کالمز

یوم یکجہتی کشمیر 

تحریر : سید عبدالوحید شاہ

(ڈائریکٹر جنرل ، گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی )

۵ فروری کا دن سن انیس سو نوے سے ہر سال محترم قاضی حسین احمد صاحب(مرحوم) امیر جماعت اسلامی کی تجویز سے ، کشمیری مظلوم و مجبور مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے منایا جاتا ہے ۔ اس دن در اصل پورے سال کے ان مظالم و جبرو ستم کا جائزہ لیا جاتا ہے جو ہندوستانی افواج کی طرف سے مقبوضہ وادی میں ڈھائے گئے ہوں اور اس کے ساتھ ہی ان اقدامات پر بھی ایک نظر درڑائی جاتی ہے جو عالمی برادری یاحکومت پاکستان نے اس سال کے دوران کشمیری مسلمانوں کی حمایت او رحق خود ارادیت کے لئے اٹھائے ہوں ۔چنانچہ سن نوے سے پاکستانی قوم اور بیرون ملک مقیم کشمیری و پاکستانی عوام اقوام متحدہ کے دفاتر و مبصرین کو اس حوالے سے یادداشت پیش کرتے ہیں اور کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی ، جذبہ خیر سگالی اور ملی حمیت کا اظہار کرتے ہیں ۔

اسی زاوئیے سے اگر سال دو ہزار سولہ کا جائزہ لیا جائے تو ضلع بارہ مولہ میں اڑی کیمپ پر حملہ اور اس کی آڑ میں پاکستان کی خط متارکہ(لائن آف کنٹرول) پر ناکام و نام نہاد سرجیکل سٹرائک کے علاوہ پورا سال جس اہم واقعہ کے گرد گھومتا رہا ور جس نے سن اڑتالیس اور نوے کے بعد دوبارہ سے تحریک آزادی میں رو ح پھونکی وہ برہان مظفر وانی کی شہادت کا المناک سانحہ ہے ۔۸ جولائی ۲۰۱۶ کو برہان وانی کی شہادت تحریک آزادی کشمیر کے لئے مہمیز ثابت ہوئی اور بھارتی ذرائع ابلاغ کی معلومات کے مطابق اس تحریک میں وہ جوان بھی شامل و شریک ہوئے جو قبل ازیں ایسی تمام جدو جہد سے دور اور بھارت نواز جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کے انتخابات کی تحریک میں شامل تھے ۔ جنازے میں چار لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی جن کا تعلق ہر طبقہ زندگی سے تھا اور یہ لوگ کشمیر کے کونے کونے سے آئے تھے ۔اس شہادت نے جہاں تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی جہت دی وہیں اس بار ہندوستانی جمہوری دعووں کا بھیانک چہرہ بھی سامنے آیا جب غیر مسلح افراد پر ظلم کے نت نئے طریقے آزمائے گئے ۔ ان جدید اور انسانیت سوز مکروہ حربوں میں پیلیٹ گن کا استعمال ،ربڑ کی گولیوں کی بے دریغ اور آزادانہ بارش،نوجوانوں پرعقوبت خانوں میں بد ترین تشدد،خواتین کی عصمت و آبروریزی کے علاوہ سو سے زائدکشمیری جوانوں کی صرف اس سانحے کے پس منظر میں شہادت شامل ہے ۔پیلیٹ گن کا استعمال ایک ایسا انوکھا اور ستم کش ہتھیا ر تھا کہ جس سے سینکڑوں کشمیری جوان ،بوڑھے بچے اپنی بصارت سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دئے گئے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر کہیں سے کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔۸ جولائی کے روز ہی سے وادی میں لگنے والا کرفیو مہینوں تک چلتا رہا اور اس دوران معمولات زندگی بشمول سکول ،ہسپتال اور کاروباری مراکز مکمل بند رہے جس سے موت کے گہرے سائے وادی پر افگندہ رہے ۔اس دوران بیسیوں نوجوانوں کو اغوا ء اور غائب کیا گیا ، اور فوجی چھاونیوں میں ان پر مسلسل جبر کے پہاڑ توڑے گئے ۔مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ حتیٰ کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ (فیس بک)اور انٹرنیٹ تک کی رسائی مفلوج و معدو م کر دی گئی مبادا کہ بیرونی دنیا اس ظلم و بربریت سے آشنا ہو جو ہندوستانی فوج نے برپا کر رکھا تھا ،

یہ بظاہر اپنی نوعیت کا ایک واقعہ تھا مگر اس کے دور رس اثرات کا ہندوستانی سرکار کو اس قدر اندازہ نہ تھا ۔اس واقعے کے جلو میں پنپنے والی تحریک اس دفعہ کچھ اور ہی رنگ لئے تھی ۔ یہ مقامی لوگوں پر مشتمل ، ان ہی کے جذبات و احساسات کی عکاس تھی ۔ اس میں ان ہی کی نمائندگی اور ان ہی کا مطالبہ تھا ۔نہ تو اس میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث تھا نہ ہی یہ کسی بیرونی ایما و اشارے پر نمو پائی تھی ۔ یہ بلا شبہ تحریک آزادی کے لئے نیک شگون تھا اور ساتھ ہی ہندوستانی قبضے کے لئے آخری کیل ثابت ہونا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ اس کا اثر راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے ایوانوں میں خوب محسوس کیا گیا ۔جو کہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت اور ہندوستانی قابض افواج کے لئے نا قابل ہضم تھا ۔ چنانچہ ہر طرح کا دباو اور ہتھیا ر استعمال کیا گیا کہ اس تحریک اور اس کے اثرات کو بر وقت مسل دیا جائے ۔لیکن حکومت پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کی بدولت یہ لہر زندہ رہی اور کشمیری مقامی راہنماوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اقوام عالم کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ برہان وانی صرف ایک بائیس سالہ نوجوان کا نام نہیں بلکہ یہ وہ جذبہ آزادی اور خود مختاری ہے کہ جس سے وادی کا ہر ذی روح اور ہر ذی شعور انسان لبریز ہے ۔حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان آخر اس نہج پر کیوں کر پہنچا کہ اس کے سامنے صرف یہی ایک راستہ رہ گیا تھا کہ وہ مسلح جدو جہد کرے ،ایک طویل مگر واضح داستان ہے ۔جب اس کی آنکھوں کے سامنے سے اس کی اپنی عزیز و اقارب خواتین کی عصمت دری ہو اور کوئی مداوا نہ ہو بجز اس کے کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کار زار میں کود پڑے تو یہ لمحہ ضمیر عالم کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔صدی بھر کی طویل شب ظلمت بالاٰخر سحر ہونے کو ہے جس کا عندیہ یہی بغاوت اور شورش ہے ۔ فوجی پہروں اور سنگینوں کے سائے تلے پلتے یہ نوجوان اب آزادی اور سکھ کا سانس لینا چاہتے ہیں اور اب وہ اس حق کو بزور بازو ہی حاصل کرنے کے درپے ہیں ۔

ڈوگرہ کی غلامی کے طوق سے آزادی کی سعی میں اس قوم کی کئی نسلیں گذر گیءں مگر یہ طوق تھا کہ نسل در نسل اور مالک در مالک بدلتا گیا ،بعینہ ذوق آزادی بھی رگ وپے میں سرائت کئے ہوئے خون در خون منتقل ہوتا رہا ۔اور صدیوں کی اس غلامی اور حاکموں کی تبدیلی کے باوجود بھی ہر نئی پود نئے جذبے ولولے اور عزم آزادی سے لبریز قطار اندر قطار جام شہادت نوش جاں کرنے کو تیا ر ہے ۔برہان وانی اسی نئی پود اور نئی سوچ و فکر کا علمبردار تھا ۔بقول شاعر

گلشنس پیٹھ راج کرنک حق چھہ تمنےٗ
بلبلن یم گھٹن منز گاش ہاون آلٗ پنین زالہ زالہ

گلشن پہ راج کرنے کا حق بہر حال ان ہی بلبلوں کا ہے ، جو آندھیوں میں اپنے گھونسلے جلا جلا کر چراغاں کریں ۔

تحریک آزادی کشمیر تقسیم ہند کا وہ نا مکمل نقطہ ہے کہ جس کے بغیر برصغیر میں پائیدار امن کی خواہش دیوانے کا خواب ہی ہے ۔مزید برآں ہزارہا صدیوں کی انسانی تہذیب اس خطہ جنت نظیر میں جن مخدوش حالات سے دوچار ہے اور عالمی ضمیر کی جس ستم ظریفی کا شکار ہے یہ بلا مبالغہ تاریخ عالم کے ایک سنہرے باب اور بے مثل خزینے کے ساتھ نا انصافی ہے ۔کشمیری تہذیب و ثقافت ، علم و ہنر ، فن و فنکار ،آثار قدیمہ ، رہن سہن اور طرز معاشرت جس عدم استحکام کے زیر اثر ہے وہ نا قابل تلافی نقصان پر منتج ہو گا ۔اور اس زرخیز سرزمین کی پیدا وار ماند نہ پڑ جائے کہ جس نے علامہ اقبال ،انور شاہ کشمیری،محمد دین فوق جیسے سینکڑوں شعراء، محدث،فقیہہ اور مؤرخ پیدا کئے ۔خطہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور لازمی محل وقوع اس کی اہمیت کو ہر چند بڑھا دیتا ہے اور موجودہ دور عالمگیریت (گلوبلائزیشن)میں اس کا محل و مقام اس خطے کو دنیا کی ابھرتی ہوئی ان تمام طاقتوں کے عین وسط میں لا کھڑا کر دیتا ہے کہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں ۔ہندوستانی مظالم اور زبردستی کا یہ قبضہ در اصل اسی نیت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہندوستان ان تمام مستقبل کے مواقع سے بخوبی آشنا ہے جو اس خطے کو زیر تسلط رکھنے میں اسے حاصل ہو سکتے ہیں ۔جن میں آبی وسائل ، معدنی ذخائراور جغرافیائی محل وقوع اہم ترین ہیں ۔اس کے بر عکس اسے ان معاملا ت سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے اس غاصبانہ رویے سے کس انسانی المیہ کا جنم ہو چلا ہے جو اس کی جمہوری ہوس کا ثبوت عبرت ہے ۔

آزادی کی موجودہ تحریک اور پاکستان سے الحاق کے حامی بزرگ راہنما سید علی گیلانی اس خانوادے اور تحریک سے تعلق رکھتے ہیں جو کشمیر کا الحاق پاکستان سے کروانے کے لئے اپنی ساری زندگی مرد آہن کی طرح برسر پیکار رہے اور اس پیرانہ سالی میں بھی اپنے مقصد و مشن سے یک سر مو پیچھے نہ ہٹے ۔ان کی توانا آواز اب بھی وادی کے گوشے گوشے میں گونجتی ہے کہ کشمیر کی تہذیب ، مذہب ، رہن سہن ، بودوباش ، خیالات ، نظریات یہاں تک کی یہاں کے دریاوں کا رخ بھی پاکستان کی طرف ہے ۔ ان کے الفاظ میں سری نگر میں چلنے والی ہوائیں بھی مظفر آباد اور راولپنڈی سے ہی آتی ہیں ۔ریاست کشمیر کا پاکستان سے یہ رشتہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ریاست کی آزادی اور اس کے پاکستان سے الحاق کی تمام اخلاقی اور سفارتی تدابیر کو حکومت پاکستان بروے کار لائے اور اقوام عالم میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے خطے کی اس قدیم ترین تہذیب کے حامل علاقے کو دوبارہ سے اپنے روشن مستقبل کی طرف گامزن ہونے میں مدد کرے ۔(اس موقعہ پر بہرحال ہمیں امان اللہ خان صاحب کا تذکرہ لازمی کرنا چاہیے کہ جو تمام عمر خطہ کشمیر کی سالمیت ، آزادی ،خودمختاری اور تشخص کی داستان جہد مسلسل رقم کرتے رہے اور جس قدر عالمی توجہ وہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہوئے شائد ہی کسی کو اس قدر کامرانی ملی ہو ۔انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں اسی مقصد کی بر آوری کے لئے وقف کر دی تھیں اور امید کاچراغ لئے جلا وطنی کی زندگی گذارتے ہوئے فیض احمد فیض کے اس شعر کو عملی جامہ پہنایا

جو ہم پہ گذری سو گذری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

سال دو ہزار سولہ میں تحریک آزادی کا یہ روشن و درخشندہ ستارہ بھی ڈوب چلا۔اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور بیشتر مواقع میسر آنے کے باوجود بھی ا نہوں نے درویشانہ زندگی کو فوقیت دی اور اپنی حیات و ممات کا بس ایک ہی مقصد تحریک آزادی رکھا ۔ضلع استور کے اس تنگ و دور افتادہ علاقے سے وابستگی اور تاحیات اس مٹی سے محبت کو نبھانے کی خاطر انہوں نے اپنی جائیداد وقف کر دی اور اب ان کے آبائی پرانے طرز کے کشمیری گھر میں تعلیمی درسگاہ ہے ۔قوی امید رکھنی چاہیے کہ ان کی کاوشیں لازمی رنگ لائیں گی اور ان کا وہ خواب ضرور پورا ہو گا جس کے لئے وہ بہت مثبت اور پر امید تھے ۔ریاستی افق کے ان چند روشن ستاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے کہ جن کا غروب ان کا زوال نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ قوم کے لئے مثل رہبر موجود رہتے ہیں ۔

خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را

۵ فروری کا دن یوم یکجہتی کے علاوہ ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی فرمان پر عملی تدبیر کی دعوت دیتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے اور پاکستان کی جغرافیائی و تہذیبی تکمیل خطہ کشمیر کے الحاق کے بعد ہی ممکن ہے ۔کشمیری مظلوم عوام کی بھر پور حمایت سے دریغ کسی صورت بھی نہ کیا جائے کہ جو ہماری تکمیل کی جدو جہد کر رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو اس نامکمل ایجنڈے سے روشناس کرایا جائے اور اس کی اہمیت و افادیت کے لئے انہیں بر صغیر کے ان خاص حالات سے آگاہ کیا جائے جن کے تحت ملک خداداد پاکستان کی تشکیل عمل میں آئی تھی ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button