کالمز

خوش گمانیوں کا راج 

 اگر کہیں خوش گمانیوں کا راج ہو تو وہاں زندگی کے تلخ حقائق کا ادراک بہت ہی مشکل سے ہوتا ہے ،ستم پر ستم اگر کسی قوم کے رہنما بھی ایسے ہوں کہ جو قوم کو خوش گمانیوں کی سحر انگیز میں دنیا میں پہنچا کر اپنے مفادات سمیٹتے ہوں تو اس قوم کا تو خدا ہی حافظ ہے ،خوش گمانی بری عادت نہیں لیکن حد سے بڑہ جائے تو یہ بھی مستقل بیماری بن جاتی ہے اور آہستہ آہستہ زندگی کی حقیقتوں سے فرار اختیار کرنا ہوتا ہے اور یوں تباہی کی طرف سفر کا آغاز ہوتا ہے ،اسی طرح خواب دیکھنا بھی اچھی علامت ہے لیکن ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں بھٹکتے رہنا بھی ایک بہت بڑی بیماری ہے ،

خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں معلوم مجھے
خواب سے آگے نکل خواب کی تعبیر میں آ

خواب اچھے ہوتے ہیں ،خواب امید ہوتے ہیں ،خواب تو وہ ہوتے ہیں جن سے خوشی اور امیدیں وابستہ ہوتی ہیں- خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھی گئی ان خوشیوں کا نام ہے جو حقیقت میں نہیں ہوتیں، اچھے وقت کی، اچھے مستقبل کی، اچھی زندگی کی، خواب محبت سے عبارت ہوتے ہیں-لیکن صرف خوابوں کی دنیا میں ہی بسیرا کرنے والوں کی زندگی بھی سراب ہوتی ہے ،کچھ ایسا ہے ماجراہم گلگت بلتستان کی وادیوں میں بسنے والوں کے ساتھ بھی درپیش ہے کہ ہم نصف صدی سے زیادہ عرصے سے خوابوں کی دنیا میں ہی بھٹک رہے ہیں ،خواب بھی وہ معتبر ہوتا ہے جس کی تعبیر ہو لیکن ہم بے تعبیر خوابوں کے ہی مسافر ہیں خواب اورعمل مل جائیں تو تعبیر بنتی ہے مگر ہم خواب ہی دیکھتے رہے اور عمل کی دنیاسے بہت دور بھاگتے رہے،کھبی ہم پانچویں صوبے کے خواب دیکھتے رہے تو کھبی کشمیر طرز کے سیٹ اپ کے خواب ، ،پھر خواب دیکھا کہ دیامربھاشا ڈیم سے گلگت بلتستان کی تقدیر بدلے گی،اب نیا خواب آنکھوں میں سجا چکے ہیں کہ پاک چین اکنامک کوریڈور سے گلگت بلتستان میں خوشحالی کے چشمے پھوٹ پڑیں گے ۔آج کل تو گلگت بلتستان کے سبھی رہنما کیا اپوزیشن کیا حکومت سب کی زبان پر ایک ہی رٹ ہے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور سے گلگت بلتستان کی تقدیر بدلے گی (حالانکہ قانون قدرت ہے کہ جو قوم اپنی تقدید بد لنے کیلئے خود کوشاں نہیں ہوتی کوئی اور اس کی تقدیر کھبی نہیں بدل سکتا)گلگت بلتستان میں پاک چین کوریڈور سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا ،خوشحالی کا دور دورہ ہوگا ،ان رہنماؤں سے کوئی پوچھے کہ وہ آپ کس دلیل اور کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں خوشحالی آئے گی وہ کون سا معاہدہ ہے یا کون سا راستہ ہے جس کو سامنے رکھ کر آپ خوشحالی کے خواب قوم کی آنکھوں میں سجا رہے ہیں

،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چین اکنامک کوریڈور پاکستان کی خوشحالی کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے ملک کے چاروں صوبے برابر مستفید ہوں گے اور چاروں صوبے کے پاس ویٹو کا حق بھی ہے اور یہ صوبے اپنے حقوق پر کسی بھی قسم کی لچک دکھانے کیلئے تیار بھی نہیں ،اپنے اپنے صوبے کے مفادات کے حقوق کا تحفظ کرنا خوب جانتے ہیں ،گلگت بلتستان کو تو پاک چین اکنامک کوریڈور کمیٹی میں مبصر کی حیثیت دی گئی ہے تو کس طرح دعوی کیا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان میں خوشحالی آئے گی ؟،ہمارے رہنما قوم کو بتا سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان سے گزر کر ملک کے دیگر صوبوں میں خوشحالی لانے والی پاک چین اکنامک کوریڈور کے تحت ،ہنزہ نگر میں کوئی پوا ئنٹ ایسا بن رہا ہے ؟جگلوٹ میں بن رہا ہے ؟چلاس میں بن رہا ہے ؟اگر کہیں نہیں بن رہا ہے تو کوئی ایسا معاہدہ ہو کہ جس میں یہ یقین دہانی کی گئی ہو کہ گلگت بلتستان کو اس کی آمدنی سے مناسب حصہ ملے گا ایسی کوئی وضاحت اس وقت تک سامنے نہیں آئی ہے ۔

اکنامک کوریڈور کا کم و بیش چارسوکلومیٹر کا حصہ گلگت بلتستان میں تعمیر کیا جائے گالیکن ابھی تک کسی فورم میں بھی یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس منصوبے سے گلگت بلتستان کے عوام کو کیا فائدہ ہوگا اور یہ فائدہ کس طرح پہنچایا جائیگا، اکنامک کوریڈور بلاشبہ ایک عظیم الشان منصوبہ ہے جس کے تحت گوادر سے کاشغر تک ریلوے لائن، شاہراہ اور گیس و تیل کی پائپ لائن تعمیر کی جائے گی، انفراسٹرکچر کے اطراف میں صنعتی زون وجود میں آئیں گے جن میں تیار ہونے والی اشیادنیا بھر میں برآمد کی جائیں گی لیکن جہاں اس عظیم منصوبے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں وہاں وہاں اس بات کا بھی بھر ملا اعتراف کرنا ہوگا کہ وفاقی حکومت کی مبہم اور مشکوک پالیسی نے بہت سے مسائل پیدا کئے، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مسلسل اعتراضات پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی وزیراعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کو یقین دلایا کہ کوریڈور کا مغربی روٹ ترک نہیں کیا گیا یہ تعمیر کیا جائے گا اور سب سے پہلے تعمیر کیا جائے گا اس یقین دہانی کے بعد صوبے مطمئن ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ اس اہم منصوبے پر ہونے والی اے پی سی میں گلگت بلتستان کا کوئی حق نہیں تھا کہ کسی نمائندے کو بلایا جاتا ، اس کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وفاق اس معاملے میں گلگت بلتستان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

 وزیراعظم نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تو بس یہی خواب دے کر گئے کہ اکنامک کوریڈور سے گلگت بلتستان کے عوام کو فائدہ پہنچے گا لیکن انہوں نے تفصیل سے نہیں بتائی کہ گلگت بلتستان کو کیسے فائدہ پہنچے گا ،گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کی طرح ہاتھ ہونے والا ہے ،جیسے دیامر ڈیم میں صرف زمینوں کے معاضے کی ٹافی دی گئی ہے اور رائیلٹی پرصوبہ خیبر پختوں ن خواہ ہاتھ صاف کرے گا ایسے ہی پاک چین اکنامک کوریڈور میں جانے والی زمینوں کے معاوضے سے ہی راضی کیا جائے گا اور ہم اس پر بہت خوش بھی ہوں گے اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے ،کیونکہ گلگت بلتستان کے مقدر میں رہنما نہیں سیاستدان ہی آئے ہیں جو اگلی نسلوں کا نہیں اگلے الیکشن سے آگے کی سوچ رکھ ہی نہیں سکتے ،فی الحال تو کچھ سیاستدان حکومت کے جھولے جھول رہے ہیں اور جو اپوزیشن میں ہیں ان کی ڈیوٹی تو بہت ہی سخت ہے روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے خلاف بیان بازی کرنی ہے اور اگر احتجاج بھی کریں تو گندم کے دانے پر ،گندم کے دانے پر ہی تو آدم کو جنت سے نکالا گیا تھا ،اب رہے عوام تو عوام کا کیا ہے کوئی نہ کوئی رہنما آئے گا اور کوئی نیا خواب آنکھوں میں سجائے گا ،عوام پھر سے خوابوں کی دنیا کی سیر کو نکلیں گے ،اور جب خواب سے جاگ کر حقیقت کی دنیا میں آئیں گے تو بہت دیر ہو چکی ہوگی ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button