تحریر : سید عبدا لوحید شاہ
مقابلے کے امتحان سی ایس ایس میں اردو ادب کا انتخاب کچھ اتفاقی اور کچھ ارادی تھا ۔تاریخ زبان اردو ، اردو شاعری ، ناول اور ڈراموں کے علاوہ جو اہم اثاثہ لا شعوری طور پر پڑھنے کو ملا وہ بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ تھا ۔ ناول تہ در تہ اور پرت در پرت ہے ۔عام ذہن کی رسائی کچھ دقت آموز رہتی ہے ۔ چونکہ مقابلے کے کٹھن مرحلے کے لئے اس کی تیاری کرنا مقصود تھی سو اتنی مرتبہ پڑھا کہ شائد ہی کسی کو اس قدر اس ناول کو دیکھنے پرکھنے کا موقع ملا ہو۔ راجہ گدھ کی خالق ۴ فروری ۲۰۱۷کی شام اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے ان کواڑوں کو بھی مقفل کر دیا کہ جن سے تانک جھانک کر کے کبھی اشفاق احمد ، کبھی ممتاز مفتی تو کبھی ہمارے بزرگ بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کی شبیہ دیکھی جا سکتی تھی ۔
کسے خبر تھی کہ۲۸ نومبر ۱۹۲۸ کو پیدا ہونے والی سیدھی سادھی پنجابی گھرانے کی یہ خاتون اردو تاریخ کے بیسویں صدی کے سب سے قدآور اور مضبوط جھرمٹ کا حصہ بنے گی ، اگرچہ گریجویشن میں ریاضی پڑھی تا ہم گورنمنٹ کالج کے اساتذہ کے مشورہ پر ماسٹرز کے لئے اردو ادب کی جماعت میں داخلہ لیا جہاں ان کی ملاقات ا س صدی کے عظیم ادیب دانشور اور مصنف اشفاق احمد سے ہوئی اور ازاں بعد انہی کے توسط سے ممتاز مفتی ، ابن صفی اور قدرت اللہ شہاب جیسے نابغہء روزگار نگینے میسر آئے ۔اردو ادب میں آپ کی پہچان آپا کے نام سے ہے اور یقینی طور پر کہا جاتا ہے کہ جب تک راجہ گدھ کا درس نہ لیا جائے اردو ادب کی شناسائی اور اصل کا پتہ معلوم نہیں دیتا ۔آپ کی تخلیق کردہ کتابوں میں قدرت اللہ شہاب پر لکھی تحریر مرد ابریشم کے علاوہ ڈراموں میں فٹ پاتھ کی گھاس ، لگن اپنی اپنی ، پھر اچانک یوں ہوا ، چھوٹا شہر بڑے لوگ شامل ہیں جب کہ ناولوں میں راجہ گدھ ، حاصل گھاٹ اور شہر لازوال جیسے شہرہ آفاق ادب پارے ہیں ، اور اسی طرح افسانوں میں ہجرتوں کے درمیاں اور دست بستہ جیسی لا زوال تحریرں ہیں ۔ آپ کی ہرتحریر اپنے اندر احساسات و جذبات کا سمندر لئے ہوئے ہے اور انسانی نفسیاتی رویوں کو اتنے قریب سے پرکھنے کا مشاہدہ موجود ہے کہ مرد لکھاری بھی کبھی کبھار اس بیباکانہ جراء ت رندانہ پہ ششدر رہ جاتے ہیں ۔ زبان کی روانی مگر سادگی قاری کو کھینچتی ہی چلی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ نفسیات و عقل کی ایسی ایسی گتھیوں کو سلجھاتی جاتی ہیں کہ جن کے لئے عام زبان ، لب و لہجہ مستعمل ہو ہی نہیں سکتا مگر مجال ہے کہ بانو قدسیہ کے ہاں کوئی مشکل عبارت آرائی ، ثقیل محاروں کا استعمال یا پھر اپنی ادب شناسائی کا ذرہ بھر بھی شائبہ ہو ۔ وہ سادہ الفاظ و زبان میں اپنا مدعا نہ صرف بیان کرتی ہیں بلکہ قارئین کو اپنے ساتھ ساتھ لئے گھومتی رہتی ہیں ۔کبھی تصوف کی گہرائیوں میں تو کبھی انسانی نفسیات کی تہوں میں ، کبھی کھیل کود کے میدانوں میں تو کبھی جذبات ہجر و وصل کی پیچ درد پیچ راہوں میں ۔الغرض ان کا اشپ قلم جہاں کہیں بھی رواں ہو وہ بے مہار نہیں رہتا ، وہ ضبط و نظم کے بندہن میں رہتا ہے ۔مگر چرتا ہر ہر چراگاہ سے ہے ۔
بلا مبالغہ کہا جاتا ہے کہ بانو قدسیہ اور کچھ بھی تحریر نہ کرتیں فقط راجہ گدھ پہ ہی اکتفا کر لیتی تو بھی ان کا اس حلقہء صوفیا و ادباء میں ہمیشہ سے نام زندہ و جاوید رہتا جس کا وہ جزو لازم تھیں ۔اس ناول میں انسانی نفسیات ، جذبات محبت اور اس سب سے بڑھ کر فلسفہ حلال و حرام پر اس قدر دقیق انداز سے بحث کی گئی ہے کہ قاری لا شعوری طور پر اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ مال حرام کس طرح باعث وبال اور ذریعہ شرمندگی و خفت ہے ۔میرے ذاتی مطالعہ کے مطابق حلال و حرام کا جو تصور اور مکافات کا جو پیرایہ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ شائد آپ ایک ضخیم مذہبی کتاب کے مطالعے کے بعد بھی حاصل نہ کر سکیں ۔ ناول ایک خوبرو کشمیری جوان آفتاب اور اسی قدر چلبلی نازک اندام سیمی شاہ کی بظاہر ایک محبت کی داستان ہے جو گورنمنٹ کالج لاہور کی راہداریوں اور ہاسٹل سے ہوتے ہوئے گھومتے گھماتے انار کلی کے راستے سے باغ جناح کے برگد کے درخت تلے پہنچتی ہے مگر اہل بصیرت و بصارت کے لئے بہت سے ایسے در وا کر دیتی ہے کہ جن سے لوٹنا فی نفسہ ظلم محسوس ہوتا ہے ۔کس قدر سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ حرام طریقہ سے کمایا گیا آٹا اور حلال طریقہ سے کمایا گیا آٹا دونوں کی کیمیائی حالت برابر رہتی ہے ، مگر جس جزء کا فرق پڑ جاتا ہے وہ ان کی تا ثیر کا ہے ۔ دونوں کی تاثیر اپنے اپنے انداز کسب پر منحصر ہوتی ہے ۔ حلال سے کمایا ہوا مال انسانی صلاحیتوں اور خیر کی قوتوں کو تقویت دیتا ہے جب کہ اسی مال کو اگر حرام و ناجائز طریقہ سے کمایا جائے تو اس کے ایسے بد اثرات پیدا ہوتے ہیں کہ جن سے جان چھڑانا نا ممکن ہو جاتا ہے ۔اسی طرح انسانی نفس پر قابو پانے کا انداز اور اس کے ذریعے عرفان کی منازل طے کرنے کا گرُاتنے سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ سلوک کی ساری منازل ایک قدم کی دوری پر محسوس ہوتی ہیں ۔
آپ ناول پڑھتے جائیں اور محسوس کرتے جائیں کہ یہ اس قدر مشکل نہ تھا کہ اسے اپنایا جاتا مگر ہوا یوں کہ ہم نے اپنے شعور کو تحت مغرب کر لیا ۔ یعنی جو فلسفہبراستہ مغرب آئے سو ہی قابل قبول ورنہ اس کی بنیاد و معیار پر شک و شبہ۔ بانو قدسیہ نے اس ستم ظریفی کو بھی بہت احسن انداز میں پنجاب یونیورسٹی کی تاریخی نہر کنارے بیٹھے پرو فیسر صاحب اور ان کے شاگرد کے توسط سے پیش کر ڈالا ۔ کہ یہی نظریات جو اس نادل میں ہیں اور مشرقی انداز میں بیان ہوئے ہیں ، یہ اس وقت تک قابل عمل و تقلید نہیں سمجھے جائیں گے جب تک کہ کوئی مغرب سے ان کی نقالی میں کوئی دلیل نہ لائے ۔نظریہ حلال و حرام کو ،جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف رزق تک محدود ہے ، بانو قدسیہ نے اس کی اصل روح تک اس کی وضاحت کر دی ہے کہ ہمارے تمام اعمال و افعال اور ہر طرح کے برتاو اس زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں ذرہ برابر بھی بے احتیاطی برتی جائے ۔تو معاملات کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں ۔صوفی ادباء کی قبیل کی آخری لڑی کے طور پر بانو قدسیہ نے بلا شبہ اس روایت کی پاسداری کی جس کا امین ان کو ان کے مرحوم سابقین ساتھی بنا کر چل دیے تھے ۔انہوں نے ان ہی نظریات کا پرچار کیا جن کی بناء قدرت اللہ شہاب اپنے شہاب نامہ میں ، ممتاز مفتی الکھ نگری میں اور خود اشفاق احمد اپنے سلسلہ ء زاویہ میں مضبوطی سے رکھ چکے تھے ۔تا ہم بانو قدسیہ نے اس سلسلہء ذمہ داری کو بطریق اتم آگے بڑھایا اور یوں ان دریچوں کے پیچھے ہمیشہ کے لئے جا پنہاں ہو گئیں ۔مگر ان کی تحریریں اردو ادب کا بے مثل ورثہ ہیں اور تا ابد یہ اردو قارئین کے ذوق و شوق کی آبیاری کرتی رہیں گی ۔
بقول ناصر کاظمی ۔
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وہ
This chap is drawing his salary from Gb budget, but really time to write for news papers??