سیاحت

وادی یا حلقہ سلطان آباد یاسین

تحریر: جاوید احمد ساجد

یاسین جو کہ انتظامی امور کے طور پر چا حصوں یا حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس میں ایک حلقہ نمبر دو جو سلطان آباد کا حلقہ کہلاتاہے یا یو ں کہہ سکتے ہیں کہ یاسین چار چھوٹے چھوٹے وادیوں پر مشتمل ہے ، اس وادی یا حلقہ سلطان آباد میں یاسین بلکہ غذر میں شیر قلعہ کے بعد سب سے بڑے دو گاوں طاوس اور سندی بھی شامل ہیں ،یہ وادی ایک ذرخیز ترین وادی بھی ہے ۔ یہ حلقہ پہلے سلگان کا حصہ تھا جو کہ دریائے نازبر اور دریا ئے یاسین کے دوسری طرف حل غش سے شروع ہوتا ہے اور ہویلتی ( سلطان آباد ) گاوں کے آخر میں دریا تھوئی یا تھوئیوغ اور دریا ئے سلگانوغ کے پار بل پھری اور مشرق کی طرف قرقلتی گاوں تک پھیلا ہوا ہے، اللہ کے فضل سے اس حلقے یا وادی میں سکولوں کی تعداد کا فی زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں تعلیم کا تنا سب بھی زیادہ ہے۔ سکولوں کی ترتیب کچھ یوں ہیں

نمبر ۱ : ڈی جے سکول : جن کو آغا خان ایجو کیشن سکول بھی کہا جاتا ہے جو کی AKESP پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے اور امتحانات آغاخان ایجو کیشن بورڈ کے ماتحت ہو تے ہیں۔

ڈی جے پرائمری سکول قرقلتی ، ڈی جے پرائمری سکول دلسندی ، ڈی جے پرائیمری سکول غو جلتی، ڈی جے مڈل سکول طاوس، ڈی جے مڈل سکول سلطان آباد ( ہویلتی) اور ڈی جے ری سورس ہائی سکول سندی ، ان سکولوں مین کل 1707 طلباء اور طالبات زیر تعلیم ہیں

نمبر ۲ : گورنمنٹ سکول : یہ سب سکول گلگت بلتستان ایجو کیشن محکمہ کے سکول ہیں یا آسان لفظوں میں سرکاری سکول کہتے ہیں

گورنمنٹ مڈ ل سکول قرقلتی، گورنمنٹ مڈل سکول سندی، گورنمنٹ پرائیمری سکول سندی، گورنمنٹ مڈل سکول غوجلتی ، گورنمنٹ مڈل سکول طاوس اور گو رنمنٹ ہائی سکول سلطان آباد اور ایک فیڈرل گورنمنٹ انٹر کالج سلطان آباد بھی ہے جو مخلوط تعلیمی نظام کے تحت چلارہے ہیں

ان سکولوں میں کل 1005 طالب علم زیر تعلیم ہیں

نمبر ۳ : NEF) )نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن کے ماتحت سکول سسٹم ، جن کو سوشل سکول اور SAP سکول بھی کہتے تھے۔ ان کی ترتیب یوں ہے

نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول قرقلتی، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول چیکی مو جور، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول مغضا موٹ سندی ، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول سندی پائین، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول ڈھوک یا ڈھونگ یاٹے، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول غو جلتی ، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول سلطان آباد ( ہو یلتی) نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول چشمہ ، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول طاوس بالا ، نیشنل ایجو کیشن فونڈیشن سکول طاوس پائین، ان سکولوں میں کل 598 طلبا ء تعلیم حا صل کر رہے ہیں۔

پرائیویٹ سکول : یہ سب سکول محکمہ تعلیم گلگت بلتستان سے رجسٹرڈ ہیں اور ان کے امتحا ن بھی نظامت تعلیم گلگت بلتستان کے ماتحت ہی ہوتے ہیں۔ ان کی ترتیب اس طرح سے ہے

سن رائز ماڈل پبلک سکول سندی، روز گارڈن سندی ، سن رائز پبلک سکول اینڈ کالج سلطان آباد ، برائٹ سٹار پبلک سکول طاوس ، کمیو نیٹی سکول طاوس ۔ ان سکولوں میں کل621 طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔ اس وادی یا حلقے کی سکول جانے والے بچوں کی تعلیم کا تناسب تقریباََ ۹۰ فی صد ہے

اقراء سکول سسٹم : یہ مدرسہ یا مسجد سکول لیکن ماڈرن تعلیم سسٹم بھی ہے دو مدرسہ اقراء سکول طاوس اور ایک سندی میں قایم ہیں ان میں تقریباََ 150 طلاب علم زیر تعلیم ہیں ۔ ان تمام سکولوں میں کل (۳۸۵۷) تین ہزار آٹھ سو ستاون طلباء اور طالبات زیر تعلیم ہیں

ہیلتھ : ایک دس بستروں کا ہسپتال سلطان آباد میں ہے اور دو ڈاکٹروں کی بھی خدمات حاصل ہیں ، ایک ڈسپنسری سندی میں ، ایک فرسٹ ایڈ پوسٹ قرقلتی میں کام کر رہا ہے،اگر ان میں دوائی کسی مریض کو دیا جاتا ہے تو معجزہ سے کم نہ جانو، لیکن یہ ایک الگ بات ہے کہ ان میڈیکل سنٹرز میں سوائے آغا خان ہلتھ سنٹر کے دوائی نام کی چیز نہیں ملتی ، البتہ یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ سہولت نہیں ہے۔ اور ایک آغاخان ہلتھ سنٹر اس حلقے میں لوگوں کو طبی سہولیا ت بہم پہنچانے میں مصروف عمل ہیں، زچہ بچہ کی نگہداش کے علاوہ حفاظتی ٹیکے بھی بروقت عوام کو دی جاتی ہیں، جو کہ سندی میں قائم ہے ۔

وادی سلطان آباد ، یا حلقہ سلطان آباد کے ان تمام سکولوں مینں پڑھنے والے طالب علموں کی کل تعداد۴۰۸۱(4081) ہے

آبادی اور گھرانے:

اس حلقے کی کل آبادی ۱۴۵۵۰ (14550) اور کل گھرانے ۱۶۵۰ (1650) ہیں اور اگر کل آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو ۳۵ فی صد اور اگر گھرانوں کے حساب سے دیکھا جائے تو فی دو گھروں سے ۵ بچے سکول جاتے ہیں لیکن سکول جانے کے عمر کے بچوں کی تناسب سے ۹۰ فی صد سے زیادہ بچے سکول جاتے ہیں

مشہور شخصیات:

اس علاقے میں بڑے نامور شخصیا ت گذرے ہیں۔ ان میں مہترجو ماسٹر محمد ایوب ولد راجہ میرباز خان جو کہ یاسین کا پہلا پڑھا لکھا اور عرصہ دراز تک تدریس کے شعبے سے تعلق رہا اور انہی کے دو فرزند سابقہ کونسلر ، محمد ابراھیم اور محمد اسماعیل، جو کہ چمرکھن میں رہتے ہیں،

جان مد د صاحب جس نے ڈگری کالج گلگت سے گریجویشن کر کے ڈی جے سکول سندی سے اپنے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا اور یونیورسٹی آف لندن سے ایم اے ایجوکیشن اور انٹر نیشنل ڈیولپمنٹ میں ڈگری حاصل کر چکے ہیں ، ایم اے اپلائیڈ لنگو سٹکس کا ڈگری یونیورسٹی آف ریڈنگ یو کے سے حاصل کیا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی تجر بات حاصل کیا ہو اہے آغاخان ایجو کیشن سروس کے جنرل منیجر رہ چکے ہیں اور آج کل یو نیسف کا پاکستان میں کنٹری ھیڈ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ، یو ایس ایڈ اور ورلڈ بنک میں بھی خدمات انجام دیا ہے۔ ایک علیٰ درجے کا ماہر تعلیم ہیں اور انتہائی محنتی اور ایک قابل اور نہایت ہی مخلص اور انسان دوست شخصیت ہیں۔ کاکا جان جو کہ ایک سیاست دان ایک بہترین فیصلہ ساز اور سوشل ورکر تھے، کمانڈر بلبل نائب شاہ جس نے پشاور یونیورسٹی سے سول انجینیر کا ڈگری حاصل کر نے کے بعد پاکستان نیوی سے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور کمانڈر کی عہدے سے پنشن حاصل کیا، ایک انتہائی نیک، دیا نتدار اور محنتی انسان ہیں،جو کہ بی این شاہ کے نام سے مشہور ہیں ان کے چھوٹے بھائی شوکت جو کہ پیپلز پارٹی کراچی کا صدر بھی رہ چکے ہیں اور پیپلز پارٹی کا ایک نہایت سرگرم رکن ہیں اور ایک دفعہ کراچی شہر سے میر کا الیکشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

سید صاحب جان ایک قانوندان، ایک سیاستدان اور ایک عالم اور قابل اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک اور ایک مشہور مہمان نواز شخصیت تھے جو کہ مشہور پیر صاحب المعروف شا ہ پیر کے فرزند تھے اور ان کی علمی قابلیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا ، بہت زیادہ نالج رکھتے تھے ہر قسم کی کتابیں ان کے پاس تھیں اور جب کسی ٹاپک پر بات کرتے تو باقا ئدہ کتابی حوالاجات دیتے تھے ان کی خاندان کی ایک حیرت کن بات یہ تھی کہ میں جب بھی ان کے گھر گیا تو پانچ منٹ کے اندر اندر انڈہ ابلا ہوا یا ہاف فرائی اور مکھن اور گرم گرم تازہ چا ئے پیش کیا جاتا تھا کہ اتنی جلدی میں کسی دوسرے گھرانے میں پانی بھی پیش نہیں کیا جا سکتا ہو گا اور اگر کھانے کا وقت ہوتا تو وہ کھانہ کھلائے بغیر کبھی جانے نہیں دیتے اور وہ بھی چھوٹا گوشت یا مرغی کا گوشت اور ساتھ میں کوئی اور سالن ضرور ہوتا ۔ شاعر او رمشہو ر شخصیت نائب صوبیدار ،وفا جان کے بھائی تھے ان کا ایک بیٹا سید عالم مشہور وکیل ہیں، سید وفاجان صاحب نائب صوبیدار پنشن ہیں ایک مشہور شاعر بھی ہیں اور حمد اور نعت بھی کھوار اور بروشاسکی دونوں میں لکھتے ہیں، سید شفا جان جو کہ محتاج تعرف نہیں جناب وفاجان کے صاحب زادہ ہیں اور اسماعیلی مبلغ اور ایک بہترین عالم اور الواعظ ہیں اور جب وہ اپنا واعظ یا تقریر شروع کرتے ہیں تو ناظرین پر ایک جادو کا عالم طاری ہوتا ہے اور ہمہ تن گوش ہو کر ان کی تقریر کو سننے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، ایک بہترین مقرر ہیں ، وکیل محمد جان ایک ماہر قانون کے علاوہ کئی سال تک اسماعیلی کونسل گوپس یاسین کے صدر بھی رہ چکے ہیں ایک نہایت شریف النفس انسان اور ایک قابل وکیل اور ایک نہایت ہی دیانت دار انسان ہیں، عالم جان جو کہ ایم اے سی کر نے کے بعد بطور لیکچرار انٹر میڈیٹ کالج گاہکوچ سے اپنی کیریر کا آغا زکیا لیکن جلد ہی چھوڑ کر یاسین میں کمیو نیٹی سکول میں ھڈماسٹر کے طور پر کئی سال تک خدمات انجام دیتے رہے ا ور پھر اصطفےٰ دے کر اپنا ایک پرائیویٹ سکول سن رائز پبلک سکول اینڈ کالج کے نام سے کھولا اور موجودہ حالات میں ڈگری بلکہ ماسٹرز کی کلاسیں بھی چلا رہیں ہیں اس کالج کا ایک بڑا اور شاندار بلڈنگ بھی بنایا ہے۔ اور اسماعیلی علاقائی کونسل گوپس یاسین کے بطورسکریٹری خدمات انجام دینے کے بعد اب بطور صدر خدمات انجام دے رہیں ہیں اور ایک مخلص اور نہایت محنتی اور ایک شریف ، دیانت دار اور ایک نہایت قابل انسان ہیں

ماسٹر بلبل مراد جو کہ ایک سماجی شخصیت اور ایک مدرس کے طور پر عرصہ دراز تک خدمات کے بعد پنشن یافتہ ہیں اس کے علاوہ اسماعیلی کونسل میں بہت سے عہدوں پر ایک طویل عرصہ تک خدمات انجام دیتے رہے ہیں ، اور بروشاسکی کے ایک تاریخی شاعر بھی ہیں اور لالک جان شہید نشان حیدر کی قیصہ گوئی بھی کیا ہے اور ترانہ یاسین بھی لکھا ہے

محمد کریم خان جو نظامت تعلیم میں بطور اسسٹنٹ دائریکٹر خدمات انجام دینے کے بعد پنشن لیا ہوا ہے انھوں نے ایف اے پاس کر کے بطور کلر ک آرمی میں شمولیت اختیار کیا پھر وہاں سے اصطفیٰ دے کر پرایؤیٹ کام شروع کیا اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بطور مدرس اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا دوبارہ آغازکیا اور اسسٹنٹ دائریکٹر ایجوکیشن کے عہدے تک پہنچ گیااور اب پنشن لیا ہوا ہے۔ڈاکٹر قربان سلطان آباد کے پہلے ڈاکٹر ہیں اور عرصہ دراز سے بطور ایم او سول ہسپتال (سلطان آباد) طاوس میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، ڈاکٹر عبدل علی شاہ ایوب میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد آغا خان ہلتھ سروسز سے اپنے کیریر کا آغا ز کیا، جو پبلک ہلتھ کے ماہر ہیں اور بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں، ڈاکٹر ہاشم جو کہ عرصہ دراز سے بطور ماہر دانت سول ہسپتال طاوس میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، انجینیر ظفر علی خان یو ای ٹی لاہور سے سول انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کیا اور سعودی عرب میں خدمات انجام دے رہے ہیں ،

لیکچرار شاہ رئیس خان جو کہ ایک علیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں ان کی بیوی بھی لیکچرار ہیں ۔محمد علی جان کابلی جو کہ لیکچرار ہیں ایک نہایت شریف ، مخلص اور ایک قابل ترین انسان ہیں ۔ ان کے چھو ٹے بھائی بھی محمد حکیم جان کابلی ایک قابل وکیل ہیں اور ایک نہایت شریف اور مخلص انسان ہیں ، وکیل آفتاب جو کہ ایک شریف اور نہایت محنتی انسان ہیں اور ان کے والد مہتاب ایک بینکر تھے، ۔ محمد ایوب خان سردار خان بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک نہایت شریف شخصیت ہے اور انھوں نے ایم ایس سی کیا ہو اہے

ڈسپنسر فیض اللہ المعروف ورکر جو کہ ایک ہر دل عزیز شخصیت اور ایک بہترین معالج تھے انھوں نے علاقہ یاسین کی بڑی خدمت کیا تھا، اس کے علاوہ اسماعیلی کونسل میں بھی بطور صدر اور ممبر بہت لمبے عرصہ خدمات انجام دیا تھا، ان کا بیٹا اسداللہ بھی ایک ماہر ڈاکٹر ہیں جو کہ ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا اور آغا خان یو نیورسٹی سے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور آج کل بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔سابقہ ایم این اے محمد ایوب شاہ بے گل جنھوں نے گریجویشن کے بعد غلام محمد کے ساتھ بحثیت ایک سیاسی مددگار ایک عرصے تک کام کیا اور پھر خود الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور پھر پانچ سال کے لئے ایم این اے منتخب ہوے اور پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن ہیں،

محمد قیوم خا ن جو کہ اے کے آر ایس پی گلگت میں عرصہ دراز سے خدمات انجام دے رہے ہیں انھوں پاکستان آرمی سے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا لیکن ایک دو سال کے اندر چھوڑا اور کراچی جا کر نئے سرے سے تعلیم حاصل کیا اور گریجویشن کے بعد سرینہ ہوٹل میں بطور اکاونٹ افسر شمولیت اختیار کیا لیکن اس کو بھی خیر باد کہہ کر آغا خان اکنامک پلاننگ بورڈ کی سروس ختیا ر کیا اور بہت جلد ایک بار پھر اس سروس کو بھی چھوڑا اور ایل بی اینڈ آر بی گلگت سے اپنے پروفیشنل زندگی کا آغاز کیا تھا لیکن چھوڑکر پرایؤیٹ سروس اختیار کیا ، ایک محنتی اور دیانتدار انسان ہیں اور ایک سوشل ورکر بھی ہیں اور انھوں نے یاسین ( پرنس سو سائیٹی ) بنانے میں اہم کردار ادا کیا ، اور ، مہتر جو صوبیدار میجر شاہ یوسف جوکہ راجہ ( شاہ عبدالرحمت خان) کے بڑے فرزند تھے، بڑے نامور اور بہت ہی مشہور اور ملنسار اور ایک ہر دل عزیز انسان تھے، ان کا بیٹا راجہ شاہ محمد المعروف سردار جان، جو کہ ضلع کونسل کے کونسلر بھی رہے ہیں ، انھوں نے مٹرک ہائی سکول گلگت سے پاس کرکے فوجی ملازمت سے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور جلد فوجی ملازمت چھور کر سول میں بطور پٹواری ملازمت اختیا ر کیا اور گردآور کی عہدے سے پنشن لیا اور سیاست میں قسمت �آ زمائی کیا ، ماسٹر راجہ شیر بابا جان، ڈسپنسر راجہ محمد رضاخان، مہتر جو،غیروم جان، مہتر جو نادر خان جو کہ ایک مشہور اور معروف اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے مہتر جوعبدل قیوم المعرف شاہ، جو کہ محکمہ جنگلات سے پنشنر ہیں اور ایک ملنسار، مخلص اور مشہور شخصیت ہیں،اور یاسین کے معروف و مشہور لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے اور یاسین کا بچہ بچہ ان کو جانتا ہے، مہتر جو محمد یاسین ولد راجہ محبوب ولی خان، ڈی سی مہتر جو شیر زاد خان، ۔ لیکچرار شیر حواس خان جو کہ ڈگری کالج چلاس سے اپنے کیریر کا آغاز کیا اور اب گوپس میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان کے والد بھی پڑھے لکھے انسان تھے اور منشی کے نام سے معروف تھے ۔سابقہ چیر میں یونین کونسل سلطان آباد رشید جان جو کہ کراچی سے گریجویشن کر نے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا اور پھر یونین کونسل کے الیکشن میں جیت گیا اور بطور چیرمین کئی سال خدمات انجام دیا اور ایک بہترین فیصلہ ساز شخصیت ہیں اپنے چیر مین شپ کے زمانے میں کئی اہم فیصلے نہایت خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچانے کی وجہ سے بہت مشہور ہیں اور آج کل اپنا کاروبار کر رہے ہیں جو کہ بہترین اونی جرسیا ں اور سویٹر کے پرڈکشن کے لئے مشہور ہیں پورے وادی یا سین سے لوگ ان سے فرمائش پر جرسیاں اور سویٹر بنواتے ہیں۔اسلم شکورشاہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت محنتی اور مخلص شخص ہیں ، یہ لیکچرار ہیں اور ان کی بیوی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور یہ بھی لیکچرار ہیں ، کرنل ظفر ولد سابقہ ڈی سی کا تعلق اس وادی کے گاوں طاوس سے ہے

طاوس کے شوشل ورکر اور اپنے زمانے کا مشہور ڈرائیور شریف، ۔، بنک منیجر عبدل منیم جو کو ا پریٹیو بنک طاوس میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایک سوشل ورکر کے علاوہ طاوس کی فٹبال ٹیم میں فٹبال کے مشہور کھلاڑی بھی ہیںِ ، ٹھیکہ دار اور سابقہ کونسلر دلاورجو کہ درکوت کا ٹھیکہ دار کے نام سے مشہور تھے، ان کی بھائی ہمایوں خان بھی ٹھیکہ دار ہیں اور سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے ہین۔ استاد دردانہ جو کہ ارمورر تھے اس لئے استاد کے نام سے مشہور تھے، بابر شاہ، بیگ حوالدار مشہور ستاری تھے، مچھی زبردست قسم کا بروشاسکی کا شاعر تھا، حوالدار ،مراد شاہ المعرف محمور شاہ ارمی سے پنشن آ نے کے بعد گلگت شہر میں یاسین کا پہلا کاروباری شخصیت تھے ، نمبر دار بلبل ، جو کہ ایک سوشل ورکر اور سیاسی شخصیت ہیں اوریونین کونسل میں ایک لمبے عرصے تک علاقے کی سیاسی خدمات انجام دیتے رہے ہیں،

دکاندار فاتح گل، نادر خان، سردار خان، کابلی، بہترین کاروباری شخصیات ہیں، نایب صوبیدار ایاز ، نمبر دار موصتولی، سابقہ چیر مین یونین کونسل اکبر خان بیگل جو کہ ایک لمبے عرصے تک اپنے حلقے کے یونین کونسل کے ممبر کے طور پر کام کرتا رہا تھا، ممبر نائب صوبیدارمحمد شریف المعروف شینا جو کہ پنشن آنے کے بعد سیاست میں حصہ لیا اور کئی سال تک یونین کونسل طاوس کے بطور ممبر خدما ت انجام دیا اور ایک سوشل ورکر اور اچھے انسان تھے ، نائب صوبیدار حاجی نظر ،ممبر شیر نیاب خان، استقال محمد نائب خان، حیدر منشی جو کہ پولو کا بھی کھلاڑی تھا، حسن علی منشی، شفایو درزی، دوکاندار شیر نوازخان، دکاندار غازی دین، پہلوان شاہ غلام، ممبر شیر مت، محمد عزیز شکاری جو کہ چبڑاسی کے نام سے مشہور ہیں، نمبردار قاسم میت ، ستارنواز رحمت علی جان جو کہ مشہور درزی شفایو کا بیٹاہے اور ستار نوازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ، خلیفہ ایاز خان، خلیفہ میرزہ شاہ المعروف اشکرک خلیفہ، بیٹن جو کہ ڈائیل تھا، خلیفہ سایورج ، شہزادہ حاجی جان جو کہ سجادہ نشین برانداس( سید جلال ) کے اولاد تھے ایک بہترین معالج بھی تھے اور بہت مشہور انسان اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے، ان کا بیٹا شہزادہ سید الطاف حسین ، ، جو کہ ایسوسیٹ انجینیر تھے، کونسل حسین امان، صوبیدار عزیز امان، رحمت لال جو کہ تاریخ کے بارے میں زبانی بہت کچھ جانتا تھا ان کو یاسین کے بہت سے ادوار اور خاص کر راجوں یعنی حکومرانوں کے بارے میں معلومات حاصل تھے ۔ جنگولی خان ایک سوشل ورکر نہایت ہی خدمت گذار شخصیت اور آغاخان رورل سپورٹپروگرام کے سپرو ائزرکے حثیت سے عرصہ دراز تک علاقے کی خدمات انجام دیتا رہا تھا اور ناردرن سکاوٹس ،NLI سے پنشن تھے، لذت امان جو ایک پولو کھلاڑی بھی تھے، سوشل ورکر شاہ فضل خان، جو کہ بہت عرصے تک اسماعیلی کونسل میں خدمات انجام دیتا رہا ہے۔، فرمان امان میکی اور ان کا بھائی محمد طاہر خان جو کہ پولو کے کھلاڑی بھی تھے ، ان کا بیٹا محمد حسین جو کہ یونین کونسل سلطان آباد کے ممبر بھی رہا ہے، بجگی خان، ڈسپنسر محکمہ حیوانا ت میں دوران سروس انتقال کیا ، بڑا ملنسار، مخلص اور خدمتی انسان تھے، ، تا توش لال، نائب صوبیدار مراد علی شاہ، ماسٹر شاہ عالم جو کہ مٹرک کے بعد ڈی جے سکول سلطان آباد سے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا اور پرائیویٹ تعلیم حاصل کر تے ہوے ایم اے تک پہنچا اور گولڈن شیک حاصل کر کے اب بر ائٹ سٹار سکول میں بطور ھڈ ٹیچر خدمات انجام دے رہے ہیں، سید ابراھیم ایک سوشل ورکر بھی ہیں اور اسماعیلی کونسل میں کافی عرصہ تک کام کیا ہے ، حاجی صاحب مراد شاہ ، جو کہ ایک مشہور مذہبی اور خدمتی ا نسان تھے اور اسما عیلی کونسل میں بہت عرصے تک خدمات انجام دیتا رہا تھا، کونسل تھن مصری جان جو کہ پولو کے کھلاڑی بھی تھے اورتیراکی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اور گلگت بلتستان کے دیسی گھروں کی ستونوں پر کندہ کاری میں ان کا ایک خاص مقام تھا اور بڑے ماہر کاریگراور انتہائی محنتی اور جفاکش انسان تھے اور اسماعیلی کونسل میں بہت عرصہ خدمات انجام دیتے رھے، ، گل شیر جو کہ مشہور گلوکار، تیراکی کے ماہر اور شکاری تھے، شیر حیات المعروف چاچو جو کہ ایک بہترین گلو کار اور شاعر ہیں۔ بابا جان ایک بہترین گلو کار تھے مگر اب چھوڑ چکے ہیں، وازیر ا عظم المعروف میچو، ادینہ غلام جو کہ پہلیاں سجانے اور ضرب المثل کہنے کے لئے مشہور تھے، ماسٹر شیر طلہ خان انھو ں نے ڈی جے سکولوں میں ایک عرصے تک سکول ماسٹر کے خدمات انجام دیا ، کونسل گل عجب خان، ماسٹر شاہین خان انھوں نے ایک لمبے عرصہ تک ڈی جے سکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیا دوران سروس اخروٹ کے درخت سے گر کر معزور ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود ہر کام وہ اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے تھے نہایت محنتی انسان تھے۔، علی مدد بائی جو کہ بروشاسکی کے شاعر ہیں اور ایک قابل انسان ہیں ، بطور ٹیچر کئی سال ڈی جے سکول میں پڑھاتے رہے لیکن جلد چھوڑ دیا ،آج کل اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور خاص کر آلو کی فصلیں اگا کر خوب کماتے ہیں، اور معلومات کا ایک خزانہ ہیں،ہر قسم کی کتابیں رکھتے ہیں ،

گوہرشاہ حوالدار جو غالباََ ۱۹۳۵ میں حوالدار تھا، ایک زمانہ ساز اور زبردست قوت ارادی کے مالک تھے ، حوالدار مقصد مراد جو کہ ناردرن سکاوٹس سے پنشن آنے کے بعد عرصے تک مدرس رہے اور ڈی جے سکول سندی میں پڑھاتے رہے، جمعدار شاہ عالم دلسندی، جو کہ شئی عالم کے نام سے مشہور تھے، میکی خان عالم جو کہ ایک مشہور آدمی تھے اور ماہر ستار نواز تھے کہتے ہیں کہ وہ ساری دھنیں بجا سکتاتھا، حوالدار محمد تقی ، راجہ دوری امان جو کہ غازی گوہر امان کے بڑے بھائی تھے، خلیل امان، شکرانہ خان لال جو کہ پولو کے کھلاڑی تھے، گل نادر خان جو کہ ٹھیکہ دار اور سابقہ یونین کونسل کے چیرمین بھی رہے ہیں انھو ں نے کئی مرتبہ فوج میں شامل ہونے کی کوشش کیالیکن بھرتی نہ ہو سکا پھر انھوں نے غوجلتی کے مشہور زمانہ ڈرائیور شریف کی شاگردی میں ڈرائیونگ سیکھا اور ایک لمبے عرصے تک گلگت سے یاسین تک جیپ چلاتا رہا اور پھر ٹھیکہ داری شروع کیا اور بہت سارے کام کیا اور گوپس چائینہ پل سے سیلی ہرنگ تک کا چند کلو میٹر کا سڑک انھوں نے بنایا تھا جو کہ عرصہ گذر نے کے باوجود بہتر حالت میں ہے جب کہ اس سے کئی سال بعد میں بنائی گئی پکی سڑک خستہ حالت میں ہے اور ایک شوشل ورکر بھی ہیں، شامورکل نمبردار غوجلتی، محمد حسن حوالدار، سخی دللہ جان، صوبیدار میرزہ دللہ جان، نمبردار علی مدد خان غوجلتی ، صوبیدار بل جاجی،مشہور پولو کھلاڑی اور ایک مخلص انسان تھے، ہر دل عزیز شخصیت ڈرائیور شریف ، شکاری وزیر ، سعید قدم دادا، عزیز جو کہ ایک سیاسی ورکر ہیںِ ،شکورو مولوی، غنی مولوی، مولوی فولک، مولوی عبدالرحیم المعروف کراچی مولوی، جو کہ پاکستان آرمی کے مڈیکل کور میں بطور خطیب علیٰ ( صوبیدار میجر) کے طور پر خدمات دے کر پنشن حاصل کیا، پورے گلگت بلتستان میں کراچی مولوی کے نام سے مشہور ہیں چونکہ کراچی کے کسی دارالعلوم سے تعلیم حاصل کیا تھا اس لئے کراچی دشھمن یعنی کراچی مولوی سے مشہور ہو ے جو بڑا ملنسار، مہمان نواز اور رشتوں کی قدردان شخصیت ہیں، مولوی قاضی معصوم، ایک سوشل خدمت گار اور سیا سی شخصیت ہیں اور یونین کونسل کے ممبر بھی رہ چکے ہیں، خان مولوی، جامع مسجد سندی کے خطیب ہیں ، عبد ل حسن ڈسپنسر، ،میر امان جو کہ راجہ گوہر امان کے بھائی تھے،جان داد ا میکی، حوالدار اور سابقہ ممبر ولی محمد جو کہ ایک سوشل ورکر بھی ہیں، دکاندار غازی خان، استقال تتی خان زوندرے ، نمبر دار بلبل خان جو کہ ایک مشہور زمانہ ،فیصلہ ساز اور جہان دیدہ نمبر دار تھے اور سات سال کشمیر میں بھی انگریزوں کے دور میں رہے تھے اور تقریباََ ایک سو بیس سال کی عمر پائی، تاریخ کا ایک انسائکلوپیڈیا تھے لیکن افسوس ان کی معلومات سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ ان کا ایک بیٹا محمد عزر خان بھی نمبردار تھے ایک بیٹا صوبیدار یاقوت پنشنر ہیں اور کئی سال تک سولجر بورڈ کے ویلفیر آفیسر بھی رہ چکے ہیں اور ایک بیٹا سورم فو جی پنشنر ہیں ، نمبردار بلاور خان جو پولو کے بھی کھلاڑی تھے۔ ان کا ایک بیٹا گل بیاض خان جو کہ فوجی حوالدار پنشن ہیں اور ڈ ی جے سکول میں بطور مدرس کئی سال خدمات انجام دینے کے بعد وہاں سے بھی پنشن لیا ہو اہے اور نمبردار بھی ہیں ایک بیٹا شیر مدد اٹارنی جنرل ہیں جو ایک مشہور قانوندان بھی ہیں۔ اسماعیلی کونسل میں بھی صدر رہ چکے ہیں ، کرامت اللہ ایک سوشل ورکر ا ور ورچی گوم ڈولپمنٹ ارگنایئزیشن کے بانی بھی ہیں ۔ شیخ عبداللہ، سید ولایت شاہ، خلیفہ عندلیب، ماسٹر اکبر خان ، ممبر برکت، محمد ایاز لال، سابقہ ممبر میرزہ مدد جو کہ سیاست میں رہ چکے ہیںِ ماسٹر غوازجو کہ ۶۰ کی دہائی میں مدرس رہ چکے ہیں اور ایک بہترین شکاری بھی ہیں اور سندی کے معروف لوگوں میں ان کا شمار ہو تاہے۔ حوالدار محمد مراد جو کہ اسماعیلی کونسل میں کئی سال خدمات دے چکے ہیں ، محمد طاہر خان جو کہ مشہور ماہر تعلیم جان مدد کے ولد تھے اور ایک سیا ست دان اور سوشل ورکر بھی تھے اور ایک بہترین درزی بھی تھے، صوبیدار محمد وزیر شاہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور سیاست میں بھی سر گرم ہیں اور پی ٹی آئی کا سرگرم رکن ہیں ۔ مشہور زمانہ پہلوان شاہ غلام کا تعلق بھی اسی وادی سے ہے جنھوں نے یاسین سے ہجرت کر کے سلطان آباد کے گاوں مت میں آباد ہو ے ۔ جس کا ایک پوتا میجر مصطفی اور ایک پوتا جاوید اقبال ایک NGOمیں جنرل منیجر ہیں جو کہ کراچی میں خدمات انجام د ے رہا ہے۔

نمبر دار معتبر خان ، نمبردار شکوران خان، جو کہ اپنی جوانی میں ایک بہترین شاعر اور مغنی یعنی گلو کار بھی رہ چکے ہیں۔ مجن خان جو کہ ایک بہترین شاعر اور گلوکاربھی رہ چکے ہیں ، شکور من کلیم ایک بہترین شاعر اور گلوکار ہیں ، انسپکٹر جان عالم ، خان پولیس جو کہ ایک بہترین ستار نواز بھی ہیں ۔ شاہ رئس خان میکی، حوالدار غواز۔ بادشاہی خان العروف تتا کو جو اکہ ایک تا ریخ گو ہیں ان کو یاسین کی تاریخ کے بارے میں بقول میجر ڈاکٹر فیض امان بہت کچھ معلومات یادہیں۔ قر قلتی کے نمبردار زیر بلی جو کہ گلگت سکاوٹس سے حوالدار پنشن آنے کے بعد علاقے کے نمبردار تھے بڑے مشہور شخصیت کے مالک تھے ایک انتہائی ملنسار، مہمان نواز، اور پر وقار انسان تھے، قر قلتی ہی کے ، حوالدار قدیر جو گلگت سکاوٹس سے پنشن یافتہ ہیں اور مارخور کے مشہو ر شکاری ہیں اور کونسل رحمت بیگ، ممبر محمد اعظم بیگ ، غلام محمدالمعروف دور بپ، شکاری شیر بہادر، شکاری ، ستاری اور پولو کھلاڑی تتی خان، ممبر خوش حال بیگ، ادینہ محمد، خدا عالم، سید میرزہ، گمبوری، اشور بپ، ماسٹر عسےٰ بہادر، محمد بائے، می ٹو، گل ہزار بیگ ، ،دوردانہ خان جو کہ اپنے زمانے کا ایک بہترین گھوڑ سوار اور پولو کا کھلاڑی تھا لیکن بعد میں دماغی تواز ن کھو بیٹھا اور پاگل ہو گیا لیکن دیوانگی کی حالت میں بھی بہتریں انسان اور سنجیدہ آدمی تھے ۔

تمغہ ہولڈر: نائب صوبیدار محمد ظفر راجہ طاوس جو کہ قیوم المعروف شاہ کے بھائی تھے ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنی بہادری کی بدولت تمغہ جرات بعد از شہادت نوازا گیا ، سپاہی جاوید المعروف بختاور جو کہ کارگل کی معرکہ میں بعد از شہادت تمغہ جرات سے نوازا گیا اور بہت سے جوانوں نے تمغہ بسالت حاصل کیا ہے

اس وادی یا حلقے کے فوجی حاضر سروس اور پنشنر ملا کر کل تقریباََ ۲۶۰۰ (2600) سے ۳۰۰۰ (3000) ہیں اور تقریباََ ۴۰ صوبیدار اور نائب صوبیدار اور ۵ کمیشن افیسرز او۳ صوبیدار میجر پنشن ہیں ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر گھر سے اوسطاََ دو سے زیا فوجی ملک کی خدمت میں مامور ہیں ۔

حلقہ یا وادی سلطان آباد میں بسنے والے قومیں : : خشو قتے ، محمد بیگے، جو کہ چترال سے آئے ہو ے قوم ہیں، شمونے، غلغوے، نونو کوچ، بیگلے،فوکنے، سید ذاد، شریفے، دشمنے، قرغزے، بروشے جوکہ خوشوقتے کی ایک شاخ ہے،حرایو، ( زوندرے) یہ بھی چترال نسل ہیں ،ولیئے، خلیفہ تنگ، چونا کوچ جو کہ بیگلے کی شاخ ہے، چروٹے اورسرالے جو کہ پھنڈر سے آ ئے ہیں ،کھیلوچو، جوکہ دیا مر سے آئے ہیں،ہوکیئے، پٹھان (الغانی) جو کہ صوبہ سرحد سے آئے ہیں بونو کے، اور شکر بیگے ۔

حلقہ نمبر ۲ سلطان آباد کے گاؤں :

سلطان آباد کا پہلا گاوں تھاوس (طاوس) ، سلطان آباد(ہویلتی) غوجلتی،غنیار ،سندی ، اس طرح سندی کے اندر مزید گاوںیہ ہیں(ڈنڈاکھل موڈوری، چیبیوچے ، چیکی موجر ، دلسندی، چاختئی ،شا من ،غوسنم داس) ، برداس ،اور قرقلتی، مشہور مقامات : چمر کھن: جو کہ پرانے زمانے کا ایک مشہور قلعہ تھا اب محمد ابراحیم اور اسماعیل اولاد ، راجہ میر باز خان کے قبضے میں ہے

بہری کھن: یہ بھی ایک پرانہ قلعہ تھا یاسین کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قلعہ قلمق یا المق ( چینیوں) نے بنایا تھا جو کہ راجہ محبوب ولی خان کے اولاد کے قبضے میں ہے جو مرحوم ڈی سی شیر زاد کے بیٹے ہیں۔ لیکن شاہ رئیس خان راجہ نے تاریخ گلگت میں لکھا ہے کہ یہ ان کے جد امجد کا بنایا ہوا قلعہ تھا

مڈوری : اس قلعے کے صرف سسکتے ہوے کھنڈرات ہی باقی ہیں جو چا ختئی سندی میں ہے، مڈوری کا سرنگ( چی بیو) یہ ایک زیر زمین اونچائی کی طرف چھیر گلوغ ( ندی قرقلتی ) سے مڈور ی کے قلعے میں داخل ہو نے کے ایک خوفیہ راستہ بھی تھا اور محصوری کی صورت میں خوفیہ طریقے سے کمک اور رسد خاص کر پانی کی سپلائی کا ایک بہترین ذریعہ تھا جس کو بند کر کے ڈوگروں نے مڈوری کو فتح کیا تھا ۔ اس کو اگر بہال کیا جائے تو ایک بہترین ٹورسٹ سپاٹ بن سکتا ہے ۔

جھڑاو ملک: یہ ہویلتی سلطان آباد کے پہاروں کی چوٹی پر جو کہ بوروم جینگد کے اوپر ہے ایک غار یا گہرا کھائی ہے جو تقریباََچھ فٹ کے قطر کا سوراخ پہاڑ کے اندر گہرائی میں جاتا ہے کہتے ہیں کہ پرانے و قتوں کے حکمران سخت سزاوار کو اس سوراخ میں ڈالتے تھے اور کھبی نہ نکل سکتے تھے

چر ے کوٹو:یہ ایک بہترین مشاہداتی چوکی ہے جو کہ فوجی نقطہ نظر سے نہایت اہم چوکی ہے یہاں سے پوری وادی یاسین کا چاروں طرف مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور دور دور تک دشمن پر نظر رکھا جا سکتا تھا یہ بھی ہویلتی کے پہاڑوں کی چوٹی پر اب بھی براجمان ہے

چیترنگ: یہ شاہی قبر ستان ہے اور جہاں غازی گوہر امان اور زمانہ قدیم کے راجوں کے قبرستان ہیں اور بہت بڑے بڑے قبر دیکھے جا سکتے ہیں۔

گو ٹھاشو ہا 🙁 مر دوں کا گھر) کہتے ہیں کہ اس زیر زمین گھر میں مردوں کوکسی دور میں رکھا جاتا تھا جو آج بھی اس میں ہڈیاں نظر آتی ہیں سندی میں واقع ہے ۔ایک اسی قسم کا گھر سنٹر یاسین میں بھی تھا جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی سسکتے کھنڈرات بن گیا ہے۔

اعظامی یا ا عظمیکا گھر: یہ بھی زیر زمین پہاڑ کے نیچے ایک گمنام گھر ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں سندی میں ہے یہ بات مشہور معالج فیضاللہ المعروف ورکر نے مجھے بتایا تھا ان کا کہنا تھا کہ یہ سیدوں کے گھروں کے اوپر جو کہ شاہ پیر کے کوہل کے ساتھ پہاڑ کے نیچے کہیں واقع ہے ، جب اس کا نکشاف ہوا تو لو گ جوق درجوق اسگھر کو دیکھنے کے لئے آنے لگے تو سیدوں نے لوگوں کے اس رش کی وجہ سے سامنے دیار چڑھا کر مٹی دیوار کے سامنے ڈال کر دوبارہ پوشیدہ کیا ۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ چند قومی ورثوں کو کسی بھی طرح محفوظ کیا جائے اور ان کی مناسب آرائش اور مرمت کے بعد سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے۔ اس کے علاوہ نالہ قر قلتی کے جت بھر، حرایو غور چم، اور مکولی اور نالہ اسومبر کے نیو تھمے شواران اور نیو پھری اور ایچو غون پھری دیکھنے کے قابل مقامات ہیں

صنا مو ڈھونگ : یہ سلطان آباد ہویلتی میں ایک ٹیلے پر قبر ستان ہے کہتے ہیں کہ یہا ں سکھوں کے قبر تھے اور مردوں کو ان کے ذاتی زیوارات کے ساتھ دفنایا گیا تھا ۔ لیکن افسوس اس زمانے کے لوگوں نے سلیمانی موتی کی تلاش میں ان قبروں کو بھی نہیں بخشا اور اب یہ کھڈے نظر آتے ہیں

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button