں کہ ان د نوں ایک طبقہ اپنا وجود منوا نے کی فکر میں لگا ہوا ہے اور صرف ز با نی حد تک ادب اور اہل ادب کا گن گا تا رہتا ہے ۔مگر عملی طور پر ادب کے لیے ان کا ہونا یا نہ ہو نا کو یی معنی نہیں رکھتا ۔یہ طبقہ نہ صرف بری طرح فکری انحطاط کا شکار ہے بلکہ اپنی طرف سے من ما نی تعبیر ات اور تا و یلات کا سہارا لیتے ہو ے تا ر یخ ادب کی مشکوک اور مخلو ط افکار و نظریات کے حامل افراد کو ہیرو بنا نے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے ۔اور اصل ادبی شخصیا ت پر کیچڑ ا چھا لنے کی نا کام کو شش کرتا رہتا ہے ۔ لیکن اس طبقے کے افکار و نظر یات ابھی تک صفحہ قر طا س پر تو نہیں آ یا۔ اب تک جو کچھ اس بارے میں وقو ع پذ یر ہو چکا ہے وہ صرف زبا نی جمع خرچ پر مشتمل ہے ۔لہذا سبا رے میں کویی دستا و یزی ثبو ت فرا ہم نہیں کیا جا سکتا۔ورننہ مکمل کوا یف کے سا تھ پیش کیا جا تا۔ یہ بات قا بل ذکر ہے کہ یہ طبقہ صرف مو جودہ دور سے مخصوص نہیں ہے ،ہر دور میں مو جو د رہا ہے،لیکن اپنے مقا صد کے حصول میں ہمیشہ نا کام رہا ہے ۔
یہ خوا ہش فطرت انسانی کاجز ہے کہ انسان کا ہمیشہ زوال سے کمال کی جانب کا ار تقا یی سفر جا ری رہے ،اس خوا ہش کی تکمیل کے لیے انسان نے اپنی جان کو بھی د ا و پر لگا نے سے دریغ نہیں کیااوراس را ہ میں حا یل تمام ر کا و ٹوں کے ساتھ بڑی دل جمعی کے سا تھ مقا بلہ کیا ۔اس کے نتیجے میں انسا ن کا یہ فطری حسن جا و یدان زندگی کا مالک بننے میں کا میاب ہوا۔فطرت انسا نی کے اس حق ملکیت کی تحفظ ہما ری بھی ذ مہ داری ہے ،لہذا ہم بھی کار وان خوا ہش فطرت انسا نی کے اس ار تقا یی سفر کے شر یک سفر بنیں۔تاکہ کما ل کی منز ل تک ہما ری بھی ر سا یی ممکن ہو۔فطرت انسا نی سے مخصوص اس لا زوال مقام منز لت کے حصول کے لیے ہما ری کا و شو ں کا تقا ضا یہ ہے ،کہ ہم با کمال لو گوں کی نقل اتا ریں،کیو نکہ بڑے اور با کمال لو گو ں کے حا لا ت زند گی کا مطا لعہ ھی کا میا بی کاپہلا زینہ ہے۔ان کی اچھی صفا ت کو اپنا کر ہم کما لات کا ما لک بن سکتے ہیں ۔یہاں آکر ایک سا دہ اور اختلاط کا شکار انسان اس تذبذب کا شکار ہو تا ہے، کہ کون سے لوگ با کمال ہیں ۔کتا بوں میں دو نوں صفات کے حامل انسا نوں کے تذ کرے مذکور ہیں ۔کسی صاحب کتاب نے تا ر یخ کے کسی ظالم و جا بر انسان کوہیر و بنا کر پیش کیا ہے تو کسی مصنف نے کسی کھلاڑی یا فلمی ہیرو کو با کمال لو گوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔حا لا ت حاضرہ اسی فکری انحطاط کا نقشہ پیش کرہی رہے ہیں۔پرنٹ اور سو شل میڈ یا بھی اس فکری انحطاط کی افزا یش کے لیے ممد و معا ون ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کے سکرینوں اور صفحات پر دا دو تحسین کے نعرے کسی کر کٹ کے کھلا ڑی کے چھکے رسید کرنے کے عوض تو ٹی وی سکر ین میں گو نجتے ہیں، لیکن یہی میڈ یا کسی کا میاب سا ینسدان کی سا ینسی پیشرفت کے لیے انجا م پا نے وا لی کا وشو ں یا ان کے حا لات زند گی کے با رے میں کو یی سلسلہ وار پرو گر ام تشکیل دینے کی زحمت گو ا را نہیں کرتی ۔ آپ بخوبی وا قف ہے کہ آج کل معا شر ے کی سیا سی،اقتصا دی ،علمی اور فکر ی اتا ر چڑھا و کی بھاگ دوڑ میڈ یا کے ہا تھوں مقید ہے ۔اگرمیڈیا کی مذ کورہ با لایہ روش جاری رہی تو نیی نسل یا پو ری کی پوری کھلا ڑی بن کر کھیل کے مید ا نوں کی زینت بن کر رہے گی یا تو فلمی ہیروز اور ہیرو ینوں کی نقل اتارتے ہی رہے گی ،کم از کم میں نے تو آ ج تک کو یی ایسا بچہ نہین دیکھا جوکسی علمی یا با کمال شخصیت کی نقل ا تار نا چا ہتا ہو ،اگر مییڈیا اپنی یہی کو ششین ان تفر یحی پرو گر ا موں کے سا تھ سا تھ علم و ادب کی تشو یق و تر و یج کے وا سطے برو ے کار لا یی گیی ہو تی تو اس طرح کا جہا لت اور د ہشت گر دی کا شکار معا شرہ ہما ری آ نکھوں کے سا منے جنگ و قتال اور مفلو ک الحالی کا منظر پیش نہ کر رہا ہوتا۔
آخر میں اس ا مید کے ساتھ اپنے سلسلہ کلا م کو سمیٹنا چا ہتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں کہ ہما رے سماج سے غربت ،پسما ند گی،جہا لت،انتہا پسندیاور دہشت گردی کا ضرور خا تمہ ہو جا یے گا ۔اور علم و ادب اور فکر دا نش کا دو ر دو رہ ہوگا البتہ یہ بات ضرور یاد رکھنا،کہ، ایسی تبد یلی کسی جا بر حاکم کی فوج ظفر موج کے زور با زو سے نہیں بلکہ قلم اور اہل قلم کی فکری اور علمی کا وشوں سے آ سکتی ہے ۔تا ریخ اقوا م عا لم میں کیی ایسی مثا لوں کا ہم مشا ہدہ کر چکے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button