کالمز

چھوربٹ میں بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ۔۔۔ ذمہ دار کون؟

تحریر:عارف نواز، طلب علم بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان

دریا شیوک کے کنارے او ر بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں واقع خوبصورت وادی چھوربٹ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ وادی 14 خوبصورت گاوں ڈاو ،امیرآباد کواس ، مرچھا، حسن آباد، کومیک، پرتوک، پیون، سکسہ، کالان، سخموس، چھوار، تھونگموس، سیاری او ر فرانو اور 6 گاوں جو اب انڈیا کے قبضے میں ہیں جن میں تھنگ، ٹیاقسی ، ترتوک، چھولونگھا اور بیقدن پر مشتمل ہے۔

اس وادی کو شاید کسی کی نظر لگ گئی ہے کیونکہ ایک دور تھا جب یہاں 365 دن ، 8760 گھنٹے ،525600 منٹس روشنی ہی روشنی ہوتی تھی۔لیکن اب المیہ یہ ہے کہ یہ خوبصورت وادی ہر وقت تاریکی میں ڈوبی رہتی ہے۔اس دور جدید میں بھی چھوربٹ کی غریب عوام ان لوگوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے جو لالٹین او ر موم بتیوں کے ذریعے اپنے گھروں کو روشن کیا کرتے تھے۔ ایک دور تھا جب شاعر حضرات اپنی شاعری کے ذریعے قوموں کو غفلت کی نیند سے بیدار رکھتے تھے۔ لیکن گلگت بلتستان میں شاعروں کا یہ کام PWD گلگت بلتستان بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں ۔
جگا سکتی ہے شعر و شاعری قوموں کو غفلت سے
دعائیں ہم تو لیکن دیں گے اس بجلی کی قلت کو
نہیں اقبال نے اتنا جگا یا قوم کو ہر گز
رکھا ہے واپڈا نے جس قدر بیدار ملت کو

PWD والوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے پہلے علاقے میں پاو ر سٹیشنز نہ ہونے کا بہانہ بنا کے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا لیکن اب تو این جی اوز نے کئی گاوں میں پاور سٹیشنز بنانے کے باوجود لوڈشیڈنگ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔چھوار ، مرچھا، تھونگموس میں این جی اوز نے پاور سٹیشنز بنائے ہیں او ر حسن آباد اور پیون میں ایک ایک میگاواٹ کے پاور سٹیشنز موجود ہیں لیکن ان سب کے ہونے کے باوجود عوام تاریکی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پہلے بجلی کی پیدوا ر کم او ر طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔ لیکن جب سے حسن آباد پاو ر ہاوس بنایا گیا ہے تب سے PWD کے عہدے داران اور آرام پرست او ر نکمے ورکرز نے پیون بجلی گھر کو لاورث بچوں کی طرح نظر آنداز کیا جانا میری سمجھ نہیں آرہا۔حالانکہ ان کو چاہیے تھا اس پاور سٹیشن کو بھی حسن آباد پاو ر سٹیشن کی طرح فعال رکھا جاتا لیکن عہدئے دار ننے بچوں کی طرح سلوک کر رہے ہیں ۔بچوں کو جب کوئی نئی چیز مل جائے تو وہ پرانے کو بھول جاتے ہیں بلکل اسی طرح یہ لوگ بھی پہلے پاو ر سٹیشن کو بلکل بھول گئے ہیں۔ پیون میں موجود پاور سٹیشن کو بند پڑئے ہوئے دو سے تین سال کا عرصہ بیت گیا لیکن اب تک اس کو ٹھیک نہیں کیا گیا۔یہ قیمتی مشینریاں اس طرح ضیاع ہو رہی ہیں لیکن حکومت کا اس طرف بلکل د ھیان ہی نہیں۔

آٹا جو روز مرہ زندگی کی ایک اہم ضرروت ہے لیکن غریب عوام بجلی نہ ہونے کے باعث گھنٹوں اور بعض ا وقات دنوں اور ہفتوں کا انتظار کرنے پر مجبور ہے۔اب یہا ں خپلو کا بھی نا م نہ لوں تو نا انصافی ہو گی کیونکہ اس بجلی گھر نے اپنے بنتے ہی خپلو والوں کو بھی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہوا تھا ۔ اس لئے باری باری خپلو او ر چھوربٹ والوں کے ضروریات کو پور ا کرنا اس اکیلے پاور ہاوس کی اولین ڈیوٹی ہے ۔ یہ بجلی گھر جب بن رہا تھا تو اس وقت یہ کہا گیا کہ یہ صرف آپ چھوربٹ کی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنایا جا رہا ہے ۔لیکن جب یہ بد قسمت بجلی گھر بن گیا تو PWD کے ا فسر شاہی کو خیال آیا کہ اس غریب عوام سے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بجلی خپلو لائی جائے لہٰذا آفسر شاہی اور دوسرے عہدے داران نے اس غریب عوام سے یہ کہہ کے بجلی کو خپلو لایا گیا کہ یہ بجلی گھر ہم نے خپلو جو کہ ہمار ا ہیڈ کواٹر ہے وہاں کی ضروریات کو پورا کر نے کے لئے بنا یا گیا تھا اس لئے یہاں کی بجلی پہ ہمارا بھی حق ہے۔اس طرح یہ لوگ دوسروں کے گھروں کو تاریکی میں ڈال کے اپنے گھروں کو روشن کیے جارہے ہیں۔

چھوربٹ کی غریب عوا م کر ے بھی تو کیا کرے ان کو اپنا حق دوسروں سے چھیننا بھی نہیں آتا ہے۔یہ لوگ صرف افسوس کر سکتے ہیں کیونکہ اس غریب عوام کا کہنا ہے محکمہ بجلی میں علاقہ چھوربٹ سے کو ئی بڑئے آفیسرز نہ ہو نے کی وجہ سے ہمیں اپنے حق سے محروم ر کھا جا رہا ہے۔

ایک بات اور کہ یہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہا ں موسم کا کچھ پتہ نہیں چلتا جب کبھی یہاں بارشیں ہوتی ہیں تو ہبوطِ ارض( لینڈ سلائیڈنگ ) کی وجہ سے پاور سٹیشن کے پائپ لائنز ڈمیج ہو جاتے ہیں اس لئے بھی کئی ہفتوں تک لوگ بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبو ر ہو جا تے ہیں۔ لیکن اس مسلے کو حل کرنے کے لئے بھی کبھی کوشش تک نہیں کی گئی ہے۔

اس اہم ایشو کے حوالے سے یہاں کی عوام او ر راہنماوں کا غیر سنجیدہ رویہ بھی اس اہم مسلے کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے۔یہاں چھوربٹ سے ایک رکن جی بی کونسل،دو ممبر قانون ساز اسمبلی اور ایک اس حلقہ کا منتخب کردہ رکن قانون ساز اسمبلی کے ہونے کے باوجود عوام کو درپیش ان مسائل کا حل نہ ہونا افسوس کی بات ہے۔ ٹھیک ہے ہیڈ کواٹر ہو نے کے ناطے وہاں بجلی کی کافی ضرورت ہوتی ہے لیکن صوبائی حکومت خاص کر ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ پیون چھوربٹ کے بجلی گھر کو بھی فعال بنائے اور صرف آفس کے استعمال کے لئے بجلی خپلو لائی جائے۔باقی چھوربٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چھوڑ دیں اس طرح یہ غریب عوام ان سیاہ راتوں کی تکلیف دہ زندگی سے بچ جائیے گی ۔اگر پھر بھی بجلی کی ضرورت ہو تو لونگھا او ر ا میر آباد میں پاو ر سٹیشنز بنائے جائیں تاکہ بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button